لاک ڈاؤن اور سندھ میں کالج ایجوکیشن کے مسائل

نیوز ڈیسک

سندھ میں کالجوں کے طلباء آن لائن تعلیم کے بارے میں حکومت کے رہنما اصولوں کے بغیر گھروں میں محصور ہیں اور محکمہ کالج ایجوکیشن، سندھ "میری بلا سے..” کہنے کے بعد  بلکل چپ سادھے ہوئے ہے. اس حوالے سے اس کا سارا انحصار پہلے لاک ڈاؤن کے دوران شروع کیے گئے برائے نام یوٹیوب چینل پر ہی ہے. لیکن ابھی تک سندھ کے کالج طلباء کے لئے آن لائن کلاسز کی ابتدا تو دور کی بات، کوئی واضح پالیسی تک نہیں بنائی جا سکی اور نہ ہی فاصلاتی تعلیم کے لئے کوئی ہدایات فراہم کی گئی ہیں۔ کووڈ-19 کی دوسری لہر کے دوران پاکستان بھر کے تعلیمی اداروں کو بند کرنے کے بعد سندھ میں نصف ملین سے زائد کالج طلباء کی تعلیم تعطل کا شکار ہوگئی ہے، کیوں کہ صوبائی حکومت کا آن لائن تعلیم کا کوئی واضح منصوبہ نظر نہیں آ رہا۔

وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے 23 نومبر کو بین الصوبائی وزرائے تعلیم کے اجلاس کے بعد گذشتہ ماہ 26 نومبر سے 24 دسمبر تک تمام تعلیمی اداروں کو بند رکھنے کا اعلان کیا تھا۔ جب کہ موسم سرما کی تعطیلات کا اعلان 25 دسمبر 2020 سے 10 جنوری 2021 تک کیا گیا تھا۔ چنانچہ سندھ نے بھی وفاقی حکومت کی تعمیل میں اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں کو بند کرنے کا اعلان کیا۔ اس کے بعد ، محکمہ اسکولس ایجوکیشن اینڈ لٹریسی ، سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان نے فاصلاتی تعلیم اور آن لائن کلاسوں کے لئے ہدایات جاری کیں تاکہ لاک ڈاؤن کے دوران تعلیمی سرگرمیاں جاری رہیں۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ سندھ کا کالج ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ اس کے بارے میں بھول گیا ہے۔  اس نے نہ تو کوئی رہنما اصول متعارف کرائے ہیں اور نہ ہی حال ہی میں داخل ہونیوالے طلبا کو اس بارے میں آگاہ کیا ہے کہ انہیں اپنی تعلیم کس طرح جاری رکھنی ہے۔ یہ ان حالات میں خاص طور پر ضروری ہے کہ وزیر تعلیم سندھ واضح طور پر یہ اعلان کر چکے ہیں کہ اس سال طلباء کو بغیر امتحانات کے اگلی کلاس میں پروموٹ نہیں کیا جائے گا. اس صورت حال میں کالجوں کے  طلبا خاص طور پر نئے طلباء غیر یقینی اور تذبذب کا شکار ہیں.

وفاق نے بھی بین الصوبائی اجلاس میں تعلیمی ادارے بند کرنے کا فیصلہ تو صادر کر دیا لیکن ان کی پالیسی بھی سادہ الفاظ میں یہی ہے کہ ہمارا کام بس یہیں تک تھا، آگے صوبے جانے اور صوبوں کا کام!

دوسری جانب اساتذہ بھی جاری تعلیمی سال کے نصاب کی تکمیل کے حوالے سے گومگو کی کیفیت سے دوچار ہیں. آنلائن کلاسز کا محض اعلان کر لینے سے بھی کچھ نہیں ہوگا. اس معاملے میں کالجوں میں وسائل کی شدید کمی ایک الگ مسئلہ ہے. لگ بھگ تمام سرکاری تعلیمی اداروں میں آن لائن تعلیم کے لئے وسائل نہیں ہیں۔ فنڈز کی کمی اور وسائل کی عدم دستیابی کی صورت میں آن لائن تعلیم کا سلسلہ شروع ہوتے ہوئے نظر نہیں آتا.

محکمہ کالج ایجوکیشن نے سندھ میں پہلے لاک ڈاؤن کے دوران یوٹیوب چینل تیار کرنے کی کوشش کی ، لیکن یہ اقدام ناکام رہا۔ یوٹیوب چینل پر اپ لوڈ کردہ لیکچر بغیر کسی ترتیب کے تھے، لہٰذا طلبہ کے لئے لیکچر ڈھونڈنا مشکل تھا۔ اساتذہ کو لیکچر ریکارڈ کرنے کی بھی تربیت نہیں دی گئی تھی اور نہ ہی انہیں وسائل مہیا کیے گئے تھے۔ بہت سے طلبا کو انٹرنیٹ کی سہولت نہیں ہے۔ کچھ معاملات میں ، والدین اپنے بچوں کو انٹرنیٹ، اسمارٹ فونز اور کمپیوٹرز استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتے ہیں۔ اگر دیگر تمام رکاوٹیں دور کر بھی دی جائیں تو ، مسئلہ یہ ہے کہ آن لائن تدریس مختلف طلبہ کے مطالبات، رجحانات اور ضروریات پر پورا نہیں اترتی کیونکہ ہر طالب علموں شخصی اختلافات Individual Differences ہوتے ہیں اور ان کی ذہنی اور تفہیم کی ایک الگ سطح ہوتی ہے، ان ساری چیزوں کو رکارڈ کیے گئے وڈیو لیکچر میں ایڈریس کرنا ممکن نہیں ہوتا

ان مسائل کے بارے میں جب محکمہ کے عہدیداروں سے رابطہ کرکے ان کا موقف جاننے کی کوشش کی گئی تو میڈیا کوآرڈینیٹر جیسے متعلقہ عہدیدار اس بارے میں کوئی تبصرہ کرنے کو تیار نہیں تھے۔ تاہم ریجنل ڈائریکٹوریٹ آف کالجز ، کراچی میں کام کرنے والے ایک سینئر افسر نے اس کا جواب دیا۔ افسر نے بتایا کہ جونیئر عملے کو آن لائن سیکھنے کے لئے یوٹیوب چینل چلانے کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ انہوں نے اتفاق کیا کہ اس طرح کے نامکمل اقدامات نصف ملین طلبہ کی مشکلات کو دور کرنے اور موجودہ وبائی امراض میں ان کے تعلیمی نقصانات کو کم کرنے کے لئے کافی نہیں تھے۔

دوسری جانب لاک ڈاؤن میں تعلیمی ادارے بند رہنے اور تعلیم کے لیے وقت کی کمی کے باعث نصاب کی تکمیل کے مسئلے کے پیش نظر سندھ کے محکمہ کالجز ایجوکیشن نے سمارٹ سلیبس کے اجراء کا "جان چھڑاؤ” قسم کا ایک اقدام تو  کیا لیکن وہ اس سلسلے میں یہ بھول گئے کہ مختلف بورڈز میں اکثر مضامین خاص طور پر آرٹس کے مضامین واضح طور پر مختلف ہیں. اکثر مضامین تو جاری شدہ سمارٹ سیلیبس میں شامل ہی نہیں کیے گئے، تو ان مضامین کے اساتذہ کیا کریں؟ سچ پوچھیے تو یہ ایک دن کا کام ہے، جسے اتنا گھمبیر بنایا گیا ہے، جیسے بورڈز کو آسمان سے تارے توڑ کر لانے کا ٹاسک دیا گیا ہے.

بورڈز تمام مضامین، چاہے آرٹس کے ہی ہوں، کے الحاق کے لیے کالجوں سے بھاری فیس وصول کرتے ہیں، تو ان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان تمام مضامین کے سمارٹ سیلبس کے بارے میں واضح ہدایات  جاری کریں. بورڈز کے پاس ہر سبجیکٹ کا پراسپیکٹس موجود ہے. وہ اسے سامنے رکھ کر صرف ایک دن میں ان کا سمارٹ سیلبس تیار کر سکتے ہیں، لیکن کرے کون…. صرف لیٹرز ہی اشو کرنے ہیں! خدارا، اساتذہ اور طلباء پر رحم کریں اور ہر بورڈ تمام مضامین (سائنس، آرٹس اور کامرس کے تمام لازمی اور اختیاری مضامین) کا سیلبس تیار کر کے کالجوں کو جاری کریں، تاکہ جب فزیکل یا آن لائن تعلیمی عمل شروع ہو، تو کم از کم یہ تو واضح ہو کہ کیا پڑھانا ہے اور کیا نہیں. یہ بھی ضروری ہے کہ اس سمارٹ سیلبس کی ایک کاپی امتحانی پیپرز بنانے کے عمل کے وقت پیپر بنانے والے اساتذہ کو بھی جاری کی جائے، تاکہ پیپرز اسی سمارٹ سیلبس سے تیار کیے جائیں.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close