”بلال۔۔ بلال جلدی اٹھو!!!“ میں نے پریشانی میں، بخار میں بے سدھ سوت بلال کو
بے اختیار جھنجوڑ دیا
بلال ہڑبڑا کر اٹھ تو گیا مگر کچھ بھی سمجھنے سے قاصر تھا۔ میں نے اپنے آپ پر قابو رکھتے ہوئے اسے پانی کا گلاس دیا، جسے اس نے کسی پیاسے صحرائی کی طرح ایک ہی سانس میں غٹاغٹ چڑھا لیا
”کیا ہوا امی؟“
”بیٹا، بڑے ابا گھر میں نہیں ہیں۔ ابھی مچھلی والے نے گھنٹی بجائی تو دروازہ چوپٹ کھلا ہوا تھا“ میں لہجے کو متوازن رکھنے کی کوشش میں ہلکان ہو گئی
یہ سنتے ہی جیسے بلال کو بجلی کا جھٹکا لگا اور وہ اچھل کر بستر سے اٹھا اور بیڈ سائڈ سے اپنی بائیک کی چابی اور فون اٹھاتے ہوئے مجھے دروازہ بند رکھنے کی تاکید کرتے ہوئے تیزی سے آنگن کی طرف لپکا
میں شدید گھبراہٹ کا شکار، گھر کا دروازہ بند کر کے کٹی پتنگ کی طرح آنگن میں ڈولنے لگی۔ دل میں سو سو طرح کے وسوسے تھے۔۔
ناظم آباد گیارہ نمبر کے اس مختصر سے گھر میں تین نسلیں اکٹھی رہ رہی تھیں۔ بڑے ابا صرف میرے سسر ہی نہیں بلکہ ماموں بھی ہیں۔ صابر، شاکر اور کم گفتاری ان کا وصف۔ ان سے، کیا اپنے کیا پرائے، سب کو ہمیشہ خیر ہی ملی تھی۔ پیشہ کے لحاظ سے تو وہ اکاؤنٹنٹ تھے پر اپنی لگن کے بل بوتے پر ہومیوپیتھی بھی پڑھی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے زبان کی شیرینی کے ساتھ ساتھ ان کے ہاتھوں میں شفا بھی خوب رکھی تھی اور پورا محلہ انہی سے علاج کراتا تھا۔ اپنی زندگی میں بڑے ابا نے بڑے دکھ دیکھے، وہ عمر بھر ہر ہر پہلو سے آزمائے گئے مگر یہ بھی انہی کا حوصلہ تھا کہ انہوں نے اپنے مزاج میں کبھی کڑواہٹ نہیں آنے دی۔
نصف صدی پہلے جب دشمنوں کی سازشوں اور اپنوں کی بے غیرتی و ضمیر فروشی کے سبب میرا ملک لخت لخت کر دیا گیا تھا، تب بڑے ابا کا سنہرا سلونا لڑکپن تھا۔ مست الست بنگال کے سحر انگیز حسن میں کھلکھلاتا بچپن۔۔۔ پاربتی پور کے ریلوے کوارٹر نمبر 49 میں ٹی ٹی اکرام الحق اپنے خاندان کے ساتھ سکھ چین کے دن گزار رہے تھے مگر پُر امن دن تمام ہوئے کہ اب دلوں میں کدورت آ چکی تھی اور حکومتی نا انصافی و خود پرستی نے مروت کے پلڑے کو فضا میں معلق اور نفرت کو ثباتی اور مضبوطی دے دی تھی۔ گھروں کی دیواریں اب بھی ملی ہوئی تھیں مگر دلوں میں فاصلوں کی بلند و بالا فصیل کھنچ چکی تھی۔ دو عشرے سے زائد عرصے سے بنگال کی ہریالی زمین پر مقیم غیر بنگالی، جنہیں عرف عام میں بہاری کہا جاتا تھا، یکایک قابلِ دشنام اور واجب القتل ٹھہرے۔ وجہ ایمان کے بجائے زبان ٹھہری۔ وہ وجہ امتیاز جو تقسیم برصغیر کی بنیاد تھی، اسی کی پاسداری ان غیر بنگالیوں کا جرم گردن زدنی گردانا گیا۔ اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے اس نوزائیدہ ملک کے لیے پہلے انہوں نے اپنا سب کچھ قربان کیا اور بمشکل خالی ہاتھ اس سر زمین پر سبز پرچم تلے آباد ہوئے اور چوبیس سال بعد اپنے جذبہء ایمانی اور ملک سے وفاداری کی پاداش میں گاجر مولی کی طرح کاٹ ڈالے گئے۔ وحشت اور بربریت نے وہ قیامت صغریٰ بپا کی کہ انسانیت بلکتی ہوئی کہیں سندر بن میں روپوش ہو گئی۔ پڑوسی اور دوست جن کی نہ صرف دیواریں ملی تھیں بلکہ دھڑکنیں بھی ہم آہنگ تھیں، وہ ہی جان اور عزت آبرو کے بیری و درپے ہوئے۔
بڑے ابا بتاتے ہیں کہ بیس اپریل 1971، منگل کا دن تھا۔ شہر میں قتل عام کی افواہوں کا زور تھا اور فضا میں اتنا سہم کہ اس روز گھر سے کوئی باہر نکلا ہی نہیں، ابا بھی ریلوے اسٹیشن نہیں گئے تھے۔ ٹرین ویسے ہی بڑی مشکلوں سے چل رہی تھی کہ باغیوں نے جگہ جگہ سے پٹری اکھاڑ دی تھی۔ اسکول کالج بھی غیر اعلانیہ طور پر بند تھے۔ ہم سب نے باورچی خانے ہی میں چولہے کے گردا گرد بیٹھ کر سادی روٹی اور چائے کا ناشتا کیا تھا۔ اماں سرگوشیوں میں ابا کو بتا رہی تھیں کہ بھنڈار میں اناج بہت کم ہے۔ گھر میں اگی سبزیوں اور مرغیوں کے انڈوں کا ہی آسرا تھا کہ بازار ہاٹ عرصے سے بند پڑے تھے۔ چائے تو ایک ہفتے سے ہم لوگ کالی ہی پی رہے تھے۔ بڑی آپا اور چھوٹی آپا نے ناشتے کے بعد اپنے آپ کو معمول کی صفائی دھلائی میں مصروف کر لیا۔ کچے آنگن میں اکبر بھیا، اماں اور ابا سر جوڑے چنبیلی کے جھاڑ تلے بچھی چوکی پر اسی بحث میں الجھ گئے کہ ان حالات میں ہجرت کی جائے یا حالات میں بہتری کا انتظار کیا جائے۔ اکبر بھیا کا خیال تھا کہ پاکستان آرمی جلدی ہی ایکشن لے گی مگر ابا نامساعد حالات کے سبب مغربی پاکستان ہجرت کرنے کے حق میں تھے پر کنبہ بڑا اور ہاتھ تنگ۔
ابا میاں بڑی کوششوں کے بعد قرضہ بئینا کر کے پانی کے جہاز کی ٹکٹوں کا بندوبست کر پائے تھے مگر اب اماں نے ضد پکڑ لی اور وہ ابا کو مشرقی پاکستان میں تنہا چھوڑ کر کراچی جانے پر کسی صورت رضا مند نہ تھیں ۔ گھر میں پچھلے تین دنوں سے یہ ہی لاحاصل بحث برابر جاری تھی۔
میری چھوٹی بہن سیما مجھے سب سے زیادہ پیاری تھی، وہ اسی نیم کے درخت جس پر میں چڑھ کر ’اشتیاق پر کیا بیتی‘ پڑھ رہا تھا، کے نیچے ٹاٹ کا بورا بچھائے اپنی گڑیوں سے کھیل رہی تھی۔ میں لڑکپن میں قدم رکھ چکا تھا اور سیما نو برس کی تھی۔ یکایک دور سے شور کی آوازیں سنائی دینے لگیں اور ’جے بنگلہ‘ کے نعروں سے فضا تھرّا اٹھی۔ میرے درخت سے اترنے سے بھی پہلے ہمارے کواٹر کا بھورا دروازہ کلہاڑی سے توڑ کر ایک بپھرا ہوا ہتھیار بردار جتھا گھر میں گھس آیا۔ اماں نے بڑھ کر چیختی ہوئی سیما کو گلے لگا لیا مگر دیر ہوچکی تھی، میں نے اماں کے کٹے ہوئے بازوؤں کو اڑتے ہوئے کنویں کی منڈیر کے پاس گرتے دیکھا اور مضبوطی سے اپنے ہاتھوں سےکانوں کو ڈھانپتے ہوئے آنکھیں میچ لیں۔ نیچے گھر میں قیامت برپا تھی۔ میں نے بڑی آپا کی چیخ اور کنویں میں چھپاکے کی آواز سنی اور دیر تک چھوٹی آپا کی وحشت زدہ چیخیں بھی سنائی دیتی رہیں۔ ان کی وہ ہذیانی چیخیں ہمیشہ میری سماعت پہ تیزاب انڈیلتی اور میری نیندیں مجھ پر حرام کیے رہیں۔ لمبے عرصے تک میں اپنی بزدلی کے سبب اپنے آپ سے شاکی و شرمندہ رہا، مجھے اپنے آپ سے نفرت سی ہو گئی تھی۔ میں اور تو کچھ نہیں کر سکتا تھا پر کم از کم اپنے گھر والوں کے ہمراہ مر تو سکتا تھا۔۔ میں کیوں حفاظت سے درخت میں چھپا رہا؟
کیسی عجیب بات کہ کلہاڑی کے وار سے دروازہ توڑنے میں پیش پیش اعظم دا تھے، ہمارے پڑوسی جلیل چچا کے بڑے بیٹے اور اکبر بھیا کے بچپن کے دوست و ہم جماعت۔۔
جانے یہ کاروائی کتنی دیر جاری رہی مگر میرے لیے وقت اسی پہر میں ٹھہر گیا۔ مجھ میں ہمت ہی نہیں تھی کے درخت سے نیچے اتروں۔ گھر کے بکھرے ہوئے صحن میں اماں کی کٹی پھٹی لاش پڑی تھی، جس کے نیچے سیما دبی تھی۔ ابا ، اکبر بھیا، بڑی آپا اور چھوٹی آپا جانے کہاں تھیں۔
مغرب کے بعد دو سائے دبے قدموں سے گھر کے اندر داخل ہوئے اور میں جو بڑی مشکل سے درخت سے نیچے اترنے کی ہمت جٹا پایا تھا پھر سے نیم کی شاخ سے لپٹ گیا۔ آنے والے کوئی اور نہیں بلکہ جلیل چچا اور چچی تھے۔ اندر کمرے سے انہوں نے ابا اور اکبر بھیا کی لاشیں نکالی اور برآمدے میں رکھ کر ان پر چادر ڈال دی۔ اتنی میں چچی کی دبی دبی چیخ سنائی دی اور انہوں نے جلیل چچا کو بتایا کہ سیما زندہ ہے۔ بس میں یہ سنتے ہی بےتابی سے درخت سے نیچے اتر آیا۔ مجھے سلامت دیکھ کر جلیل چچا بے اختیار مجھے گلے لگا کر رونے لگے مگر میں نے ان کا ہاتھ جھٹک کر اپنے آپ چھڑوایا اور منی سے لپٹ کر چیخ چیخ کر رونے لگا۔
چچی نے لپک کر میرے منہ پہ ہاتھ رکھ دیا اور کہا ”نہ نہ ظفر بچہ!!! ابھی خطرہ ٹلا نہیں۔“ چچی نے اپنے ساتھ لائی چادر سے اماں کو ڈھانپ دیا اور جلیل چچا نے زخمی سیما کو احتیاط سے گود میں لیا اور چچی نے میرا ہاتھ پکڑا اور اندھیری گلی میں ادھر ادھر دیکھ کر کسی کے نہ ہونے کا اطمینان کرتے ہوئے جلدی سے اپنے گھر میں گھس گئیں۔
ہم دونوں بھائی بہن کو انہوں نے گھر کے پچھواڑے بنی اناج کی کوٹھری میں چھپا دیا۔ رات بھر دونوں میاں بیوی باری باری چکر لگاتے رہے۔ تین دن ہم لوگ انہیں کے گھر چھپے رہے۔ میرا ذہن ماؤف تھا اور مجھے چپ لگ گئی تھی۔ سیما بہت بہتر تھی مگر اسے ابھی بھی بخار تھا۔ اس کے دائیں شانے پر کلہاڑی کا گہرا گھاؤ لگا تھا مگر اصل وار اماں نے اپنی جان پر جھیلا تھا۔ سیما اماں کے نیچے دب گئی تھی اور بلوائیوں نے اسے مردہ سمجھ کر چھوڑ دیا۔ جلیل چچا نے بتایا کہ بڑی آپا نے کنویں میں کود کر اپنی جان دے دی اور چھوٹی آپا۔۔۔۔۔۔
چھوٹی آپا کو بلوائی مال غنیمت جان کر اپنے ساتھ اٹھا لے گئے۔
چوتھے دن صبح صبح پاکستان آرمی آئی اور جلیل چچا نے کسی تدبیر سے ہمیں ان کے حوالے کیا۔ جانے اماں، ابا، اکبر بھیا اور بڑی آپا کی تدفین ہوئی کہ نہیں مگر میرے خوابوں میں وہ سب ہمیشہ بے گور و کفن ہی آتے ہیں۔ اللہ کرے کہ عرصے پہلے چھوٹی آپا مر چکی ہوں مگر یہ بھی سچ کہ ان کا خیال آتے ہی مجھے اپنی زندگی سے شدید نفرت ہو جاتی ہے۔
فوجی ہمیں چاٹگام لے آئے اور سر بہادر عبدالرب نشتر اسکول کے کیمپ میں بھرتی کرا گئے۔ یہیں ابا کے دوست ظہور چچا اور ان کی فیملی بھی پناہ گزین تھی۔ انہوں نے ہم دونوں بھائی بہن کو اپنے سایہء عافیت میں لے لیا۔ تین سال وہاں کیمپ میں رہنے کے بعد ہم سب مغربی پاکستان جو اب جانے کس بے ضمیر کی فراست سے
’نیا پاکستان‘ کہلانے لگا تھا، پہنچے۔
اورنگی میں ظہور چچا نے جھگی ڈالی اور زندگی لشٹم پشٹم شروع ہو گئی۔ سیما کے کندھے کا زخم بھر چکا تھا مگر گہرا نشان کندھے ہی پر نہیں بلکہ دل و دماغ پر بھی ثبت تھا۔
مغربی پاکستان پہنچ کر سکون سے بیٹھنے بھی نہ پائے تھے کہ ضیاء کا دورِ سیاہ ملک کو نگل گیا اور لگ بھگ ایک
دہائی سے زیادہ حکومت کے نشے میں سرشار رہتے ہوئے اس نے جی بھر کے مذہب اور شخصی آزادی کو مسخ کیا۔
میرا تو لڑکپن سے بڑھاپا آ گیا مگر پاکستان کبھی مشکلات سے نکلا ہی نہیں ، وجہ بڑی سادہ تھی ’لیڈروں کی بد نیتی اور عوام کی بے شعوری‘ یہ دو عوامل پاکستان کی جڑوں میں بیٹھ گئے ہیں اور اب شاید نجات ممکن ہی نہیں۔۔۔
میں نے مشقت بھری زندگی گزاری، پتھر ڈھونے سے لے کر کلرک اور پھر اکاؤنٹ بننے تک ان تھک محنت شاقہ کا سفر ہے۔
بڑے ابا اور سیما پھوپھی کی شادی ظہور چچا کے بیٹا، بیٹی سے ہوئی اور میری ساس میرے شوہر انعام کی پیدائش پر زچگی کے دوران کسی پیچیدگی کے سبب جاں بر نہ ہو سکیں اور انعام کو بڑے ابا اور امی نے پالا۔
اب تو میں خود بڑھاپے کی دہلیز پر ہوں اور اب نہ تو امی رہیں اور نہ ہی انعام۔ انعام میری زندگی میں بہار کے جھونکے کی مانند آئے اور جب میرا اکلوتا بیٹا بلال بمشکل اٹھ سال کا تھا تو انعام جگر کے کینسر میں مبتلا ہو کر میری زندگی سے نکل گئے۔ ان کی بیماری کا پتہ ہی تب چلا جب وہ اسٹیج فور پر تھی ۔ حیرت انگیز بات یہ کہ انعام نے زندگی میں کبھی بھی پان ، سگریٹ یا چھالیہ کو منہ پر نہیں رکھا تھا مگر ہونی کو بھلا کون ٹال سکا ہے؟ بڑے ابا، امی اور میں، ہم تینوں مل کر بلال کو پالتے رہے۔ اب ناظم آباد کے گیارہ نمبر والے اس گھر میں تین نسل اکٹھی رہتی ہے، بڑے ابا میرے سسر یعنی ظفر ماموں، میں اور میرا اکلوتا بیٹا بلال۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شکر ہے ظہر سے پہلے پہلے بلال ، بڑے ابا کے ہمراہ گھر میں داخل ہوا۔ بڑے ابا کو دیکھتے ہی میں سمجھ گئی کہ آج پھر بڑے ابا اپنے آپ میں نہیں۔ وہ بہت تھکے ہوئے تھے سو جلدی ہی بے چین نیند سو گئے۔
میں نے بہت ہی کم بڑے ابا کو سکون کی نیند سوتے دیکھا ہے۔
ان کے کمرے کا دروازہ بھیڑ کر میں بلال کے پاس چلی آئی۔ بلال پہلے ہی بخار میں مبتلا تھا اب اس بھگدڑ نے اسے اور بھی نڈھال کر دیا۔ میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ اس نے محلے میں لوگوں سے بڑے ابا کے متعلق پوچھ گچھ کی تو مختار کریانے والے نے بتایا کہ اس نے بڑے ابا کو فائل سمیت مین روڈ کی طرف جاتے دیکھا تھا۔ بس یہ سن کر میرا کام آسان ہو گیا۔ میں سمجھ گیا کہ آج پھر بڑے ابا بھلیا کی دھند میں بھٹکتے پھریں گے۔ میں علاقے کے سارے اسکولوں کی خاک چھانتا رہا۔ گرلز اسکول کے چوکیدار نے تصدیق کی کہ اس وضع قطع کے بزرگ پرنسپل کے دفتر میں بیٹھے ہوئے ہیں۔
میں پرنسپل کے دفتر میں دستک دے کر داخل ہو گیا۔ وہاں بڑے ابا اور پرنسپل صاحب بڑے خوشگوار ماحول میں چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے گفتگو میں مشغول تھے۔ جہاں بڑے ابا مجھے دیکھ کر الجھ سے گئے وہیں پرنسپل کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔
میں نے کہا ”بڑے ابا گھر چلیں“
”آپ کون ہیں برخودار؟“ پرنسپل نے قدرے رکھائی سے پوچھا
”میں بلال احمد ، ان کا پوتا ہوں۔“ میں نے سنجیدگی سے ان کے آگے اپنی اور بڑے ابا کی آئی۔ ڈی کی فوٹو کاپی رکھتے ہوئے کہا
”مبارک ہو بلال میاں میں نے آپ کے دادا کو اپنے ٹیوشن سینٹر میں استاد اپائنٹ کر لیا ہے“
پرنسپل نے ہنستے ہوئے بڑے ابا کے ہاتھوں میں پکڑے خاکی لفافے کی طرف اشارہ کیا
”سر معذرت!! بڑے ابا یہ کام نہیں کر سکیں گے“ میں سنجیدگی سے پرنسپل صاحب کو جواب دیا
”کیوں میاں!! ظفر صاحب تو اس پوسٹ کے لیے صائب ترین آسامی ہیں“ پرنسپل صاحب نے نہایت حیرت سے پوچھا
بڑے ابا ہم دونوں کی گفتگو کو نہایت ہی لاتعلقی سے سن رہے تھے۔ میں بڑے ابا کی طرف مڑا اور ان سے پوچھا ”آپ مجھے پہچانتے ہیں؟“
بڑے ابا نے تذبذب سے جواب دیا ”آپ مانوس سے لگتے ہیں مگر یقین سے یاد نہیں آ رہا“
”آپ کی ابھی رہائش کہاں ہے ظفر صاحب؟“ میں نے بڑے ابا سے پوچھا
”ریلوے کالونی پاربتی پور کواٹر نمبر 49“ بڑے ابا نے بڑی شفتگی سے جواب دیا
پرنسپل صاحب کے چہرے سے حیرت و دکھ ہویدا تھا
”آئیں ظفر صاحب میں بھی ادھر، ریلوے کالونی ہی جا رہا ہوں، اکٹھے ہی چلتے ہیں“
بڑے ابا نے گرمی جوشی سے پرنسپل سے مصافحہ کیا اور خوشی خوشی میرے ساتھ ان کی آفس سے باہر نکل آئے
بڑے ابا اب اکثر و بیشتر حال سے کٹ کر ماضی میں جیتے ہیں، وہ دو ہزار بائیس کے کراچی میں نہیں بلکہ اپنی جنموبھومی پاربتی پور ہی میں بھٹکتے پھرتے ہیں۔۔۔