چینی ماہرین کی جانب سے کی جانے والی ایک تازہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ انسانوں کو ’زیکا اور ڈینگی وائرس‘ کا شکار بنانے والے مچھر ایک خاص طرح کے ’بُو‘ دلدادہ ہیں اور ایسی بو والے افراد کو زیادہ کاٹتے ہیں
تفصیلات کے مطابق طبی جریدے ’سیل‘ میں شائع تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ امریکا کی مختلف یونیورسٹیز اور اداروں کی جانب سے کی جانے والی تحقیق سے معلوم ہوا کہ زیکا اور ڈینگی وائرس کے شکار افراد کے جسم کی ’بُو‘ بھی تبدیل ہو جاتی ہے
ماہرین نے تحقیق کے دوران نوٹ کیا کہ ایک خاص طرح کے مچھر کچھ خاص افراد اور چوہوں کو ہی کاٹ رہے ہیں
ماہرین نے نوٹ کیا کہ زیکا اور ڈینگی کا شکار بنانے والے مچھر ’ایسیٹوفینون‘ (Acetophenone) نامی ’خوشبو یا بُو‘ کے حامل افراد کا زیادہ کاٹتے ہیں اور پھر ان افراد کا خون پینے کے بعد وہی مچھر صحت مند افراد کو کاٹتے ہیں جہاں سے مرض مزید افراد میں پھیلتا ہے
تحقیق کے دوران سائنسدانوں نے نوٹ کیا کہ ’ایسیٹوفینون‘ (Acetophenone) نامی ’بُو‘ کمزور اور مختلف مسائل سے دوچار چوہوں کے جسم پر بنتی ہے، جنہیں خصوصی مچھر کاٹتے ہیں اور پھر وہی مچھر انسانوں کو کاٹتے ہیں، جس کے نتیجے میں زیکا اور ڈینگی وائرس پھیلتا ہے
ماہرین کے مطابق ایک بار ڈینگی اور زیکا کا شکار ہونے والے بیمار شخص کو مزید صحت مند مچھر کاٹتے ہیں اور اس کا خون لے کر دوسرے صحت مند شخص کو کاٹتے ہیں، یوں مچھروں کے کاٹنے سے پھیلنے والی بیماری تیزی سے پھیلتی ہے
ماہرین نے تحقیق کے دوران ’ایسیٹوفینون‘ نامی ’بُو‘ کو مالیکیول کی صورت میں صحت مند مچھروں اور انسانوں کے ہاتھ پر لگا کر ان کے پاس مچھر بھی چھوڑے جب کہ دوسرے گروپس کو مذکورہ ’بُو‘ کے بغیر رکھا لیکن مچھروں نے ان ہی چوہوں اور انسانی ہاتھوں کے ساتھ چپکتے رہنا پسند کیا جنہیں ’ایسیٹوفینون‘ بُو لگائی گئی تھی۔
علاوہ ازیں ماہرین نے تحقیق کے دوران یہ بھی تجربہ کیا کہ جن چوہوں میں مذکورہ بُو پیدا ہو رہی ہے، ان کا علاج کرکے انہیں صحت مند بنایا گیا، جس کے بعد ان کے جسم پر ’ایسیٹوفینون‘ بُو نہیں ہوئی اور پھر مچھروں نے بھی انہیں کاٹنا پسند نہیں کیا۔