پہاڑوں کا بادشاہ لٹل کریم، جنہیں رونالڈو نے اپنی شرٹ تحفے میں دی

ویب ڈیسک

گانچھے – ”انتہائی کسمپرسی کا شکار ہوں، مگر کبھی بھی کرسٹیانو رونالڈو کے ہاتھوں سے ملنے والی شرٹ نیلام نہیں کر سکتا کیونکہ یہ میرے لیے بہت قیمتی ہے۔ رونالڈو سے ملنا میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش تھی اور ان کے دستخط والی شرٹ عظیم تحفہ ہے۔“

یہ الفاظ بین الاقوامی دنیا میں معروف مگر پاکستان میں کم پہچان پانے والے ایڈونچر ٹورازم سے منسلک محمد کریم کے ہیں، جنہیں ’لٹل کریم‘ کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے

واضح رہے کہ ان دنوں لٹل کریم کے بارے میں سوشل میڈیا پر خبریں گردش کر رہی ہیں کہ وہ اپنی بیماری اور غربت کی وجہ سے کرسٹیانو رونالڈو سے ملنے والی شرٹ کو نیلامی کے لیے پیش کر رہے ہیں

لٹل کریم پر عالمی طور پر کم از کم چار ایسی بین الاقوامی فلمیں بن چکی ہیں، جن کو مختلف ایوارڈ ملے ہیں

انہوں نے ستر، اسی اور نوے کی دہائی میں دنیا کے ہر بڑے کوہ پیما کی گلگت بلتستان کے دشوار پہاڑوں پر کوہ پیمائی میں مدد کی تھی

کہنے کو تو لٹل کریم بلند و بالا پہاڑوں پر کوہ پیماؤں کے لیے پورٹر کا کام کرتے تھے، مگر ان کے کارناموں اور کئی ایک رکارڈز کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ”شاید ان رکارڈز کو توڑنا ممکن نہ ہو سکے“

لٹل کریم کے حوالے سے گلگت بلتستان حکومت کے ترجمان امتیاز علی تاج کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ خالد خورشید نے لٹل کریم کے علاج کے تمام اخراجات اور اُن کے بچوں کے لیے مناسب روزگار کا انتظام کرنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں

لٹل کریم کا تعلق گلگت بلتستان کے ضلع گانچھے اور پاکستان کی آخری سمجھی جانے والی وادی ہوشے سے ہے

ان کا کہنا ہے ”رونالڈو سے ملنا زندگی کا سب سے یادگار لمحہ سمجھتا ہوں۔ اب عمر کے اس حصے میں یاداشت کم ہو گئی ہے، مگر رونالڈو سے ملاقات کو کبھی بھی نہیں بھول سکتا۔“

لٹل کریم کہتے ہیں ”رونالڈو کے ہاتھوں ملنے والی شرٹ کو ہمیشہ اپنی نظروں کے سامنے رکھوں گا۔“

لٹل کریم کے صاحبزادے محمد حنیف، جو رونالڈو سے ہونے والی اس ملاقات میں اُن کے ہمراہ تھے، نے بتایا کہ ’2018 میں جب لٹل کریم کی حالت بہت خراب ہو گئی تو اس وقت ہماری درخواست پر اسپین کے ایک ٹیلی وژن سے تعلق رکھنے والے ڈائریکٹر سیبسٹین آئن الوارو لومبا نے علاج کی غرض سے ہمیں اسپین بلایا تھا۔ اسپین کے ڈاکٹروں نے فیصلہ کیا تھا کہ والد کے جگر کا ٹرانسپلانٹ ہونا اب ممکن نہیں، اس لیے ان کو چند ادویات تجویز کر دی تھیں۔‘

محمد حنیف کا کہنا ہے کہ ’والد صاحب یہ ادویات کھا رہے ہیں، ان ادویات ہی کو ان کا علاج قرار دیا گیا ہے۔ اسپین سے ہماری واپسی کے وقت والد صاحب کے لیے ایک شاندار تقریب کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس تقریب میں اسپین کے بڑے بڑے لوگوں کے علاوہ صحافی بھی موجود تھے۔‘

انہوں نے بتایا ’ایک صحافی نے والد صاحب سے کہا کہ کریم آپ تو بہت مشہور آدمی ہو، کچھ کہو، ہم آپ کو سُننا چاہتے ہیں۔ اس پر والد صاحب نے کہا کہ میں کچھ اور تو نہیں کہنا چاہتا، بس شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ پتا نہیں اس کے بعد دوبارہ اسپین آنے کا موقع ملے یا نہ ملے، اس لیے میری ایک خواہش ضرور ہے کہ فٹ بال کی دنیا کے بادشاہ رونالڈو سے میری ملاقات ہو جائے۔‘

محمد حنیف نے بتایا ’ابھی یہ تقریب جاری ہی تھی کہ وہاں پر فون آ گیا کہ رونالڈو فلاں مقام پر والد صاحب سے ملاقات کریں گے۔ مقررہ وقت پر اس مقام پر ہم پہنچے تو وہاں پر کینسر کے کئی مریض بچے تھے، جن سے ملاقات کے لیے رونالڈو وہاں پر آئے ہوئے تھے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’رونالڈو نے سب بچوں سے ملاقاتیں کیں اور پھر خصوصی طور پر والد صاحب کے ساتھ ملے اور انہیں اپنے دستخط کی ہوئی ایک شرٹ پیش کی۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’اس موقع پر رونالڈو والد صاحب کے ساتھ بات چیت بھی کرتے رہے اور ان سے کہا کہ پہاڑوں کے بادشاہ سے مل کر بہت خوشی ہو رہی ہے۔ والد صاحب نے بھی کہا میری خواہش تھی کہ فٹ بال کے بادشاہ سے ملاقات کروں۔ یہ خواہش پوری کرنے کا بہت بہت شکریہ۔‘

لٹل کریم کا کہنا تھا کہ ’میرے مالی حالات تباہ ہو چکے ہیں۔ تین ماہ ہو چکے ہیں کہ اپنے کمرے اور گھر سے بھی باہر نہیں نکلا ہوں۔ ایک وقت تھا جب میں پہاڑوں پر ایسے چڑھ جایا کرتا تھا، جس طرح کوئی اپنے گھر کے صحن میں ٹہل رہا ہوتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے ساری زندگی اپنی کمیونٹی اور لوگوں کی خدمت کی ہے۔ مجھ سے جو کچھ ہو سکا وہ کرتا رہا ہوں۔ کبھی بھی یہ نہیں سوچا کہ مجھے کوئی بینک بیلنس بنانا چاہیے، مجھے کچھ پیسے اکٹھا کرنا چاہیے۔ کوئی کاروبار کرنا چاہیے۔ بس پہاڑوں پر چڑھتا اور جو پیسے ملتے وہ خرچ کر دیتا تھا۔‘

لٹل کریم کا کہنا تھا کہ ’میں نے پاکستان کا پرچم گلگت بلتستان کے سارے بلند و بالا پہاڑوں پر لہرایا۔ دنیا کے کئی بڑے کوہ پیماؤں کی مدد کی اور جس کے ساتھ بھی کام کیا اس نے میرے کام اور محنت کے بعد مجھے عزت اور محبت دی اور یاد رکھا۔ مگر پتا نہیں مجھے میرے اپنوں نے کیوں بھلا دیا ہے۔ پتا نہیں انھیں میری یاد آتی بھی ہے کہ نہیں؟‘

لٹل کریم بتاتے ہیں کہ جب ستر کے عشرے میں وہ بلند و بالا پہاڑوں کے پورٹر بننے کے لیے اسکردو شہر پہنچے تو ان کا قدوقامت اور وزن دیکھ کر اُن کو مسترد کیے جانے کا اندیشہ تھا۔ مہم جو اُن کو دیکھ کر تصور کرتے کہ یہ پچیس کلو وزن اٹھا کر ’کے ٹو‘ بیس کیمپ تک بھی نہیں پہنچ سکتے۔

وہ بتاتے ہیں ’کئی مہم جوؤں کی جانب سے مسترد کیے جانے کے بعد اسپین کی ایک ٹیم کے پاس پوٹرز کی قلت پیدا ہو گئی تھی۔ جس پر انہوں نے مجبوری کے عالم میں مجھے ساتھ لیا تھا۔‘

یہ پہلا موقع تھا کہ وہ پورٹر کی خدمات انجام دے رہے تھے۔ جس کے بعد ان کے اسپین کے مہم جو افراد کے ساتھ مضبوط روابط بن گئے

اسپین کے مہم جو ان سے اتنا متاثر ہوئے کہ اپنی سرگزشت میں لٹل کریم کا خصوصی ذکر کرنے کے علاوہ ان پر ایک کتاب بھی لکھی گئی، اسی طرح اسپین کے سینما گھروں میں ان پر پر بنائی گئی فلم کی نمائش بھی ہوئی تھی

فرانس اور یورب کے دیگر فلم سازوں نے بھی ان پر فلمیں بنائیں ہیں

سنہ ستر ہی کی دہائی میں برطانوی کوہ پیما کرس بوننگٹن نے تقریباً دو سو پورٹرز کی خدمات حاصل کیں تھیں۔ انہوں نے لٹل کریم کو چھوٹے قد اور کم وزن کی بنا پر نظر انداز کردیا تھا۔ جس پر لٹل کریم مایوس ہوئے۔ انہوں نے کرس بوننگٹن کے ارد گرد چکر لگایا اور اپنا سر بڑے قد کے بندے کی ٹانگوں میں دے دیا۔ اس کے بعد گراؤنڈ میں دوڑنا شروع کر دیا

اس پر موقع پر موجود پورٹرز ہنسنے لگے، مگر کوہ پیما متاثر ہوئے اور انہوں نے اپنی مہم جوئی کے لیے لٹل کریم کو منتخب کر لیا۔ جس کے بعد لٹل کریم نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا

الپائن کلب آف پاکستان کے سیکریٹری کرار حیدری کہتے ہیں کہ ’لٹل کریم کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ اپنے وزن سے زیادہ سامان اٹھاتے ہیں۔ وہ بلند وبالا پہاڑوں کے راز جانتے ہیں جو کہ کسی بھی کوہ پیما کے لیے ایک بہترین ساتھی ثابت ہوتے تھے۔ ایک وقت تھا کہ انہیں منتخب نہیں کیا جاتا تھا۔ پھر ایک وقت آیا کہ کوہ پیما اس بات کا انتطار کرتے تھے کہ لٹل کریم انہیں وقت دیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’وہ شاندار کوہ پیما ہی نہیں بلکہ ایک شاندار شخصیت بھی ہیں۔ جنہوں نے ساری زندگی دوسروں کے لیے قربانیاں دی ہیں۔‘

کرار حیدری کہتے ہیں کہ ’پاکستان میں لٹل کریم کو زیادہ نہیں جانا پہچانا جاتا مگر بین الاقوامی دنیا میں وہ ایک مشہور شخصیت ہیں۔ ان پر کتابیں لکھی گئی ہیں اور فلمیں بنائی گئی ہیں۔ اس کی وجہ ان کی شخصیت میں موجود ایثار، محنت اور قربانی دینے کا جذبہ ہے۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’ایک مرتبہ ایک مہم جوئی کی مہم کے دوران سوئز لینڈ کی خاتون مہم جو دریا میں گر گئی تھی۔ گلگت بلتستان کے دریا ویسے ہی خطرناک سمجھے جاتے ہیں۔ سب ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے کہ کیا کیا جائے۔ اتنی دیر میں لٹل کریم نے دریا میں چھلانگ لگا دی اور خاتون کو بچا کر لے آئے۔‘

کرار حیدر کہتے ہیں کہ ’دریا میں چھلانگ لگانا بظاہر خودکشی ہے۔ اب لٹل کریم اسی علاقے کے رہنے والے ہیں۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ ان کو پتا نہ ہو کہ یہ کتنا خطرناک دریا ہے۔ مگر اس کے باوجود انھوں نے نہ صرف دریا میں چھلانگ لگائی بلکہ خاتون کی زندگی کو بھی بچا لیا تھا۔‘

کرار حیدری بتاتے ہیں کہ ’لٹل کریم کو اسپین کے کوہ پیماؤں میں بہت اہمیت حاصل تھی۔ کئی کوہ پیما ان کے دوست بنے تھے۔ اسپین میں ان پر بننے والی فلموں سے متاثر ہو کر ایک غیر سرکاری ادارے نے ان کے لیے ایک ہوٹل بنا کر دیا تھا۔ مگر لٹل کریم نے وہ ہوٹل اپنے ذاتی یا کاروباری استعمال کرنے کے بجائے فلاحی کاموں کے لیے دے دیا تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’وقف کردہ ہوٹل سے حاصل ہونے والی آمدن سے طالب علموں کو اسکالر شپ فراہم کیے جاتے ہیں۔ اب تک کئی درجن طالب علموں کو اسکالر شپ فراہم کیا جا چکا ہے۔‘

لٹل کریم کے صاحبزادے محمد حنیف کہتے ہیں کہ ’ہوٹل کمیونٹی چلا رہی ہے۔ اس کا سارا منافع کمیونٹی پر ہی خرچ ہوتا ہے۔ والد صاحب جب بلند و بالا پہاڑوں پر چڑھتے تھے تو اس وقت بھی اپنی کمیونٹی ہوشے والوں کی صحت و تعلیم پر سب کچھ خرچ کر دیتے تھے۔‘

کرار حیدری کہتے ہیں کہ ’لٹل کریم تعلیم یافتہ نہیں ہیں۔ انہوں نے کئی کارنامے انجام دیے ہیں جو کہ یقینی طور پر ورلڈ رکارڈ ہیں مگر یہ رکارڈ کا حصہ نہیں بن سکے۔ اب اس وقت لٹل کریم خود بیمار ہیں اور ان سے اس متعلق زیادہ پوچھا بھی نہیں جا سکتا۔ مگر کچھ لوگ اس پر تحقیق کر رہے ہیں اور ہم امید کرتے ہیں کہ وہ بھی جلد منظر عام پر آئیں گے۔‘

بلتستان ایڈونچر ٹور آپریٹر ایسوسی ایشن کے چیئرمین حاجی محمد اقبال اور لٹل کریم نے ایڈونچر ٹورازم میں تقریباً ، ایک ساتھ ہی کام کا آغاز کیا تھا۔ حاجی محمد اقبال کہتے ہیں کہ ’لٹل کریم میرا دوست اور یار ہے۔ وہ پہاڑوں کا بیٹا، انتہائی بہادر، قربانی اور ایثار کرنے والا ہے۔ اس کے ایک نہیں بلکہ کئی رکارڈ ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس کا ایک رکارڈ تو ایسا ہے کہ شاید وہ رہتی دنیا تک توڑا نہ جا سکے۔ یہ ریکارڈ گیشر بروم ٹو کی آٹھ ہزار میڑ سے بلند چوٹی پر پچیس کلو وزن اٹھا کر پہنچنا ہے۔ بظاہر تو لوگوں کو یہ عام بات لگتی ہے کہ پچیس کلو وزن اٹھا لیا مگر یہ اتنا آسان نہیں ہوتا۔ یہ ریکارڈ انھوں نے اَسی کی دہائی میں بنایا تھا۔‘

حاجی محمد اقبال کے مطابق ’بین الاقوامی قوانین اور اصول و ضوابط کے مطابق ایک پورٹر روڈ سے بیس کیمپ تک زیادہ زیادہ پچیس کلو وزن لے کر چلتا ہے۔ بیس کیمپ سے کیمپ ون تک پندرہ کلو، کیمپ ون سے کیمپ تھری تک آٹھ سے دس کلو۔ کیمپ تھری سے کیمپ فائیو تک پانچ کلو اور کیمپ فائیو سے چوٹی تک دو، تین کلو وزن لے کر جاتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’بلندیوں پر یہ وزن صرف بلندیوں کے پورٹر ہی اٹھا سکتے ہیں، عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہوتی ہے۔ پانچ ہزار میٹر سے اوپر تو ویسے ہی سانس پھولنے لگتی ہے۔ جسم میں طاقت ختم ہو جاتی ہے۔ اب لٹل کریم کی ہمت دیکھیں جو پچیس کلو وزن اٹھا کر آٹھ ہزار میٹر سے بلندی کی چوٹی پر پہنچ گیا۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’اس کارنامے کے بعد دنیا بھر میں چرچا شروع ہوا۔ لٹل کریم درحقیقت ایک عظیم کریم کی صورت میں نمودار ہوا۔ اس کے قد کاٹھ کا غیروں نے اندازہ لگا کر قدر کی، مگر وہ اس وقت ایک ٹوٹے پھوٹے گھر میں رہنے پر مجبور ہے۔‘

لٹل کریم کے بیٹے محمد حنیف کہتے ہیں ”پاکستان میں سال میں دو مرتبہ لوگوں کو ایوارڈ دیے جاتے ہیں۔ میں نے بھی سات دفعہ کاغذ جمع کروائے، انہیں والد صاحب پر بننے والی فلمیں دیں۔ فرانس اور اسپین میں چھپنے والے آرٹیکل دیے، مگر پتا نہیں کیوں ابھی تک والد صاحب کا نام نہیں نکلا؟“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close