امریکی ماہرین نے پاکستان اور بھارت میں ملیریا پھیلانے والے مچھر کو جینیاتی انجینیئرنگ سے گزارا ہے۔ اس مقصد کے تحت مچھر کو جدید ترین کرسپر سی اے ایس 9 ٹیکنالوجی کے ذریعے تبدیل کیا گیا جس کے بعد وہ مرض پھیلانے کے قابل نہیں رہتے۔
اس سے قبل بھی بڑے پیمانے پر جینیاتی انجینیئرنگ کے ذریعے مچھروں کی نسل کشی اور بیماری پھیلانے کی صلاحیت روکی گئی ہے تاہم اس مرتبہ کرسپر سی اے ایس 9 کی بدولت پاکستان اور ہندوستان میں ملیریا کی وجہ بننے والے مشہور مچھر اینوفیلس اسٹیفنسائی کے کروموسوم میں بعض تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ جن کے بعد وہ ملیریا کی وجہ بننے والے طفییلیے کو مزید پھیلانے سے قاصر رہتے ہیں
اس عمل کو "آبادی میں تبدیلی” ( پاپولیشن موڈی فکیشن) کہا جاتا ہے۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا برکلے، یوسی ایل اِرون، اور یوسی ایل سان دیاگو کے ماہرین نے ایسے جینیاتی مچھر بنائے ہیں جو ملیریا نہیں پھیلا سکتے
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس جینیاتی تبدیلی کے بعد جیسے جیسے مادہ مچھر مزید انڈے دیتی ہے تو اگلی نسلوں میں بھی ملیریا پھیلانے کی صلاحیت مزید کم ہوتی جاتی ہے
اس تحقیق کے مرکزی سائنسداں پروفیسر اینتھونی جیمز کہتے ہیں کہ "سیکنڈ جنریشن جین ڈرائیو سسٹم” میں بہت سے جین دیکھے گئے ہیں، جنہیں سلا کر مچھروں کی نسل خیزی اور مرض بڑھانے کی صلاحیت کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عین اسی طریقے سے حشرات کو بدل کر لیشمینیا، سلیپنگ ڈیزیز اور دیگر امراض پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی پاکستان اور ہندوستان میں ملیریا کی بڑی وجہ بننے والے ایک مچھر اینوفیلس اسٹفینسائی کو مرض سے پاک کرنے کے لیے تیار کی گئی ہے۔ تاہم نر مچھروں میں ان کی افادیت دیکھی گئی اور اگلی نسل تک اس کا پھیلاؤ 99 فیصد تک دیکھا گیا لیکن مادہ میں کم تھا
بعدازاں اس کمی کو دور کرنے کے لیے مزید تحقیق کی گئی اور اس میں کامیابی حاصل ہوئی، یعنی مادہ مچھر نے بیماری نہ پھیلانے والے خواص اگلی نسلوں میں بھی منتقل کئے
سائنسدانوں نے امید ظاہر کی ہے کہ بہت جلد اسے ماحول میں موجود مچھروں پر آزمایا جائے گا کیونکہ اب یہ ٹیکنالوجی عملی آزمائش کے لیے تیار ہے۔