اک آسماں تمہارا، اک آسمان میرا (سندھی ادب سے منتخب تجریدی افسانہ)

مجیب بڑدی (ترجمہ: امر گل)

پمی! تم میری سوچوں میں بنائی گئی وہ پہلی تصویر ہو، جسے میں ابھی تک مکمل نہیں کر سکا۔ کیا انسان اپنی پہلی محبت کی تصویر مکمل کر سکتا ہے؟ میں نہیں جانتا۔۔۔ میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ میں اب بھی تمہاری تصویر مکمل کرنے میں مشغول ہوں۔ میں آج بھی تمہاری یہ تصویر اپنے تصور میں مکمل نہیں کر سکا۔ شاید میرے شعور میں اس کا عکس ہی ادھورا ہے۔

مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں نے تمہاری تصویر کب بنانی شروع کی تھی۔ شاید اُس وقت سے، جب مجھے رنگوں کی پہچان بھی نہ تھی۔۔ شاید اُس وقت سے، جب رنگ نہیں تھے۔۔ تب ہر چیز رنگوں کے بغیر تھی۔۔۔ اور ہاں! اس زمانے میں مادے میں ٹھوس پن بھی نہیں تھا، تب ہر جسم بے وزن تھا، تب صرف زاویے تھے، صرف لکیریں تھیں۔

تب ایک بار تم نے کہا تھا کہ خالی پن میں کس قدر خوبصورتی ہے!

میں اپنے اردگرد لکیروں سے بنے خالی جسموں اور وجودوں کو کچھ مدت تک گھورتا رہا تھا۔ میں نے چاہا تھا کہ میں ان لکیروں سے بننے والے تمام خالی جسموں میں سما جاؤں اور تم اپنی آنکھیں بن جاؤ۔۔ وہ خالی پن، وہ خلا، آج بھی جوں کا توں برقرار ہے۔

تب خواہشات بھی لکیروں سے بنی ہوئی تھیں۔ میں نے تمہارے لیے خواہش کا گلاب توڑا تھا، جو میں تمہیں کبھی دے نہ سکا۔ تمہیں شاید یاد بھی نہ ہوگا لیکن تم ہر روز میرے ہاتھوں میں ان لکیروں سے بنے آرزو کے گلاب کو دیکھتی تھیں اور پھر کائنات کی نہ جانے کس جہت میں کھو جاتی تھیں۔ مجھ سے ہزاروں نوری سال دور چلی جاتی تھیں۔۔ میں اپنے سامنے بیٹھے تمہارے وجود میں داخل ہو کر صدیوں تک تمہیں ڈھونڈتا رہتا تھا، مگر تم نہیں ملتی تھیں۔۔ پھر نہ جانے کس لمحے تم خود ہی لوٹ آتی تھیں، تمہیں اپنے سامنے دیکھ دیکھ کر میرا متلاشی دل مہک جاتا تھا۔ کاش۔۔ کہ اس وقت اگر ”وقت“ ہوتا تو میں تمہاری تلاش کی ان تمام ساعتوں کو سمیٹ لیتا! لیکن تب وقت بھی ابھی وجود میں نہیں آیا تھا۔

آخر ایک دن تم نے میرے ہاتھ سے وہ گلاب لے لیا تھا۔ بس چند لمحوں کے لیے۔۔۔ اور پھر وہ واپس لوٹا دیا تھا۔ تمہیں معلوم ہے! اس دن سے لے کر آج تک گلاب میں خوشبو ہے۔ ہاں! یہ لکیروں سے بنی میری اس خواہش کی خوشبو ہے، جو تمہارے لمس سے پیدا ہوئی تھی۔ تم نے میری پہلی خواہش کو چھو کر اسے لافانی خوشبو دی، لیکن واپس لوٹا کر ہمیشہ کے لیے اسے ادھورا بنا دیا۔ شاید تب سے اب تک تمام خواہشات ادھوری رہتی آئی ہیں۔ تکمیل کے باوجود نامکمل۔۔۔ مکمل ہوتے ہوئے بھی گویا سب کچھ آدھا ادھورا۔۔۔ خالی خالی۔۔۔۔ یوں بھی خالی پن تو تمہیں ازل سے پسند تھا۔ تم ہر چیز میں خالی پن دیکھنے کی عادی تھیں…خواہشوں میں بھی!

تب ایک بار تم نے میرا ہاتھ پکڑ کر نہ جانے کس سمت میں لے جانا چاہا تھا اور میں بنا کچھ کہے تمہارے پیچھے چل پڑا تھا۔ ہم ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر چل رہے تھے۔ زمان اور مکان سے بے خبر، میرے لیے بس یہی کافی تھا کہ میرا ہاتھ تمہارے ہاتھ میں ہے۔ کافی دیر اکٹھے چلنے کے بعد تم نے کہا تھا، ”تم جانتے ہو! ہم کہاں جا رہے ہیں؟“ لیکن اس وقت، ابھی تک کوئی سمت مقرر نہیں ہوئی تھی۔ کوئی پھیلاؤ وجود میں نہیں آیا تھا۔ کوئی عرض البلد یا طول البلد قائم نہیں کیا گیا تھا، اس لیے میں کوئی جواب نہیں دے سکا تھا۔ اس دن، تم نے مجھے اطراف کے بارے میں بتایا تھا۔ اسی دن وقت کے پھیلاؤ کا آغاز ہوا تھا۔ تم نے سب کچھ بتایا مگر اس جگہ کے بارے میں نہیں بتایا، جس طرف تم مجھے لے جانا چاہ رہی تھیں۔ کافی فاصلہ طے کرنے کے بعد جب مجھے لگا کہ ہم منزل کے قریب ہیں تو تم نے سفر ملتوی کر دیا تھا! ہم واپس لوٹ آئے تھے۔ اس دن مجھے پہلی بار معلوم ہوا تھا کہ تمہیں صرف خالی پن ہی نہیں بلکہ ادھوری چیزیں بھی پسند ہیں۔ میرے، سفر ملتوی کرنے کی وجہ پوچھنے پر تم نے کہا تھا، ”ادھوری چیزیں زیادہ خوبصورت ہوتی ہیں۔“

شاید تب سے لے کر ہی ہر سفر ادھورا رہ جاتا ہے۔۔

پگلی! تمہیں کیا معلوم کہ مجھے تم سے کیسی انسیت ہے؟ تمہیں کیا پتا کہ میں ابھی تک اس جگہ کی تلاش میں ہوں، جہاں تم مجھے لے کر جانا چاہ رہی تھیں۔ میں اب بھی اطراف بدل بدل کر اس منزل کی تلاش میں ہوں، جو شاید سرے سے ہے ہی نہیں۔۔۔ ابھی تک میں صرف اتنا ہی سمجھ پایا ہوں کہ تمہارے اس کثیرالجہتی خزانے کے کسی رخ کی کوئی حد ہے ہی نہیں۔ ہر سُو ایک جیسا ہے۔ منزل تو بس وہی ہے، جہاں ہم ہیں۔ تمہاری خوبصورتی کا قد وقت کی وسعت سے زیادہ ہے۔ میں ابھی تک تمہاری ان وسعتوں میں پھیلتا جا رہا ہوں۔ شاید کہیں نہ کہیں وہ حد مل جائے، جہاں تم نے مجھے لے جانا چاہا تھا۔ بھلے میں وہاں نہ پہنچ سکوں، بھلے ہی میرا ہر سفر ادھورا ہو، بھلے سے تمہاری رضا غالب رہے، لیکن پھر بھی میں اپنا سفر ملتوی نہیں کروں گا۔۔۔ میں نا امید نہیں ہوں۔ اُس وقت سے، نامکمل چیزوں میں خوبصورتی کو دیکھنے والی تمہاری نظر، میری آنکھوں میں اتر آئی ہے۔

تب بھی تمہارے رویے میں وہی غیر یکسانیت تھی۔ تب بھی تم اپنے تمام تر رویوں کے ساتھ مسلسل تبدیلی کے مراحل سے گزرتی تھیں۔ تبھی ایک دن تم نے اچانک ہر شے ختم کر دی۔ تب ایک بار، اُس سفر کے ملتوی ہونے کے کچھ صدیوں بعد، یہ کہہ کر کہ ’میں آتی ہوں…‘ تم چلی گئی تھیں اور کبھی واپس نہیں آئیں… لیکن تمہیں کیا معلوم، تب تک تم ساری کی ساری میری آنکھوں میں اتر چکی تھیں۔ میں آج تک دیکھ رہا ہوں کہ تم مسلسل تبدیلی کے مراحل سے گزر رہی ہو۔ تب سے انتظار ’ساعتیں‘ بن کر، اُس منزل کی تلاش کے سفر میں، جہاں تم مجھے ساتھ لے جانا چاہتی تھیں، میرے ساتھ چل رہا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جب وہ منزل مل جائے گی، تو وہاں تم بھی مل جاؤ گی۔

ہاں، مجھے یاد آتا ہے، ہم آنکھ مچولی بھی کھیلا کرتے تھے۔ تم مجھے ڈھونڈتی تھیں، میں تمہیں تلاش کرتا تھا.. لکیروں سے بنے خالی جسموں اور وجودوں کے پیچھے چھپے تم اور میں، جلد ہی ایک دوسرے کو پا لیتے تھے۔۔ پتا ہے، اس کے باوجود میں تمہیں ڈھونڈنے میں بہت وقت لگا دیتا تھا۔ مجھے تمہاری تلاش میں مزہ آتا تھا۔ پھر تمہیں شاید اس بات کا احساس ہو گیا۔ تم نہ جانے کہاں سے ڈھیر سارے رنگ لے کر آ گئی تھیں، اور مجھ سے کہا تھا، "آؤ مل کر لکیروں سے بنے جسموں اور وجودوں کے خانوں میں رنگ بھریں۔“

تم نے مسکرا دی تھیں، اور کہا تھا ”کیا تم سمجھتے ہو۔۔ کہ رنگ بھرنے سے خلا پُر ہو جائے گا؟“

میں نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ تم نے مجھے رنگ تھمائے اور ہم لکیروں کے اندر رنگ بھرنے لگے۔ تم نے صحیح کہا تھا. رنگ بھرنے کے بعد بھی خالی پن اپنی جگہ موجود رہا۔ رنگ بھرنے کے بعد بھی سب کچھ ادھورا رہا۔ تمہارا تو نہیں پتا، لیکن میں نے پوری کوشش کی کہ ہر چیز کو رنگوں سے بھر کر مکمل کر دوں، لیکن میں کوئی خلا پُر نہیں کر سکا اور نہ ہی کسی چیز کی تکمیل کر سکا تھا۔ تم نے میری طرف دیکھ کر مسکرا دیا تھا، گویا کہہ رہی ہو: ’کچھ بھی مکمل نہیں ہونا۔۔ کوئی تبدیلی نہیں آنی۔۔۔ جیسا ہے، ویسا ہی رہے گا۔۔ ہمیشہ ہمیشہ!‘

رنگ لگاتے لگاتے رات ہو گئی، ہم تھک کر سو گئے تھے۔ ایک ساتھ لیٹے ہوئے۔ اوپر کھلا آسمان۔۔ چمکتے ستارے۔۔۔ تمہارے دل میں جانے کیا سمائی، کہ تم نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا تھا، ”تمہیں کیا دکھائی دے رہا ہے؟“

میں نے کہا، ”ستاروں سے بھرا ایک خوبصورت آسمان۔“

تم نے کہا، ”میری نظر میں یہ ایک خالی، ادھورا، سرد، بے نور، بے رنگ وجود ہے۔“

کافی دیر تک خاموشی رہی، پھر تم نے کہا تھا، ”کیا ہم آسمان آپس میں بانٹ لیں؟ اک آسماں تمہارا، اک آسمان میرا؟“

میں نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ کچھ سمجھ ہی نہیں پایا تھا میں۔۔ پھر نجانے ہم کب نیند میں چلے گئے تھے۔ صبح جب ہم بیدار ہوئے تو ہم نے دیکھا کہ تمہارے لگائے گئے سارے رنگ بہت صاف، نکھرے اور واضح تھے، جبکہ میں نے جو رنگ لگائے تھے، وہ پھیکے اور دھندلے تھے۔ اس وقت میں نے پہلی بار حقیقت اور گمان کے فرق کو سمجھا تھا۔ میں نے تم سے پوچھا تھا، ”رنگ تو سب ایک جیسے تھے۔۔ تو یہ فرق کیوں؟“

تم نے کہا تھا، ”رنگ تو وہی ہے لیکن نظر بدل گئی ہے۔ آسمان الگ الگ ہو گیا ہے۔“

میں اس بات پر سوچنے لگا تھا۔ یہ میری سوچ کا آغاز تھا۔ تم اداس ہو گئی تھیں۔ اس وقت مجھے تمہاری یہ اداسی سمجھ نہیں آئی تھی۔ مجھے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ جب میں سوچنے لگوں گا، تو تم یہ کہہ کر، کہ میں آتی ہوں، چلی جاؤ گی اور پھر کبھی نہیں لوٹو گی۔

اس شام تم نے میری آنکھوں میں گھور کر دیکھتے ہوئے کہا تھا ”تمہیں کیا دکھائی دے رہا ہے؟“

میں نے دیکھا، میرے لگائے گئے سارے رنگوں کا عکس تمہاری آنکھوں میں جھلک رہا تھا۔ میں نے تم سے کہا، ”میرے لگائے گئے سارے رنگ تمہاری آنکھوں میں ہیں۔“

اس پر تم نے کہا تھا، "اور تم جانتے ہو! میرے لگائے گئے سارے رنگوں کا عکس تمہاری آنکھوں میں ہے۔۔“

وہ آخری ملاقات تھی۔ ہم کئی صدیوں تک ایسے ہی ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے تھے۔ آنکھوں میں کھوئی آنکھیں۔۔۔ ہمیں احساس ہی نہ ہوا کہ ہماری آنکھوں میں نظر آنے والے ایک دوسرے کے رنگ ایک دوسرے میں گھل مل گئے تھے۔

پمی! آج تم نہیں ہو۔ یہ کہتے ہوئے کہ ’میں آتی ہوں۔۔‘ تم نہیں آئِیں۔۔ اگر مجھے معلوم ہوتا تو میں تمہیں کبھی جانے نہ دیتا۔ اب انتظار، آسمان بن کر تمہاری تلاش کے سفر میں میرے ساتھ چل رہا ہے۔ کہاں ہو تم۔۔۔ کہاں ہو؟؟

آج میرے پاس تمہاری یادوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ تمہارے جانے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ تم میری یادداشت میں اپنی یادوں کے رنگ چھوڑ گئی ہو۔ آج اگر یہ رنگ نہ ہوتے تو میں کچھ بھی کرنے کے قابل نہ ہوتا۔ ان رنگوں کے بغیر، میری زندگی تو محض بے ترتیب حرکتوں کا مجموعہ ہوتی۔۔ پھر نہ تم ہوتیں، نہ ہی میں!

آج میں تمہاری یادوں کے رنگوں کو استعمال کرتے ہوئے تمہاری تصویر بنا رہا ہوں.. لیکن لگتا ہے کہ میں اسے کبھی مکمل نہیں کر پاؤں گا۔۔ شاید اس لیے کہ تم مسلسل تبدیلی کے ارتقائی مراحل سے گزر رہی ہو۔۔ یا شاید اس لیے کہ میرا آسمان ہی مختلف ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close