برین پیس میکر کیسے ڈپریشن سے چھٹکارا پانے میں مدد گار ہو سکتا ہے؟

ویب ڈیسک

امریکی خاتون ایملی ہولن بیک ایک گہرے اور بار بار آنے والے ڈپریشن کا شکار تھیں، اس کیفیت کو اس کی شدت کی وجہ سے انہوں نے ’بلیک ہول‘ سے تشبیہ دی۔ اس کیفیت میں ان کے اعضا اتنے بھاری ہو جاتے کہ وہ بمشکل ہی حرکت کر سکتی تھیں۔ وہ جانتی تھیں کہ یہ بیماری ان کی جان لے سکتی ہے، کیوں کہ ان کے والدین بھی اپنی جان خود لے چکے تھے۔

عالمی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق، وہ اس سے نمٹنے کے لیے انتہائی کوشش کرنے کے لیے بھی تیار تھیں، یعنی تجرباتی تھراپی کے لیے دماغ میں الیکٹروڈ لگانا

محققین کا کہنا ہے کہ یہ علاج، جسے ’ڈیپ برین اسٹیمولیشن‘ یا ڈی بی ایس کہا جاتا ہے، بالآخر ان جیسے تقریباً تیس لاکھ امریکیوں کو ڈپریشن سے نجات پانے میں مدد دے سکتا ہے، جن میں دوسرے علاج کے خلاف مزاحمت پیدا ہو چکی ہے۔ یہ ڈیوائس پارکنسنز اور مرگی جیسے اعصابی امراض کے لیے بھی کارآمد ہے اور بہت سے ڈاکٹروں اور مریضوں کو امید ہے کہ یہ جلد ہی ڈپریشن کے لیے زیادہ وسیع پیمانے پر دستیاب ہو جائے گی۔

یہ علاج مریضوں کے دماغ کے لیے ایک ’پیس میکر‘ کی طرح برقی تحریک پیدا کرتا ہے۔ حالیہ تحقیق امید افزا ہے، جس پر مزید کام جاری ہے۔

حالانکہ دو بڑے مطالعات، جن کے مطابق ڈپریشن کے لیے ڈی بی ایس کے استعمال کا کوئی فائدہ نہیں دیکھا گیا، نے اس پیش رفت کو عارضی طور پر روک دیا اور کچھ سائنسدان اس ٹیکنالوجی کے استعمال کے حوالے سے خدشات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔

دوسری جانب امریکی ادارے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے ایبٹ لیبارٹریز کی ڈی بی ایس ڈیوائسز کو ڈپریشن کے لیے استعمال کرنے کی درخواست کے جائزے کو تیز کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

ماؤنٹ سینائی ویسٹ میں جاری تحقیق میں حصہ لینے والی ایملی نے اس ڈیوائس کے بارے میں بات کرتے ہوئے خبر رساں ادارے اے پی کو بتایا، ”پہلے تو میں خوف زدہ تھی کیونکہ اس کا تصور بہت شدید لگتا ہے، جیسے یہ دماغ کی کوئی سرجری ہو۔۔ آپ کے دماغ میں تاریں جڑی ہوئی ہیں۔۔ لیکن میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ اس وقت میں نے سب کچھ آزما لیا تھا اور کچھ بھی کام نہیں کر رہا تھا۔“

ایملی غربت اور بے گھری میں پروان چڑھنے والے بچے کے طور پر افسردگی کی علامات کا شکار تھیں، لیکن انہیں پہلا بڑا جھٹکا کالج میں لگا، جب 2009 میں ان کے والد نے ڈپریشن کے باعث خودکشی کر لی تھی۔

گریڈ اسکول کے آخری سال اپنی والدہ کو کھونے کے بعد بھی وہ نفسیات کے شعبے میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے میں کامیاب رہیں، لیکن ایملی کو ہمیشہ سے اندر سے کچھ کھا رہا تھا۔ بعض اوقات اپنے والدین کی طرح انہوں نے بھی اپنی زندگی ختم کرنے کے بارے میں سوچا۔

ایملی بتاتی ہیں کہ انہوں نے الیکٹروکونوولسیو تھراپی سمیت تمام آپشنز ترک کر دیے، جب تین سال پہلے ایک ڈاکٹر نے انہیں ڈی بی ایس کے بارے میں بتایا۔

ان کے بقول: ”میں نے فوری طور پر ہاں کر دی کیوں کہ کچھ اور کام نہیں کر رہا تھا۔“

اس طرح وہ ڈپریشن کے لیے ڈی بی ایس کا استعمال کرنے والے پہلے چند سو افراد میں سے ایک بن گئیں۔

ایملی کی دماغی سرجری ہوئی۔ ماؤنٹ سینائی سینٹر فار نیوروموڈولیشن کے ڈائریکٹر ڈاکٹر برائن کوپیل نے ان کے دماغ کے ایک ایسے حصے میں پتلی دھات کے الیکٹروڈز رکھے، جسے سبکالوسل سینگولیٹ کارٹیکس کہا جاتا ہے، جو جذباتی رویے کو منظم کرتا ہے اور اداسی کے احساسات رکھتا ہے۔

الیکٹروڈ ایک اندرونی تار کے ذریعے ان کے سینے میں جِلد کے نیچے رکھے ہوئے ایک آلے سے جڑے ہوتے ہیں، جو برقی اسٹیمولیشن (مہیج) کی مقدار کو کنٹرول کرتا ہے اور مسلسل کم وولٹیج والے پلسیز فراہم کرتا ہے۔

ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اسٹیمولیشن مدد کرتی ہے، کیونکہ برقی لہریں دماغ کی زبان سمجھتی ہیں۔ نیوران برقی اور کیمیائی سگنلز کا استعمال کرتے ہوئے روابط قائم کرتے ہیں۔

ڈاکٹر کوپیل نے کہا کہ عام افراد کے دماغوں میں برقی سرگرمی تمام ایریا میں بغیر کسی رکاوٹ کے ایک طرح کے ردھم میں سفر کرتی ہے۔ افسردگی میں یہ برقی لہریں دماغ کے جذباتی سرکٹس میں پھنس جاتی ہیں۔ ڈی بی ایس سرکٹ کو غیر چسپاں کرتا ہے اور دماغ کو اپنا کام انجام دینے کی اجازت دیتا ہے۔

ایملی نے کہا کہ اس کا اثر تقریباً فوری طور پر تھا۔

ایملی کے ماہر نفسیات ڈاکٹر مارٹجن فیگی کا کہنا ہے کہ سرجری کے بعد پہلے دن ایملی نے منفی موڈ اور بھاری پن کے احساس میں کمی محسوس کی۔

ڈاکٹر مارٹجن فیگی نے مزید کہا، ”مجھے یاد ہے کہ ایملی نے مجھے بتایا تھا کہ وہ برسوں بعد پہلی بار ویتنامی پکوان سے لطف اندوز ہونے اور واقعی کھانے کا ذائقہ محسوس کرنے کے قابل تھیں۔۔ انہوں نے اپنا گھر سجانا شروع کر دیا جو نیویارک منتقل ہونے کے بعد سے بالکل خالی پڑا تھا۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close