سڑسٹھ سال سے تھیٹر اور فلم انڈسٹری سے منسلک ضیا محی الدین آج کل نیشنل اکادمی آف پرفارمنگ آرٹس (ناپا) میں شیکسپیئر کے ڈرامے رومیو اینڈ جولیئٹ کو اردو زبان میں پیش کر رہے ہیں
ضیا محی الدین کہتے ہیں ”شیکسپیئر نے رومیو جولیئٹ کی جو کہانی لکھی، اس میں جولیئٹ ایک جملہ ادا کرتی ہے جس کا مفہوم ہے کہ ’رومیو، تم رمیو کیوں کہلاتے ہو‘ لیکن جنوبی ایشیا میں اگر کم پڑھے لکھے لوگوں سے بات کریں تو زیادہ تر لوگ شیکسپیئر کے اس جملے کو یوں بیان کرتے ہیں کہ رومیو، رومیو تم کہاں ہو۔“
ان کا کہنا ہے کہ وہ طالب علموں کو کلاسیکل تھیٹر سیکھانے کے علاوہ، ایک طرح سے اوپر بیان کیے گئے اس جملے کی تصحیح کرنا چاہتے ہیں
ضیا محی الدین نے سنہ 1950 میں رائل اکیڈمی آف تھیٹر اینڈ آرٹس سے وابستگی اختیار کی اور صداکاری اور اداکاری کا سلسلہ شروع کیا۔ 1956 میں وہ پاکستان واپس لوٹے لیکن جلد ہی ایک اسکالر شپ پر انگلستان واپس چلے گئے، جہاں انھوں نے ڈائریکشن کی تربیت حاصل کی
واضح رہے کہ ضیا محی الدین ان چند پاکستانیوں میں شامل ہیں جنھوں نے پاکستان سے باہر جا کر بھی تھیٹر اور فلموں میں کام کیا ہے
ضیا محی الدین نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے لیے صحافی براق شبیر سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ”اس کھیل کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی شاعری ناقابل فراموش ہے۔ اس محبت کی شاعری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آج تک ایسی شاعری نہیں کی گئی۔ مگر کسی زبان کا دوسری زبان میں ترجمہ کرنا بالکل ناممکن ہے“
اسی لیے ضیا محی الدین نے اپنی پیشکش میں شاعری کی جگہ نثر کا استعمال کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں ”خالد احمد نے اس شاعری کو ایسی نثر میں لکھا ہے جس میں کلاسیکیت ہو، شاعرانہ عنصر بھی ہو، لیکن یہ رعب جمانے والی لفاظی نہ ہو جو اردو ڈراموں میں اپنی عِلمیت جھاڑنے کے لیے لکھی جاتی تھی“
انہوں نے کہا ”اس ترجمے میں شہریت کا بھی پاس بھی رکھا گیا ہے اور تشبیہ اور استعارے جو شاعری کی جان ہیں، ان کا بھی پاس رکھا گیا ہے“
وہ کہتے ہیں ”رومیو اور جولیئٹ کو پاکستان میں پیش کرنے کی ایک اور بھی وجہ ہے، جو یہ ہے کہ جب کسی کم پڑھے لکھے شخص سے رومیو اور جولیئٹ کا ذکر کیا جائے، تو وہ کہتے ہیں رومیو رومیو تم کہاں ہو۔۔ جبکہ شیکسپیئر نے کہا تھا کہ رومیو تم رومیو کیوں کہلاتے ہو، تو میں نے سوچا کہ ان لوگوں کی بھی غلط فہمی شاید ختم ہو جائے“
’میں کہوں گا میں نے تشکیل نہیں کیا، پیش کیا ہے۔ اپنے اپنے وقت کے ڈرامہ نویسوں نے 19 ویں صدی میں کیا پھر بیسوی صدی میں صحیح عبارت کی۔‘
’یہ ماخود نہیں کیا گیا، تشکیل نہیں کیا بلکہ یہ ترجمہ ہے، یہ ضروری بات ہے کہ اس میں تھوڑی سی کانٹ چھانٹ ہوگی، اصلی کھیل کا دورانیہ تین گھنٹے باون منٹ تھا، ہمارے لوگوں میں اتنی دیر تک کھیل دیکھنے کی سکت نہیں، اس لیے میں نے کچھ حصے نکال دیے جن کا تعلق مغربی دیومالائی چیزوں سے ہے جن کو نہ بھی ڈالیں تو فرق نہیں پڑے گا۔‘
ضیا صاحب کہتے ہیں ہر لمحہ ایک ڈائریکٹر کو توجہ دینی ہوتی ہے۔ اپنے عقب میں جاری ریہرسل کرتے اداکاروں کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا 1957 میں انھوں نے کراچی میں انگریزی میں ہی یہ کھیل ڈائریکٹ کیا تھا، پھر انگلستان میں بھی موقع ملا
وہ کہتے ہیں کہ اب جا کر یہ کھیل پوری طرح میری سمجھ میں آیا ہے۔ ’آپ کو حیرت ہو گی کہ شیکسپیئر کی وفات کے ڈیڑھ سو سال بعد 1753 میں پہلی بار پیش کیا گیا لیکن مسخ شدہ حالت میں پھر بیسویں صدی میں جا کر اس کو درست انداز میں پیش کیا گیا۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے کافی اداکاروں کی تربیت کی، آپ کا اتنا تجربہ ہے، کیا دیکھتے ہیں حالیہ دور کے اداکاروں میں کیا تبدیلی آئی ہے؟
تو انہوں نے کہا ’پہلے زمانے میں بھرپور طریقے سے اداکاری کی جاتی تھی لیکن اکیسویں صدی کے بعد ایسے نہیں کی جاتی۔ لیکن اداکار کا جو ہنر ہے وہ ہمیشہ سے وہی ہے، اسے اس کے لیے ریاضت کرنی پڑتی ہے، آواز کا پھیلاؤ، آواز کا ٹھہراؤ، جب تک آپ کو اپنی پسلیوں اور پردہ شکم کا آپس میں مطابقت پیدا کرنا نہ آتا ہو تو پھر دوسرے دن آپ کیا کریں گے، یہ مشق زبان سیکھنے کی طرح ایک دو ہفتے میں نہیں ہوتی اس کے لیے ایک دو سال لگتے ہیں، اس تکنیک اور آلات کو اپنانا پڑتا ہے۔‘
اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے اسٹیج اداکاری کے بارے ضیا محی الدین کا کہنا تھا ”اسٹیج پر مائیکرو فون نہیں ہے، اگر ہے تو وہ ڈرامہ نہیں کچھ اور ہے۔ اداکار کے پاس یہ صلاحیت ہونی چاہیے کہ آواز چاہے آٹھ لوگ ہوں ان تک پہنچا دے۔ یہ نہ لگے کہ وہ چینخ رہا ہے“
وہ کہتے ہیں کہ ’کلاسیکی کھیل کے لیے زبان آنی چاہیے، ش اور ق درست ہوتے ہوتے وقت لگتا ہے بالکل ایسی ریاضت کرنی پڑتی ہے جیسے ایک کلاسیکی گانے والے کو برسوں لگتے ہیں۔‘
ضیا محی الدین کہتے ہیں ’ہدایت کاری میں کوشش یہ ہوتی ہے کہ اداکاروں کو ایسی ترغیب دیں کہ ان کے اپنا کردار ادا کرنے میں نہ صرف سچائی بلکہ نفاست پیدا ہو۔‘
اس سوال پر کہ چھوٹی اسکرین کے بارے میں کیا کہیں گے، تو ضیا محی الدین نے کہا ”میں ٹی وی دیکھتا ہی نہیں ہوں“
انہوں نے اپنی ایک طالبہ کا ذکر کیا جو تھیٹر کے بعد کام کرنے ٹی وی پر گئیں تو ایک روز ان کے پاس آ کر رونے لگیں کہ میں نے مسئلہ لفظ ادا کیا لیکن ڈائریکٹر نے کہا کہ مسئلہ کیا، مسلہ بولیں
ضیا محی الدین کہتے ہیں کہ اداکاروں کو کرافٹ کا پتا ہوتا ہے اور ریہرسل کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اداکار کوئی ایسا کام تو نہیں کر رہے جو ان کے رول کے اسلوب کے مطابق نہ ہو
تاہم وہ کہتے ہیں ’آگے بڑھنے کے لیے سیکھنے کے ساتھ تجربہ ضروری ہوتا ہے لیکن بے شمار اداکاروں کو کام نہیں ملتا لیکن اس فن کا کمال یہ ہے کہ بھوکے رہ لیں گے لیکن کوئی اور کام نہیں کرتے اور عروج پر بہت کم لوگ پہنچتے ہیں۔‘ وہ کہتے ہیں کہ میں نے دنیا گھومی ہے لیکن انگریز سے بہتر تھیٹر کا اداکار نہیں دیکھا
جب ضیا محی الدین سے اپنے اس کام کے بارے میں، جس سے وہ مطمئن ہوئے ہوں ، پوچھا گیا تو انہوں نے کہا ”بہت کم موقع ملا کہ اپنے کسی کام سے مطمئن ہوا ہوں۔ ہاں، ایسی ہیں دو چار جن پر مجھے ناز بھی ہے لیکن بات یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ پیمانے بدلتے رہتے ہیں، اپنی ہی نظروں میں اس پیمانے پر نہیں پہنچا جو میری توقع تھی۔ ارادہ کچھ بھی ہو لیکن عمل نہ ہو سکے تو اکثر ان دونوں چیزوں کا ملاپ نہیں ہوتا“
وہ کہتے ہیں کہ پروفیشنلزم میرے نزدیک ایمان کی مانند ہے۔ ’میرا نہیں خیال کچھ بدلاؤ آیا ہے۔ اسٹیج ایکٹنگ پروفیشنل ہے۔ پچھلے تیس چالیس سال میں فلم ہمارے ہاں ایک ملغوبہ ہوتا ہے، ہیروئن اور ولن ہوں گے، ناچ گانا ہوگا، ایک سائیڈ ہیرو ہوگا اور سائیڈ ہیروئین۔ ایک ناچ ایسا ہو ضرور جس میں لڑکی کی ساڑھی گیلی ہو جائے۔ لیکن اب میں نے دیکھا ہے 15 سالوں میں کچھ نوجوانوں نے سینما میں دوسرے موضوعات پر بھی فلم بنانا شروع کی ہے۔‘
پاکستانی ٹی وی ڈراموں کے بارے میں ضیا محی الدین کہتے ہیں کہ ’ڈرامے قطعی نہیں دیکھتا، مجھے کوئی کمی نہیں محسوس ہوتی، سنا ہے مگر بڑے اچھے ہوتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ آخری بار انھوں نے سنہ 1981 میں پاکستانی ڈرامہ دیکھا تھا
’میں کبھی کبھی خبریں دیکھتا ہوں ورنہ ٹی وی دیکھنا بہت کم ہوتا ہے۔ کبھی خبریں الجزیرہ پر دیکھتا ہوں، کبھی بی بی سی بھی دیکھ لیتا ہوں۔ مطالعہ کرتا ہوں دو بجے تک نیند آ جائے تو ٹھیک ہے، نہ آئے تو نہیں۔‘
تاہم ضیا محی الدین شکوہ کرتے ہیں کہ پاکستانی ٹی وی پر غلط تلفظ بولا جاتا ہے
اس حوالے سے انہوں نے ملک، مِلک اور مُلک کا حوالہ دیا اور کہا ”زبر زیر اور پیش سے لفظ اور مطلب بدل جاتا ہے۔ مختلف الفاظ، جنہیں ہم عام طور پر اور ٹی وی ڈراموں میں غلط ادا کرتے ہیں، جیسے قبر، فکر، صبر وغیرہ، ہم کس کس کا رونا روئیں“