مفادات کی دنیا اور ’پہاڑوں سے اونچی، سمندروں سے گہری دوستی‘ کا راگ

امر گل

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ”چین پاکستان کا بااعتماد اور مخلص دوست ہے، وہ پاکستان میں اپنی اجارہ داری قائم کرنے یا ایسٹ انڈیا کمپنی بنانے نہیں آیا“

یوں تو یہ بیان کسی بھی پاکستانی حکمران کی جانب سے دیے جانے والے کسی روایتی بیان سے مختلف نہیں ہے، لیکن سری لنکا کو چین کی جانب سے امدادی پیکیج کے شوگر کوٹڈ قرضے اور اب سری لنکا کی معاشی تباہی اور بدحالی کے تناظر میں یہ بیان سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے

ڈاکٹر فرح سلیم کا کہنا ہے ”چین پاکستان کے ساتھ دوستی کا دعویدار ہے لیکن حقیقت میں پاکستان اس کے قرضوں کے بوجھ میں جکڑ گیا ہے۔ سری لنکا کے ڈیفالٹ کرنے کی ایک بڑی وجہ چینی کمرشل قرضے بھی ہیں۔ پاکستان کا چین پر بڑھتا ہوا انحصار پاکستان کو سری لنکا جیسی صورت حال سے دو چار کر سکتا ہے“

وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا ”چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ترکی اور قطر ہمارے بہترین دوست ہیں، جنہوں نے ہر اچھے برے وقت میں ساتھ دیا۔ سعودی عرب نے مشکل وقت میں ڈیڑھ ارب روپے کیش اور مفت تیل دیا اور اس کے بدلے کبھی سیاسی شرط نہیں لگائی۔ پاکستان میں بیس بیس گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہوتی تھی۔چین نے اس وقت ہمیں تکنیکی معاونت، وسائل، سرمایہ کاری اور سی پیک کے تحت ہزاروں میگاواٹ بجلی کے منصوبے دیے۔ حال ہی میں دو اعشاریہ تین ارب ڈالر قرضہ ’اچھی شرائط‘ پر دیا“

ایک ایسی دنیا، جو اپنے اپنے مفادات کی وجہ سے ”بنیے کا بچہ کچھ دیکھ کر ہی گرتا ہے“ کی عملی تصویر بنی ہوئی ہے، ایسی دنیا میں رہتے ہوئے چین کی ان ’اچھی شرائط‘ کو سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے

آئی ایم ایف نے پاکستان کو ایک ارب ڈالر قرض دینے کے حوالے سے ابھی تک کوئی حوصلہ افزا بیان نہیں دیا ہے۔ لیکن چین کی طرف سے حال ہی میں پاکستان کو 2.3 ارب ڈالر کا قرض وصول ہوگیا ہے

وزرات خزانہ نے اس پر خوشی کا اظہار کیا ہے اور بتایا ہے کہ یہ فنڈز زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے میں مددگار ثابت ہوں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ 2.3 ارب ڈالر کتنی دیر کے لیے معیشت کو سہارا دے سکیں گے؟

ماضی کو مدنظر رکھا جائے تو ہر تین یا چار ماہ کے بعد قرض ملنے پر اسی طرح شادمانی کے ڈھول پیٹے جاتے ہیں۔ عجیب بدقسمتی ہے کہ ہمارے حکمران اور ’معاشی ماہرین‘ ’قرضوں کے حصول‘ کو معاشی کامیابی کے طور پر پیش کرتے ہیں

قرضے ملنے پر ڈھول پیٹ کر بھنگڑے ڈالنے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پاکستان کو ملک چلانے کے لیے اگلے سال تقریباً 41 ارب ڈالر قرض لینے ہوں گے اور اگر اسی طرز پر معیشت چلائی گئی تو دو سالوں میں یہ ڈیمانڈ 80 ارب ڈالر سے بڑھنے کا اندیشہ ہے

قرضوں کی دلدل میں دھنستے چلے جانے کے ان حالات میں چین کی جانب سے پاکستان کو اصلاحات کروائے بغیر قرض دینا کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے، ایسے سوالات جو خدشات اور شبہات میں لپٹے ہوئے ہیں۔ مت بھولیے کہ یہ دنیا ’بنیے کا بچہ کچھ دیکھ کر ہی گرتا ہے‘ کی عملی تصویر بن چکی ہے

اس لیے مفادات کی اس دنیا میں ’پہاڑوں سے اونچی اور سمندروں سے گہری دوستی‘ والا جملہ کسی لطیفے سے کم نہیں ہے، کیوں کہ چین نے آج تک جو کچھ بھی پاکستان کو دیا ہے، اس کی ہمیشہ ضرورت سے زیادہ قیمت وصول کی ہے

ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکٹری ظفر پراچہ چین سے قرض ملنے کو کمرشل ڈیل قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں ”چین سے ملنے والے قرض پاکستانی معیشت پر بوجھ ہیں۔ چین کے باقی دنیا کی نسبت پاکستان کے ساتھ کیے گئے معاہدے زیادہ سخت ہیں۔“

دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیراعظم میاں شہباز شریف ان سخت معاہدوں کو بھی ’اچھی شرائط کہہ رہے ہیں

ظفر پراچہ کا کہنا ہے کہ مارچ کے مہینے میں پاکستان کے مشکل حالات کے باوجود چین نے پاکستان سے قرض واپس لیا تھا۔ چینی قرضوں پر کوئی چیک اینڈ بیلنس بھی دکھائی نہیں دیتا۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ جس مقصد کے لیے قرض دیے جاتے ہیں اس کے نتائج دیکھے بغیر اگلا قرض دے دیا جاتا ہے، جو کرپشن اور مس مینجمنٹ کا باعث بن رہے ہیں

انہوں نے کہا ”دوستی کا تقاضہ تو یہ ہے کہ پاکستان کو امریکہ اور آئی ایم ایف کی طرف نہ دیکھنا پڑے“

اس حوالے سے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ کے خیالات بھی مختلف نہیں ہیں ”چین کے قرض کو عارضی ریلیف کہا جا سکتا ہے لیکن یہ مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ چین سے قرض ملنے کی امید شاید اصلاحات کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہے، تو غلط نہیں ہوگا“

پاکستان نے مارچ میں 2.3 ارب ڈالرز چین کو قرض واپس کر دیا تھا۔ جون کے مہینے میں دوبارہ وہی قرض لیا جا رہا ہے۔ اس کی شرائط بھی زیادہ سخت ہیں۔ چین نے پاکستان کو پابند کیا ہے کہ قرض لینے کے لیے آئی ایم ایف پروگرام میں رہنا ضروری ہے۔ ورلڈ بینک اور ایشائی ترقیاتی بینک کے بعد پاکستان نے سب سے زیادہ قرض چین سے لے رکھا ہے، جس کے سود کی ادائیگی بروقت کی جا رہی ہے

ڈاکٹر سلمان شاہ کہتے ہیں ”آئی ایم ایف چین کے قرضوں کے حوالے سے ماضی میں بھی اعتراضات کرتا رہا ہے۔ موجودہ حکومت کی جانب سے چینی آئی پی پیز کو پچاس ارب روپے کی ادائیگی پر آئی ایم ایف نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ پاکستان کا آئی ایم ایف پیکج بحال نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ چین کو پچاس ارب روپے کی ادائیگی کو بھی قرار دیا جا رہا ہے“

ماہرین کی رائے کے پیش نظر یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ چین کے قرضے پاکستانی معیشت چلانے میں مددگار ثابت نہیں ہو سکتے۔ ڈالر کا بڑھنا، مہنگائی میں اضافہ، زرمبادلہ ذخائر میں کمی، کرنٹ اکاؤنٹ خسارے اور درآمدات میں تاریخی اضافہ جیسے مسائل چینی قرضوں سے حل ہونا ناممکن ہے۔ بلکہ یہ ملکی معاشی بوجھ میں اضافے کا ہی سبب بنے گا۔ اصل فائدہ برآمدات میں اضافہ کر کے، مقامی صنعت کو فروغ دے کر اور قرضوں پر انحصار کم کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے

دوسری صورت میں پاکستان پر ہر تین ماہ بعد ڈیفالٹ ہونے کی تلوار لٹکتی رہے گی اور ہم حکمرانوں کے منہ سے ’پہاڑوں سے اونچی اور سمندروں سے گہری دوستی‘ کا راگ ہی سنتے رہیں گے۔۔۔ نتیجہ بلآخر ’دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف‘ کے شعر کی تشریح کی صورت نکلے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close