کُوچ کا سمے (افسانہ)

نعیم گِیلانی

نجانے مجھے یقین کیوں نہیں آ رہا تھا کہ یہ ہماری آخری ملاقات تھی ۔ وہ ابھی چند لمحے پہلے میرے کمرے سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوئی تھی ۔ اس کے جانے کے بعد کمرے میں صحراؤں سے کارواں گزر جانے کے بعد والا سکوت طاری ہوگیا تھا ۔ مجھے ایسے لگا جیسے میرے اندر یادوں کے ٹیلوں سے کھسکتی ہوئی ریت دھیرے دھیرے میرے وجود کو گھیرتی جارہی ہے ۔ میں اس گہرے اور المناک سکوت سے گھبرا گیا اور اس سے نکلنے کے لیے زور سے کھانسا ۔ میرے کھانسنے سے خامشی کچھ کم ہوئی اور کمرے میں مختلف قسم کی آوازیں پھیل گئیں ۔ آغاز میں یہ آوازیں قدرے مدہم تھیں مگر کچھ ہی دیر بعد فرش سے لے کر چھت تک سارا کمرہ ان آوازوں کے شور سے بھر گیا ۔پہلے تو مجھے ان آوازوں کی کچھ سمجھ نہ آئی مگر چند ثانیوں کے بعد یہ آوازیں مجھ پر واضح ہوتی چلی گئیں ۔ ان آوازوں میں سب سے زیادہ تیز آوازیں کارنس پر رکھے ہوئے نیلے رنگ کے ایک گلدان ، دیوار پر لٹکی ہوئی میری مرحومہ ماں کی تصویر ، ایک پرانے وال کلاک (جو ہمیشہ وقت کی خرابی کی اطلاع دینے پر مامور تھا) اور دروازے کی زنگ آلود کنڈی کی تھیں ۔ ان آوازوں کے ساتھ۔۔ میز پر رکھی ہوئی ایش ٹرے ، کتابوں کی الماری کے دوسرے خانے میں پڑی ہوئی میری سنہری فریم والی عینک ، ہاتھی دانت کے بنے ہوئے تاج محل ، کھونٹی پر لٹکے ہوئے کوٹ ، (جس کی اندرونی جیب میں گلابی رنگ کے ٹشو پیپر میں لپیٹا ہوا ایک سنہری بال رکھا ہوا تھا) اور میری کرسی کی آوازیں بھی شامل تھیں ۔

گلدان کچھ زیادہ ہی غصے میں تھا اور کہہ رہا تھا:
”میرے خیال میں اس بے وفا لڑکی مہر النساء، جسے بے مہر النساء کہنا زیادہ مناسب ہے ، محبت کی خوشبو سے واقف ہی نہ تھی ۔ اس سے زیادہ قصور اس قیوم کا ہے ۔ جس نے اسے اس کے ظرف سے زیادہ محبت دی اور اس کی کم ظرفی پھولوں کے بجائے کانٹوں کی صورت ظاہر ہوئی ۔ اسے قیوم کی محبت کے چار سال گزارنے کے بعد اب یاد آیا کہ دونوں کے مزاج میں فرق ہے!؟ فرض کریں کہ اگر دونوں کے مزاج میں واقعی فرق تھا تو اس سے مہرو کو بھلا کیا فرق پڑا۔۔؟ میں تو چار سالوں سے یہی دیکھتا آیا ہوں کہ اس بے مہر النسا نے قیوم سے جو بھی کہا ، اس مٹی کے مادھو نے چپ چاپ اس کو مان لیا بلکہ وہ بھی مان لیا، جو اس کے مزاج کے سراسر خلاف ہوتا تھا ۔ مجھے قیوم پر اس بات کا بہت زیادہ غصہ ہے کہ یہ اس کی سب غلط سلط باتیں خامشی سے کیوں سنتا رہا۔۔؟ اسے آئینہ کیوں نہیں دکھایا۔۔؟ اسے وہ سب کیوں نہیں کہا جو کہنا چاہیے تھا۔“

گلدان کی یہ کڑوی کسیلی باتیں سن کر میری ماں کی تصویر سے چپ نہ رہا گیا اور رندھے ہوئے لہجے سے کہنے لگی:
”تم کیا جانتے ہو میرے قیومے کو۔۔۔ یہ تو سدا سے ایسا ہی معصوم تھا ۔ بچپن میں اسے کوئی کچھ بھی کہہ لیتا ، یہ خامشی سے سنتا رہتا یا اکیلے میں رو کر دل کا بوجھ ہلکا کر لیتا ۔ کسی کو سخت جواب دینا اس کی فطرت میں ہے ہی نہیں ۔ بلاوجہ میرے بچے کو الزام مت دو“ اتنا کہہ کر ماں کی تصویر اونچی آواز میں رونے لگی ۔

دروازے کی کنڈی، جو پتا نہیں کب سے اپنے آنسو روکے ہوئے تھی ، تصویر کو روتے دیکھ کر اس کی آنکھیں بھی ساون بھادوں ہو گئیں ۔ وہ آہستہ آہستہ ایسے لرز رہی تھی، جیسے ابھی ٹوٹ گرے گی ۔ اس نے نم گرفتہ نظروں سے سارے کمرے کو دیکھا اور بولی:
”میں چار سالوں سے اس کی ایک ایک عادت کو جاتنی ہوں ۔ آج سے پہلے وہ جب بھی کمرے میں داخل ہوتی تو سب سے پہلے سیدھے ہاتھ سے مجھے پکڑتی اور تسلی سے بند کرتی ۔ مگر آج جب وہ آئی تو اس نے دروازہ کھلا ہی چھوڑ دیا ۔ یہ دیکھ کر میرا ماتھا ٹھنکا کہ آج ضرور کچھ غلط ہونے والا ہے ۔اب میں سمجھی کہ مہرو نے آج دروازہ اس لیے بند نہیں کیا کہ وہ آج رکنے نہیں، بلکہ جانے کے لیے آئی تھی ۔ اس کی تو ہر دستک میں چاہت کی بازگشت ہوتی تھی۔ سچی بات ہے مجھے اس لڑکی سے یہ توقع ہر گز نہ تھی کہ وہ قیوم کو اس طرح چھوڑ کر چلی جائے گی ۔ اس کے سینے میں بہت محبت کرنے والا دل دھڑکتا تھا۔ وہ تو ساری کی ساری پیار کی برکھا میں بھیگی ہوئی تھی۔۔“

”تم بنا سوچے سمجھے ، بنا کچھ جانے ، اس کی صفائیاں دینے کی فضول کوشش مت کرو “ میز پر پڑی ہوئی ایش ٹرے نے چلّانے والے انداز میں دروازے کی کنڈی کو جھڑکا ۔

پھر اپنے آواز کو کنٹرول کرتے ہوئے کہا ”قیوم کے دل کو جتنا اس ہرجائی نے سلگایا ہے۔ اتنا تو شاید۔۔۔۔۔۔“

ایش ٹرے نے ابھی اپنی بات مکمل نہیں کی تھی کہ اسے کھانسی کا شدید دورہ پڑ گیا اور اس کی آنکھیں جلتے ہوئے سگریٹ کی طرح سرخ انگارہ دکھائی دینے لگیں ۔ اس نے کچھ دیر خاموش رہ کر اپنا سانس بحال کیا اور دوبارہ کہنےلگی:
”میں انسانوں کی فطرت شناس ہوں ۔ میں لہجوں کے جلنے بجھنے کو خوب پہچانتی ہوں ۔ میں کچھ عرصے سے اس کے بدلتے ہوئے انداز سے یہ جان چکی تھی کہ اس کی محبت کا شعلہ بجھ کر راکھ ہو چکا ہے ۔ ذرا سی دیر باقی ہے کہ ہجر کا زہریلا دھواں قیوم کے وجود کے اندر تک پھیل جائے گا۔ میرا اور قیوم کا کتنے ہی سالوں کا ساتھ ہے ۔ میں جانتی ہوں کہ قیوم ساتھ چھوڑنے والوں میں سے نہیں ۔ مگر مجھے لگ رہا تھا کہ وہ خود اس کا ہاتھ چھوڑنے والی ہے ۔ میں تو کہتی ہوں کہ اسے ہمارے قیوم کے ساتھ کبھی محبت تھی ہی نہیں۔“

ایش ٹرے کی باتیں سن کر مجھے غصہ آ گیا ۔ کم از کم یہ تو غلط ہے کہ اسے مجھ سے کبھی محبت تھی ہی نہیں۔۔۔ اس نے مجھ سے بہت محبت کی۔۔ اس نے مجھے اپنا سب کچھ دے دیا۔۔ اس نے میرے خارزاروں کو مرغزاروں کا حسن عطا کر دیا ۔ ٹھیک ہے وہ مجھے چھوڑ گئی، مگر میں اس کے خلاف غلط بات تو نہیں سن سکتا نا!!

میں نے کھنگار کر اپنا گلا صاف کیا اور اپنی بات شروع کرنے کے لیے ہونٹ کھولے ہی تھے کہ ہاتھی دانت کے بنے ہوئے تاج محل کی گھمبیر آواز کمرے میں پھیل گئی ۔ وہ کہہ رہا تھا:
”نادانو! تم سب تصویر کا ایک رخ ہی دیکھ رہے ہو ۔ دیوار کے پار بھی دیکھنے کی کوشش کرو۔ ممکن ہے سب ویسا نہ ہو، جیسا تمہیں نظر آ رہا ہے۔ کوئی اپنے خوابوں کی یادگار کے فصیل و گنبد و مینار خود ہی نہیں ڈھاتا ۔ کوئی اپنی محبت کا تاج محل اپنے ہاتھوں سے مسمار نہیں کرتا ۔ کوئی بھی اپنے سپنوں کی غلام گردشوں کو خود ویران نہیں کرنا چاہتا ۔ وہ بھی ، جو ابھی اپنی آنکھوں میں جمنا کے پانیوں کی روانیاں لیے یہاں سے رخصت ہوئی ہے۔۔ وہ بھی شاید قیوم کے عشق میں ممتاز ہو کر امر ہونا چاہتی تھی ۔ مگر تقدیر پر کسی شاہجہان کی حکمرانی نہیں چلتی ۔ قسمت کسی سے اس کی منشا نہیں پوچھتی ۔ تم نے دیکھا نہیں اس کے لہجے میں تھکے ہوئے لوگوں کی یاسیت۔۔۔ ڈرائے ہوئے دلوں کا عجز اور ہارے ہوئے انسانوں کی لکنت صاف نظر آ رہی تھی۔۔ مان جاؤ، اس نے جو بھی کیا ، کسی دیکھی ، ان دیکھی مجبوری کے تحت کیا ۔ میں جتنا دکھی قیوم کے لیے ہوں ، اتنا ہی مہرالنسا کے لیے ملول ہوں ۔کاش قیوم اسے روکنے کی کوشش کرتا ، شاید وہ رک جاتی۔“

ہاتھی دانت کے بنے ہوئے تاج محل کی باتیں سن کر تصویر کی گریہ و زاری میں شدت آگئی اور اس نے چلّا چلّا کر، مہر النساء کو روکو۔۔۔ مہر النساء کو روکو۔۔۔۔ مہر النساء کو منالو۔۔۔۔ مہر النساء کو بلا لو۔۔۔۔ کی گردان شروع کردی ۔

گلدان اور تاج محل اونچی آواز میں ایک دوسرے سے بحث کرنے لگے ۔ دونوں اپنے موقف سے ہٹنے پر تیار نہیں تھے ۔ جب شور حد سے بڑھ گیا تو میری سنہری فریم والی عینک نے، جو کتابوں کی الماری کے دوسرے خانے میں پڑی ہوئی تھی، سب کی طرف باری باری نظر دوڑائی اور اپنی دھیمی مگر پُرملال آواز کوقدرے بلند کرتے ہوئے کہا:
”میں نے مہرو کو بہت نزدیک سے دیکھا ہے ، وہ اپنے شیشے جیسے وجود پر عشق کا بھاری پتھر اٹھائے پھرتی تھی ۔ اس کا مرکزِ نگاہ ہمیشہ قیوم کی ذات ہی رہی ۔ اس کی آنکھ کی پتلی ہر اس منظر کو دیکھنے پر روشن ہو جاتی، جس کے پس منظر میں محبت کا نورجلوہ گر ہوتا ۔صاف نظر آتا تھا کہ وہ قریب و دور کے ہر نظارے میں ذاتِ محبوب کے رنگوں کو چن چن کر اپنی بصارت کا حصہ بنانا چاہتی ہے۔ شیشوں کے پیچھے سے جھانکتی ہوئی اس کی خوب صورت آنکھوں میں کچھ کچھ چاہنے۔۔۔ اور زیادہ چاہے جانے کی خواہش ہلکورے لیتی رہتی تھی ۔ اس کی آنکھوں میں محبت کا لازوال اور ہفت رنگ عکس جھلملاتا رہتا تھا ۔ ہاں! میرا یقین کرو کہ مہرو ایسی ہی تھی مگر پھر۔۔۔۔ خدا جانے ایسا کیا ہوا کہ محبت سے اس کا جی اچاٹ ہو گیا۔ اس کی عینک کے شیشوں سے در آنے والے سارے منظر آہستہ آہستہ دھندلانے لگے ۔ وہ اپنے آنچل سے ان شیشوں کو بار بار صاف کرنے کی کوشش کرتی ۔ مگر قریب کے سارے منظر دور اور محبت کےسارے جلوے بے نور ہونے لگے ۔ وہ گھنٹوں خودکلامی کرتے اور خود سے لڑتے ہوئے گزار دیتی ۔ اپنی دلیلوں کو آپ ہی رد کر دیتی ۔ مگر نتیجے کے طور پر محبت کے سات رنگوں پر غالب آجانے والی سفیدی دور نہ ہو سکی ۔ ان پیڑوں پر دوبارہ بور نہ آیا، جن کو بے یقینی اور بد گمانی کی گرم ہوانے چاٹ لیا تھا ۔تب! میں نے مہرو کو بہت غور سے دیکھا۔۔۔۔ وہ اپنے شیشے جیسے وجود کے اندر ہونے والی ٹوٹ پھوٹ اور شکستگی کے سامنے قائم نہ رہ سکی اور قیوم کو ہار بیٹھی ۔ اگر وہ عشق کے صراطِ مستقیم پر بے گمان و بے تکان چلتی رہتی تو سکون اور اطمینان کی اس منزل کو پالیتی جو نصیب والوں کو ہی نصیب ہوتی ہے۔“

مجھے یاد آیا کہ ایک دن گاڑی میں بیٹھے ہوئے وہ اپنی عینک کے شیشے صاف کر رہی تھی ۔ شاید ایک شیشے پر انگلی کا دباؤ زیادہ پڑ گیا ۔ شیشہ ”کرچ“ کی آواز کے ساتھ فریم سے باہر نکل آیا ۔اس نے مخصوص انداز میں ”حد ہے بھئی“ کہتے ہوئے عینک اور باہر نکلا ہوا شیشہ میری طرف بڑھا دیا ۔ میں نے ذرا سی کوشش کے بعد شیشہ فریم میں فٹ کرکے عینک اس کی طرف بڑھا دی ۔ اس نے عینک پکڑی اور اپنے ونٹی بیگ میں ڈال کےمجھے کہنےلگی:
”قیوم! اب مجھے یہ عینک نہیں پہننی، بس مجھے آج ہی نئی عینک بنوا کر دو۔“

”یہ کیوں نہیں پہننی میری سرکار نے؟“ میں نے پوچھا

”اس لیے کہ۔۔۔ تم مجھے نئی لے کر دو۔۔۔۔ اور تم جو عینک مجھے لے کر دو گے، اس کو پہن کے میں جو منظر بھی دیکھوں گی ، اس میں تمہاری محبت کے سات رنگ شامل ہوں گے۔“

میں نے اگلے ہی دن اسے نئی عینک لے دی ۔ وہ عینک پہن کے بہت خوش ہوئی، کہنے لگی:
”میری آنکھوں پر یہ عینک زیادہ اچھی لگی نا؟“

میں نے کہا ”نہیں ، عینک کے پیچھے تمہاری آنکھیں زیادہ اچھی ہیں“

ہنستے ہوئے کہنے لگی
”اچھا!! چلو میری اس نئی عینک پر کوئی پیارا سا شعر کہو۔۔“

میں نے کہا:
”تمہاری دور کی عینک سے یہ گلہ ہے مجھے
قریب بیٹھا اِسے میں…… نظر نہیں آتا“

پتا نہیں شعر سن کر اس پر کیا کیفیت طاری ہوئی کہ منہ دوسری طرف پھیر لیا ۔ میں نے دیکھا وہ پلو سے آنکھوں کا نم صاف کر رہی تھی۔۔۔۔
اور اب۔۔۔ اس لمحے میں نے محسوس کیا کہ میری آنکھوں کا نم میرے رخساروں سے نیچے ڈھلک رہا تھا ۔ میری عینک شاید کچھ اور بھی کہتی مگر اس کا گلا رندھ گیا اور کمرے میں ایک بار پھر صحرائی سکوت طاری ہو گیا

ممکن ہے یہ سکوت شامِ ابد تک جاری رہتا کہ کھونٹی پر لٹکے ہوئے میرے کوٹ نے اپنا دایاں بازو ہوا میں لہرایا اور زور زور سے بولنے لگا ۔ وہ کہہ رہا تھا:
”تم۔۔۔ تم سب۔۔۔۔ تم سب اس کرب کا اندازہ ہی نہیں لگا سکتے، جو کسی سے ایک بار ملنے ، گلے لگانے اور پھر جدا ہو جانے کے بعد جسم و جاں میں در آتاہے ۔ ملنا اور مل کے بچھڑن۔۔۔ ایک ایسے بے انت درد کا نام ہے، جو انسان کی روح پر ان گنت سلوٹیں ڈال کر رخصت ہوتا ہے ۔ یہ ایسا زخم ہے، جس کی بخیہ گری جدا ہونے والے کے سوا اور کوئی نہیں کر سکتا ۔ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی اور انسان ٹوٹے ہوئے بٹن کی طرح گر کر دنیا کی نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے ۔ آستینوں میں پلنے والے ہجر کے زخم جسم کو اندر سے نیلا کر دیتے ہیں ۔ جدائی کے دن کاٹنے والوں کی کالر میں پھول نہیں سجا کرتے ، بلکہ کانٹوں کی نوک ان کی رگِ جان میں پیوست رہتی ہے ۔ ہجر زدہ لوگوں کے ٹوٹے ہوئے دل اور پھٹی ہوئی جیب کا دوسروں کو احساس تک نہیں ہوتا مگر وہ ساری عمر اس حالت میں گزار دیتے ہیں کہ ان کا ایک ہاتھ دل پر اور دوسرا ہاتھ اس جیب پر ہوتا ہے، جس کے اندر گلابی رنگ کے ٹشو پیپر میں لپٹا ہوا ایک سنہری بال بہت احتیاط کے ساتھ سنبھال کر رکھا ہوتا ہے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی زندگی کے سارے رنگ پھیکے پڑ جاتے ہیں اور ایک بے نام بدرنگی نمایاں ہونے لگ جاتی ہے۔۔۔“

مہرو کبھی کبھار جب بہت خوشگوار موڈ میں ہوتی تو میرا کوٹ اتار کر خود پہن لیتی ، ایک بار ایسا ہوا کہ ہم ایک پارک میں گھوم رہے تھے ۔ مجھے کچھ گرمی محسوس ہوئی تو میں نے اپنا کوٹ اتار لیا۔ مہرو نے کوٹ مجھ سے لیا اور اپنے بازو پر ڈال لیا ۔ کچھ دیر کوٹ کو غور سے دیکھتی رہی پھر حسبِ عادت پہن لیا اور اور مجھ سے کہنے لگی:
”قیومے! تمہارا کوٹ پرانا ہوگیا ہے ۔ دیکھو، اس کا رنگ پھیکا پڑنے لگا ہے اور اس کے بخئے بھی جگہ جگہ سے ادھڑنے لگے ہیں ۔ اس کی جیب بھی اندر سے پھٹی ہوئی ہے ۔ تم اپنے لیے ایک نیا کوٹ کیوں نہیں خرید لیتے۔۔؟“

”ابھی میرے پاس کوٹ کے لیے پیسے نہیں ہیں۔“ میں نے جواب دیا ۔

وہ کچھ دیر چپ رہی ، اپنے بیگ کو کھولا اور اندر جھانکتے ہوئے مجھے کہنے لگی: ”تمہارے پاس اتنا وقت ہے کہ مجھے کسی بڑی مارکیٹ میں لے جا سکو؟“

”ہاں، کیوں نہیں۔۔ مگر تم مارکیٹ کیوں جانا چاہتی ہو؟“ میں نے پوچھا

”مجھے اپنے لیے کچھ چیزیں خریدنی ہیں ۔ پلیز چلو نا؟“

وہ مجھے لے کر گارمنٹس کی ایک شاپ میں گھس گئی اور ڈارک بلیوکلر کا ایک نیا کوٹ خریدا ، وہیں کھڑے کھڑے میرا پراناکوٹ اتارا اور نیا کوٹ پہنا دیا ۔ مجھے یہ کوٹ بہت عزیز تھا ۔ میں اسے کبھی کبھار یعنی اہم موقعوں پر ہی پہنتا ، یا تب پہنتا جب وہ میرے ساتھ ہوتی ۔ عام دنوں میں یہ کھونٹی پر ہی لٹکا رہتا ۔ اس کوٹ کی دل دکھا دینے والی باتیں سن کر تصویر، جو کچھ دیر پہلے چپ ہوگئی تھی ، پھر اونچی آواز میں رونے لگ گئی ۔ کمرے میں ایک بار پھر ملی جلی آوازوں کا شور پھیل گیا

اب کے اس شور میں وال کلاک کی آواز سب سے زیادہ نمایاں تھی ۔ مجھے یقین ہو گیا کہ وال کلاک وقت کی مزید خرابی کا اعلان کرنے والا ہے ۔اس کی آواز لمحہ لمحہ سب آوازوں پر حاوی ہونے لگی ۔ کلاک کے عین نیچے دیوار کا پلستر جگہ جگہ سے اکھڑا ہوا تھا ۔ میں نے دل میں سوچا کہ اگر اس کی تھرتھراتی ہوئی سوئیوں کو مزید ڈھیل دی گئی تو میرے کمرے کی دیواروں کا سارا پلستر اکھڑ جائے گا ۔ وہ ایک ایسے کہن سالہ بھگت کی طرح رک رک کر اور نپے تلے لہجے میں بات کر رہا تھا، جیسے کتنی ہی صدیوں کو بھگتا کر اب میرے کمرے میں زندگی کے آخری دن پورے کر رہا ہو۔ اس کی آواز سارے میں اس طرح گونجی جس طرح کوچ کا نقارہ بجایا جا رہا ہو۔۔۔ وہ کہہ رہا تھا:
”زندگی کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ جب وقت میسر ہوتا ہے ، اس کی قدر نہیں کی جاتی اور دم بہ دم سرکتے ہوئے لمحوں کی دولت کو اس طرح ضایع کیا جاتا ہے، جیسے مفت میں ہاتھ لگی یہ میراث کبھی ختم نہیں ہوگی ، یہ نعمت کبھی زوال پذیر نہیں ہوگی۔۔ مگر اے صبح و شام کی ٹک ٹک کو فراموش کر دینے والو! یاد رکھنا ، وقت کسی کو فراموش نہیں کرتا ، وقت کی چکی تیزی سے پیستی ہے اور بہت باریک پیستی ہے ۔ نہایت عجلت سے گزرتا ہوا یہ وقت مانو صحرا کی خشک ریت کی مانند ہے کہ لمحہ لحہ مٹھیوں سے نکلتی جاتی ہے اور بالآخر خالی ہاتھ صرف مَلنے کے لیے باقی رہ جاتے ہیں ۔ گھڑی کو کلائی پر باندھا ہی اس لیے جاتا ہے کہ وقت پر ہر وقت نظر رہے۔ یہ دیواروں پر بڑے بڑے کلاک لگانے والے۔۔! کلائیوں پر مہنگی مہنگی گھڑیاں باندھنے والے۔۔۔! وقت کے سونے کو بے خبری کی خاک میں ملائے جاتے ہیں۔ جب وقت کی کار فرمائیوں کا پتہ چلنا شروع ہوتا ہے ، تب تک وقت ختم ہو چکا ہوتا ہے ۔ جب زندگی سمجھ آنے لگتی ہے ، تب تک زندگی اختتام کو پہنچ چکی ہوتی ہے ،جب محبت اپنے عروج پر پہنچ رہی ہوتی ہے، تب محبت کی دی ہوئی مہلت ہی تمام ہو جاتی ہے ۔“

وال کلاک نے دائروی انداز میں نظر گھما کر سب کو دیکھا ۔ دم بھر کو سانس لینے کے لیے چپ ہوا ۔ پھر دوبارہ کہنے لگا:
”محبت کی دی ہوئی مہلت ختم ہوتی ہے تو ایک لامختتم انتظار کا عرصہ شروع ہو جاتا ہے ۔ اہلِ دل اس عرصہ کو عالمِ برزخ سے بھی تشبیہ دیتے ہیں ۔جہاں ایک لمحہ ایک صدی کے سے بھی زیادہ طویل ہوتا ہے ۔ لگتا ہے ، ہر حالت میں حرکت میں رہنے والی گھڑی کی سوئیاں حرکت کھو چکی ہیں ۔ زمین کے چلتے ہوئے قدم رک چکے ہیں ۔ آخرِ کار وقت کے ہاتھ انسان کے نام کا ایک پوسٹ کارڈ لکھتے ہیں ۔ جس پر صرف ایک ہی تحریر درج ہوتی ہے۔۔۔ رخصتی کی تحریر۔۔۔ موت کا وقت۔۔۔ قضا کا بلاوا۔۔۔ اور کُوچ کا سمے۔۔۔“

وال کلاک کی باتیں سن کر دروازے کی کنڈی کے ہونٹوں سے بے اختیار سسکیاں نکلنا شروع ہوگئیں ۔ گلدان میری طرف حسرت سے دیکھتے ہوئے بے قراری میں کراہنے لگا ۔ ایش ٹرے وحشت سے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے چلّانے لگی ۔ میری عینک کی چیخیں دیواروں سے ٹکرانے لگیں ۔ہاتھی دانت کا بنا ہوا تاج محل ہائے محبت۔۔۔ ہائے محبت! پکارتا ہوا میز سے زمین پر گر پڑا ۔ کھوٹنی پر لٹکا ہوا ڈارک بلیوکلر کا کوٹ اپنے بازو سینے پر مارنے لگا اور الفراق۔۔۔ الفراق کہہ کر بلکنے لگا ۔ مرحومہ ماں کی تصویر دیوار سے لرز کر گری اور لڑھکتے ہوئے میرے سرہانے کے قریب پہنچ گئی۔۔۔۔۔ سارے کمرے میں رونے اور بین کرنے کی آوازیں گونجنے لگیں ۔ اور میں۔۔۔۔ مجھے ایسے محسوس ہوا کہ میں برگد کے اسی بوڑھے چھتناور پیڑ کے نیچے پہنچ گیا ہوں، جس کی موٹی شاخوں پر کتنی ہی پچھل پیریاں اور اڑھائی فٹے بونے مجھے دیکھ کرہنسا کرتے تھے ۔ اس برگد کے نیچے۔۔۔ جہاں کا سکوت مجھے ہمیشہ موت کے سکوت سے مشابہ محسوس ہوا کرتا تھا۔۔۔ میرے سینے پر کوئی ان دیکھا بوجھ بڑھنے لگا ، سانسیں رکنیں لگیں۔۔۔ میرے دھیان میں آخری بار ایک ساعت کے لیے مہرو کی صورت ابھری اور میری آنکھیں بند ہونے لگیں۔۔۔۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close