اسقاط حمل کے متعلق امریکی سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ۔۔۔ مقدمے کا پس منظر کیا ہے؟

ویب ڈیسک

امریکہ میں سپریم کورٹ نے ماضی میں دیے گئے اپنے ہی ایک فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اسقاط حمل کے آئینی حق کو ختم کر دیا ہے

مجوزہ قانون اسقاط حمل کے حوالے سے سن 1973 کے رو بنام ویڈ کیس میں اس تاریخ ساز فیصلے کی جگہ لے گا جس کے ذریعہ ملک بھر میں اسقاط ِ حمل کو جائز قرار دیا گیا تھا۔اور اس کے نتیجے میں نصف صدی سے تمام امریکی خواتین کو حاصل اسقاطِ حمل کے حق کا خاتمہ ہو جائے گا

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 1973 میں امریکی سپریم کورٹ نے ’ رو بنام ویڈ‘ کے تاریخی فیصلے میں ابارشن کو آئینی حق قرار دیتے ہوئے حمل ٹھہرنے کے بعد تب تک اسقاط کی اجازت دی تھی، جب تک رحم مادر میں موجود بچہ اس کے باہر سانس لینے کے قابل نہ ہو جائے اور اس کے بعد بھی مخصوص حالات میں ابارشن کے حق کو تحفظ دیا گیا تھا۔ اس کے بعد نوے کی دہائی میں ’پلانڈ پیرنٹ ہڈ ورسز بنام کیسی‘ کے فیصلے میں اس حق کے لیے تحفظ برقرار رکھا گیا تھا۔ مگر گزشتہ روز "ڈابز بنام جیکسن‘ نامی مقدمے کے ڈرامائی فیصلے سے وہ دو فیصلے کالعدم ہو گئے

امریکہ میں سپریم کورٹ کے اس نئے فیصلے کے بعد لاکھوں خواتین اسقاط حمل کے قانونی حق سے محروم ہو جائیں گی

فیصلے کے بعد کئی امریکی ریاستوں میں اس شعبے میں کام کرنے والے کلینک بند ہونا شروع ہو گئے۔ اب تک ایک درجن سے زیادہ امریکی ریاستیں اسقاط حمل کو غیر قانونی قرار دے چکی ہیں

صدر جو بائیڈن نے اس فیصلے پر اپنے ردعمل میں کہا ”میرے خیال میں یہ ملک کے لیے ایک دردناک دن ہے“

اس تاریخی فیصلے کے بعد اسقاط حمل کے موجودہ قوانین میں تبدیلی آئے گی اور مختلف ریاستیں انفرادی سطح پر اسقاط حمل کے طریقہ کار پر پابندی لگانے کے قابل ہو جائیں گی

امریکی سپریم کورٹ کی جانب سے اسقاط حمل کے حق کو ختم کرنے کے فیصلے پر امریکہ سمیت کئی دیگر ممالک کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آ رہا ہے

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق خود امریکی صدر جو بائیڈن نے ایک بیان میں کہا ”آج امریکہ کی سپریم کورٹ نے امریکی عوام سے وہ آئینی حق لے لیا ہے جسے میں پہلے ہی تسلیم کر چکا تھا“

صدر جو بائیڈن نے کہا ”میرے خیال میں یہ ملک کے لیے ایک دردناک دن ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ لڑائی ختم ہو گئی ہے“

ان کا کہنا تھا ”میں یہ واضح کر دوں کہ خواتین کے برابری کا انتخاب کرنے کے حق کو جو موجود ہو محفوظ کرنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ کانگریس Roe v. Wade کی پروٹیکشن کو بطور وفاقی قانون بحال کرے“

سابق امریکی صدر باراک اوباما اور ان کی اہلیہ مشیل اوباما نے بھی اس فیصلے پر شدید مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے ان کے دل ٹوٹ گئے ہیں۔ مشیل اوباما نے کہا کہ وہ ’دل شکستہ‘ ہیں کیونکہ ریاست نوجوان خواتین کے ’افزائش نسل سے متعلق فیصلوں‘ کو ’کنٹرول‘ کرنا چاہتی ہے

سابق امریکی صدر براک اوباما نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ ’بنیادی اور ضروری آزادیوں‘ پر حملہ ہے

براک اوباما نے ٹویٹ کیا ہے کہ ’آج سپریم کورٹ نے ناصرف پچاس برسوں پر محیط نظیر ختم کر دی بلکہ انھوں نے کسی کے بھی انتہائی ذاتی فیصلے کو سیاستدانوں کے مزاج کے تابع کر دیا ہے۔ (اس فیصلے نے) لاکھوں امریکی شہریوں کی آزادی پر حملہ کیا ہے۔‘

امریکہ کی ڈیموکریٹک پارٹی نے ٹوئٹر پر بیان میں اس فیصلے کو کروڑوں شہریوں کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’سپریم کورٹ نے صرف پچاس برس قبل کیے گئے فیصلے کو ہی ختم نہیں کیا بلکہ سب سے زیادہ نجی و ذاتی نوعیت کے فیصلے کو بھی ختم کرتے ہوئے سیاست دانوں اور نظریوں کے تابع کردیا ہے۔ یہ کروڑوں امریکیوں کے بنیادی حق پر حملہ ہے۔‘

دوسری جانب خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق فرانسیسی صدر ایمانوئل میکروں نے بھی جمعے کو سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی مذمت کی ہے

ایمانوئل میکروں کا کہنا ہے کہ ’انہیں (خواتین) تحفظ ملنا چاہیے۔ میں ان خواتین کے ساتھ ہوں جن کی آزادی آج امریکہ کی سپریم کورٹ نے چیلنج کی ہے۔‘

امریکی سپریم کورٹ کے فیصلے پر برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے بھی تنقید کرتے ہوئے اس کو ’پیچھے کی جانب قدم‘ قرار دیا ہے

جبکہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو ری پبلکنز اور مذہبی طبقے کی جیت قرار دیا جا رہا ہے، جو اسقاط حمل پر پابندی کے حق میں تھے

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، ٹرمپ کے دور میں امریکی نائب صدر کے عہدے پر فائز رہنے والے پنس اور ماضی کی ٹرمپ انتظامیہ کے بعض دیگر عہدیداروں نے امریکی سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی نشریاتی ادارے فوکس نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’یہ فیصلہ دراصل ملکی آئین کی پیروی ہے اور وہ حقوق واپس دے رہا ہے، جو بہت پہلے لوٹا دیے جانا چاہیے تھے۔‘‘

جب ٹرمپ سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا وہ محسوس کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے عہدہ صدارت کے دوران سپریم کورٹ میں تین قدامت پسند ججوں کی تقرری کر کے اس فیصلے میں اپنا بھی کوئی کردار ادا کیا ہے، تو انہوں نے کہا، ’’یہ فیصلہ خدا نے کیا‘‘

امریکہ کے سابق نائب صدر مائیک پنس نے اس فیصلے کی تعریف کرتے ہوئے تاریخ کی غلطی کو درست کرنے کا اہم قدم قرار دیا

سابق امریکی نائب صدر مائیک پنس نے کہا، ’’اب جب کہ ’رو بنام ویڈ‘ فیصلہ راکھ کے تاریخی ڈھیر کا حصہ بن گیا ہے، زندگی کے مقصد میں ایک نیا میدان ابھر کر سامنے آیا ہے اور جو تمام لوگ زندگی کے تقدس کا خیال رکھتے ہیں، ان پر فرض ہے کہ ہم اس مسئلے کو حل کریں‘‘

انہوں نے کہا کہ ’اسقاط حمل کے سوال کو ریاستوں اور عوام کو واپس کرتے ہوئے موجودہ سپریم کورٹ نے ایک تاریخی غلطی کو درست کر دیا ہے اور امریکی شہریوں کے خود حکومت کرنے حق کو تسلیم کیا ہے۔‘

سینیٹ میں رپبلکن لیڈر مچ مک کونیل نے ایک بیان میں اس فیصلے کو ’نڈر اور صحیح‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’یہ آئین اور ہمارے معاشرے کے سب سے کمزور افراد کے لیے تاریخی جیت ہے۔‘

یاد رہے کہ چند روز قبل ایک عدالتی دستاویز لیک ہوئی تھی، جس سے یہ اشارہ ملتا تھا کہ عدالت اپنے فیصلے میں اسقاط حمل کو غیر قانونی قرار دینے کی حمایت کرے گی

سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ امریکہ میں اسقاط حمل کے موجودہ قوانین کو تبدیل کر دے گا اور اب مختلف ریاستیں انفرادی سطح پر اسقاط حمل کے طریقہ کار پر پابندی لگانے کے قابل ہو جائیں گی

جبکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد میزوری وہ پہلی ریاست ہے، جس نے اس پر عمل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اسقاط حمل پر پابندی عائد کردی ہے

یہ توقع کی جا رہی ہے کہ اس فیصلے کے بعد پچاس امریکی ریاستوں میں سے لگ بھگ نصف اسقاط حمل کے حوالے سے نئی پابندیاں متعارف کروائیں گی

تیرہ ریاستیں پہلے ہی قوانین پاس کر چکی ہیں جو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اسقاط حمل کو غیر قانونی قرار دے دیں گے۔ غالب امکان ہے کہ بہت سی دوسری ریاستیں اس ضمن میں نئی پابندیاں تیزی سے عائد کریں گی

اسقاط حمل کی سہولت فراہم کرنے والی تنظیم ‘پلانڈ پیرنٹ ہڈ’ کی تحقیق کے مطابق مجموعی طور پر بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت رکھنے والی تقریباً تین کروڑ ساٹھ لاکھ خواتین کے لیے اسقاط حمل کے ذرائع تک رسائی منقطع ہونے کی توقع ہے

یاد رہے کہ سپریم کورٹ میں ایک ایسا کیس زیر سماعت تھا، جس میں ریاست میسسیپی میں پندرہ ہفتوں کے حمل کے بعد اسقاط حمل پر پابندی کے قانون کو چیلنج کیا گیا تھا

لیکن اکثریتی عدالت نے نظریاتی خطوط پر چھ کے مقابلے میں تین ووٹوں سے ریاست کے حق میں فیصلہ دیا اور مؤثر طریقہ کار سے اسقاط حمل کے ’آئینی حق‘ کو ختم کر دیا

فیصلے کے ایک حصے میں کہا گیا کہ ”ہم سمجھتے ہیں کہ آئین اسقاط حمل کا حق نہیں دیتا ہے ۔۔۔ اور اسقاط حمل کو ریگولیٹ کرنے کا اختیار عوام اور ان کے منتخب نمائندوں کو واپس کیا جانا چاہیے“

کیلیفورنیا، نیو میکسیکو اور مشیگن سمیت متعدد ریاستوں کے ڈیموکریٹک گورنرز پہلے ہی اس صورت میں اپنے اپنے ریاستی قوانین میں اسقاط حمل کے حقوق کو شامل کرنے کے منصوبوں کا اعلان کر چکے ہیں

یاد رہے کہ سنہ 1973 کے تاریخی ’رو بنام ویڈ‘ کیس میں سپریم کورٹ نے سات کے مقابلے میں دو ووٹوں سے یہ فیصلہ دیا تھا کہ عورت کو اسقاط حمل کا حق امریکی آئین کے تحت محفوظ ہے

اس تاریخی فیصلے نے امریکی خواتین کو حمل کے پہلے تین مہینوں (سہ ماہی) میں اسقاط حمل کا مکمل حق دیا تھا، لیکن دوسری سہ ماہی (تین سے چھ ماہ کے حمل کے دوران) میں چند پابندیاں جبکہ تیسری سہ ماہی (حمل کے چھ سے نو ماہ کے دوران) اسقاط حمل پر پابندی تھی

سپریم کورٹ میں چلنے والے مقدمے ’ڈابز بنام جیسکن‘پر پورے امریکہ کی گہری نظریں تھیں۔اس مقدمے میں ریاست مسی سپی میں 15 ہفتوں کے حمل کے بعد کسی بھی اسقاط کی پابندی کے فیصلے کو ریاست میں قائم جیکسن وومن ہیلتھ آرگنازئزیشن نے چیلنج کر رکھا تھا۔ یہ ادارہ ریاست میں اسقاط حمل کا واحد کلینک ہے۔ اس کا موقف تھا کہ ریاست میں سال 2018 میں منظور ہونے والا قانون سپریم کورٹ کے50 سال قبل کے فیصلے سے متصادم تھا

نچلی دو عدالتوں کی طرف سے کلینک کے حق میں فیصلہ آنے کے بعد ریاست مسی سپی نے ری پبلکنز کے کنٹرول و۱لی دیگر 25 ریاستوں کے ہمراہ سپریم کورٹ سے رجوع کیا اور ججوں سے استدعا کی کہ وہ ’ رو ‘ اور ’کیسی‘ دونوں فیصلوں کو کالعدم قرار دیں۔ پٹیشن میں موقف اختیار کیا گیا کہ آئین میں ایسا کچھ موجود نہیں ہے جو ایبارشن کے حق کی حمایت کرتا ہو۔

سپریم کورٹ کے نو میں سے چھے ججوں نے "ڈابز بنام جیکسن” میں ریاست کے حق میں رائے دی ، جبکہ ’رو بنام ویڈ‘ کو کلعدم قرار دینے کے حق میں پانچ ججوں نے فیصلہ دیا۔ ان فیصلوں کے حامی تمام ججوں کی تعیناتی ری پبلکن صدور نے مختلف ادوار میں کی۔ غیر معمولی طور پر ان میں سے تین ججوں کو نامزد کرنے کا موقع سابق صدر ڈانلڈ ٹرمپ کو ملا۔

اعلی عدلیہ کے تین لبرل ججوں اور قدامت پسند چیف جسٹیس جان رابرٹس نے ’رو بنام ویڈ‘ میں دیے گئے حق کو ختم کرنے کے فیصلے سے اختلاف کیا ہے

امریکہ میں نصف صدی قبل خواتین کو اسقاط حمل کے لیے تحفظ دینا ایک منتازعہ فیصلہ تھا، جس کے خلاف کوششیں مستقل جاری تھیں۔ جمعے کو ہونے والا فیصلہ بھی اسی طرح متنازعہ ہے۔اس فیصلے کو جہاں امریکیوں کا ایک بڑا حلقہ خواتین کے جسموں سے ان کا اختیار چھیننے کے مترادف اور ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دے رہا ہے، وہیں دیگر امریکی اس پر خوشی بھی منا رہے ہیں اور اسے انسانی جان کے تحفظ کی کوشش میں ایک بڑی کامیابی کے طور پر دیکھ رہے ہیں

ابارشن کا موضوع امریکیوں کے درمیان نظریاتی خلیج کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے مگر رائے عامہ کا جائزہ مرتب کرنے والے ادارے پیو ریسرچ کے ایک سروے کے مطابق انسٹھ فیصد امریکی اسقاط حمل کے تحفظ کے حق میں ہیں

اس فیصلے کا ابتدائی مسودہ ایک نیوز سائٹ ’پولیٹکو‘ پر لیک ہونے کے دو ماہ سے کچھ کم وقت کے بعد یہ فیصلہ سنایا گیا ہے۔ اس مسودے کے منکشف ہونے کے بعد اسقاط حمل کے حامیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی طرف سے ملک گیر احتجاج سامنے آیا تھا۔جمعے کو سامنے آنے والے حتمی فیصلے کے بعد امریکہ میں بڑے پیمانے پر مظاہروں کا امکان ہے۔ سیکیورٹی ادارے پہلے ہی خبردار کر چکے ہیں کہ ملک میں پر تشدد واقعات بھی رونما ہو سکتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close