سکھر: ہاربر برج کی طرز پر بنے ایوب پل کے 60 سال

ویب ڈیسک

سکھر میں دریائے سندھ کے مقام پر آسٹریلیا کی معروف ہاربر پل کی طرز پر بنائے گئے ایوب پل کو ساٹھ سال مکمل ہو گئے ہیں۔ یہ پل روہڑی اور سکھر کو بذریعہ ریلوے ٹریک ملاتا ہے

سابق فوجی صدر ایوب خان نے 1962ع میں اس پل کا افتتاح کیا تھا

اس سے قبل ریل اور پبلک ٹرانسپورٹ تقریباً آٹھ دہائیوں تک لینس ڈائون پل سے گزرا کرتی تھی، (جس کی کہانی بھی دلچسپ ہے، جو ذیل میں بیان کریں گے)

تاہم ٹریفک کے بڑھتے دباؤ اور بلوچستان تک بذریعہ ٹرین جلد رسائی کے لیے نئے ایک پل کی تعمیر کا فیصلہ کیا گیا، جس کے لیے ملکی اور عالمی ماہرین سے مشاورت اور مختلف ڈیزائنز پر غور کرنے کے بعد سڈنی کی باربر پل کی طرز پر اس پل کو بنانے کا فیصلہ کیا گیا

اس خوبصورت اور مضبوط فولادی اسٹرکچر کی لمبائی 806 فٹ ہے۔ اس کے محراب کی اونچائی 247 فٹ ہے جبکہ اس کی تعمیر میں 3185 ٹن پختہ فولاد اور 14642 فٹ اسٹیل پائپ کا استعمال کیا گیا۔ اس کے علاوہ ستونوں میں چار ہزار ٹن سمینٹ کا استمعال کیا گیا

محکمہ ریلوے کے دستاویزات کے مطابق اس پل کی تعمیر پر اُس وقت کل دو کروڑ سولہ لاکھ روپے لاگت آئی

یہ پل پاکستان ریلوے اور مقامی مزدوروں اور انجینیئرز کی شب و روز محنت سے دو سال میں مکمل ہوا اور 60 کی دہائی میں ’دنیا کا پہلا ریلوے پل‘ کہلایا

واضح رہے کہ اس پل کو تعمیر کرنے والی کمپنی ایم ایس ڈورمن لونگ گیمون وہی کمپنی تھی، جس نے 1932ع میں مشہور ہاربر برج تعمیر کیا تھا، جبکہ کنسلٹنگ انجینیئر نیویارک کے ڈی بی اسٹین مین تھے، جنہوں نے نیویارک میں مشہور بروکلین پل کو دوبارہ تعمیر کیا تھا

اس کے علاوہ محکمہ ریلوے کے چیف انجینیئر ایم ایس غازی اور اے ایم آخوند سمیت مختلف افسران کے نام بھی پل پر تحریر ہیں، جنہوں نے اس محنت طلب کام میں اپنا کردار ادا کیا

دریائے سندھ، سکھر کا تاریخی پل اور ”ہو جمالو“

دور سے سڈنی ہاربر برج یا لندن کا سان ڈیگو برج جیسا نظر آنے والا سندھ کے جڑواں شہروں روہڑی اور سکھر کو آپس میں ملانے والا منفرد اور تاریخی لئنسڈاؤن پل دنیا بھر میں پاکستان کی پہچان بنا ہوا ہے

اس پل کی خوبصورتی اور اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس پر سندھی زبان کے کئی نامور شاعروں نے نہ صرف شاعری کی، بلکہ اس کا ذکر سندھی افسانوں، شادی بیاہ کے موقع پر گائے جانے والے ڈھولکی گیتوں میں بھی ملتا ہے

ایک لوک کہانی کے مطابق جب لئنسڈاؤن پل سے انگریز سرکار نے ریل کا سفر شروع کرنا چاہا تو کوئی بھی ٹرین ڈرائیور پل سے ریل چلانے کے لیے تیار نہ ہوا، پھر انگریزوں کو معلوم ہوا کہ جمالو شیدی نامی ایک قیدی ہے جو پل سے ٹرین گزار سکتا ہے، انگریز سرکار نے جمالو شیدی سے معاہدہ کیا کہ اگر وہ پل سے ٹرین گزار گیا تو اس کی باقی سزا ختم کردی جائے گی

جمالو شیدی نے جب کسی پلر کے بغیر بنائے گئے لئنسڈائون پل سے ٹرین کو گزارا تو اس کی بیوی نے خوشی میں پہلی بار ’ہو جمالو‘ گایا، جس کے بعد یہ گیت سندھ کا سب سے مشہور لوک گیت بن گیا،آج تک سندھ بھر کے لوگ خوشی کے وقت جوش سے ’ہوجمالو‘ گاتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close