جبری گمشدگی کے شکار حفیظ بلوچ تمام الزامات سے بری ”آخر میرے ساتھ ایسا کیوں کیا گیا؟“

ویب ڈیسک

قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طالب علم عبدالحفیظ بلو چ کو جمعرات کو بلوچستان کی انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے دہشت گردی کے مقدمے سے بری کر دیا ہے

رواں سال 15 مارچ کو گرفتاری ظاہر کیے جانے کے بعد حفیظ بلوچ ضلع نصیر آباد کے سینٹرل جیل میں تھے۔ عدالت سے بریت کے بعد ان کو جیل سے رہا کر دیا گیا

رہائی کے فوراً بعد حفیظ بلوچ تعلیم کا سلسلہ وہیں سے شروع کرنے کے لیے پر عزم ہیں، جہاں سے یہ سلسلہ منقطع ہوا تھا

انہوں نے اپنی رہائی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ”لوگوں کی زندگی میں سب زیادہ خوشی کا دن ان کی شادی کا یا خاندان میں کسی خوشی کا ہے اور میری زندگی میں سب سے زیادہ خوشی کا دن آج جیل سے رہائی کا ہے“

حفیظ بلوچ کا کہنا تھا کہ وہ گھر والوں سے ملنے اور چند روز آرام کے بعد قائد اعظم یونیورسٹی میں اپنی تعلیم کا دوبارہ آغاز کریں گے

تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے لیے اپنی پرانی زندگی میں جانا مشکل ہوگا

وہ کہتے ہیں ”اس میں کوئی شک نہیں کہ اس واقعے نے مجھے بدل دیا ہے۔ مجھے اپنی پڑھائی تو کیا اپنے بہت سے دوستوں کے چہرے یاد نہیں رہے۔ میرے ذہن میں ہر وقت بس یہی سوال ہوتا تھا کہ آخر میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟“

انسداد دہشت گردی کی عدالت سے بریت کے بعد حفیظ بلوچ نے کہا ”میں ایک طالب علم تھا۔ پہلے مجھے لاپتہ کیا گیا۔ اس کے بعد دہشت گردی کا مقدمہ قائم کر کے مجھے سلاخوں کے پیچھے ڈالا گیا۔ یہ میرے لیے ایک اذیت ناک صورتحال تھی جس سے مجھے آج نجات مل گئی“

ان کا کہنا تھا ”گرفتاری ظاہر کرنے کے بعد جب میرے خلاف بے بنیاد مقدمہ قائم کیا گیا تو مجھے امید تھی کہ میرے ساتھ اچھا ہوگا کیونکہ میں بے گناہ تھا“

حفیظ بلوچ قائد اعظم یونیورسٹی میں ایم فل کے طالب علم ہیں اور جب انکیں جبری طور پر لاپتہ کیا گیا تو وہ اس وقت ایم فل کے فائنل سمسٹر میں تھے

انہوں نے بتایا کہ جہاں مجھے ایک اذیت ناک صورتحال سے دوچار کیا گیا وہیں میری تعلیم بھی بری طرح سے متاثر ہوئی ہے

انہوں نے بتایا ”جیل کے جس بیرک میں مجھے رکھا گیا تھا وہاں میرے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ میں اپنے کورس کی کتابوں کا مطالعہ جاری رکھ سکوں، اس لیے 8 فروری کے بعد سے رہائی تک میرا قیمتی وقت ضائع ہو گیا“

حفیظ بلوچ نے کہا کہ رہائی کے بعد ان کی پہلی ترجیح یہ ہے کہ یونیورسٹی جائیں اور اپنی تعلیم مکمل کریں

کاﺅنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) بلوچستان نے 15مارچ کو حفیظ بلوچ کی بلوچستان کے علاقے جھل مگسی سے گرفتاری ظاہر کرتے ہوئے ان کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا تھا

سی ٹی ڈی بلوچستان نے دعویٰ کیا تھا کہ عبدالحفیظ بلوچ سے 15 مارچ کو دھماکہ خیز مواد برآمد کیا گیا، جس کی بنیاد پر ان کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا

ان کے خلاف سی ٹی ڈی کی ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ ’مخبر خاص نے اطلاع دی کی ایک نوجوان جو کالعدم تنظیم بی ایل اے اسلم گروپ کا کارکن ہے ایک سیاہ بیگ اٹھائے مشکوک حالت میں جھل مگسی کے راستے سے جعفر آباد کی جانب پیدل آ رہا ہے۔‘

ایف آئی آر کے مطابق اس اطلاع پر سیف آباد شاخ کے علاقے جعفرآباد گوٹھ محمد مٹھل مگسی میں ناکہ بندی کی گئی۔ اس دوران دن دو بج کر تیس منٹ پر ایک نوجوان بیگ اٹھائے پیدل آیا، جسے گرفتار کر لیا گیا

ایف آئی آر کے مطابق ’بیگ کی تلاشی لینے پر اندر دھماکہ خیز مواد اور نٹ بولٹ پائے گئے۔ ڈجیٹل ترازو میں وزن کرنے پر دھماکہ خیز مواد کا وزن دو سو گرام جبکہ لوہے کے نٹ بلٹ کا وزن چار سو گرام تھا۔ اس کے علاوہ ان سے تار وغیرہ بھی برآمد ہوئی۔‘

دھماکہ خیز مواد کی برآمدگی کے الزام میں ان کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا اور مقدمے کا چالان انسداد دہشت گردی کی عدالت اوستہ محمد میں جمع کرایا گیا

حفیظ بلوچ کے وکیل عمران بلوچ ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ بدھ کو عدالت نے مقدمے کی سماعت مکمل کرکے اس پر فیصلہ محفوظ کیا تھا

عمران بلوچ ایڈووکیٹ نے کہا ”جمعرات کو اس پر فیصلہ سناتے ہوئے عدالت کےجج محمد علی مبین نے حفیظ بلوچ کو تمام مقدمات سے بری کرتے ہوئے ان کو رہا کرنے کا حکم دیا“

عمران بلوچ کے مطابق استغاثہ نے حفیظ بلوچ پر جو بھی الزامات لگائے تھے، عدالت میں وہ ان کو ثابت نہیں کر سکے، جس پر عدالت نے ان کو تمام الزامات سے بری کر دیا

حفیظ بلوچ کی جبری گمشدگی

حفیظ بلوچ کا تعلق ضلع خضدار کے علاقے باغبانہ سے ہے

گرفتاری ظاہر کیے جانے سے پہلے حفیظ بلوچ رواں سال 8 فروری کو خضدار شہر سے لاپتہ ہوئے تھے اور اس حوالے سے سٹی تھانہ خضدار میں ان کے والد حاجی محمد حسن کی جانب سے ایف آئی آر درج کرائی گئی تھی

ان کے والد نے ان کی جبری گمشدگی کے بعد بتایا تھا کہ حفیظ چھٹیوں پر جنوری کے آخری ہفتے میں اسلام آباد سے خضدار آئے تھے

ان کا کہنا تھا کہ عبدالحفیظ کو تعلیم سے بہت لگاؤ تھا اس لیے چھٹیوں کے دوران بھی انھوں نے درس و تدریس سے اپنا ناطہ نہیں توڑا اور وہ شام کو ایک مقامی ادارے میں بچوں کو مفت پڑھانے جاتے تھے

انہوں نے بتایا کہ 8 فروری کے روز بھی وہ بچوں کو پڑھانے کے لیے اکیڈمی میں تھے کہ وہاں سیاہ رنگ کی ایک گاڑی میں تین نقاب پوش مسلح افراد آئے

’ان میں سے دو افراد کلاس روم میں آئے اور عبدالحفیظ کو طلبا کے سامنے زبردستی اپنے ساتھ لے گئے‘

حفیط بلوچ کی بازیابی کے لیے نہ صرف بلوچستان بلکہ اسلام آباد سمیت پاکستان کے دیگر شہروں میں بھی احتجاج کیا گیا تھا

اسلام آباد میں ان کی بازیابی کے لیے ایک احتجاجی کیمپ بھی قائم کیا گیا تھا، جس میں حفیظ بلوچ کے والد نے بھی شرکت کی تھی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close