’محور‘ سے ’محاورہ‘ اور پھر ’حُور‘ کیسے بنی؟

عبدالخالق بٹ

صلیب و دار کے قصے رقم ہوتے ہی رہتے ہیں،
قلم کی جنبشوں پر سر قلم ہوتے ہی رہتے ہیں۔۔

شعر مقبولِ خاص شاعر عزیز حامد مدنی کا ہے، غالب نے جس لغزش قلم پر ہاتھ قلم ہونے کی دُہائی دی تھی، مدنی صاحب نے اُسی جُرمِ قلم پر سرقلم ہونے کا مژدہ سنا ہے

خیر خاص شاعر کے اس شعر میں ہماری دلچسپی لفظ ’صَلِیب‘ سے ہے

صَلِیب و مَصلُوب عربی کی رعایت سے اردو میں عام استعمال ہونے والے الفاظ ہیں۔ اس حوالے سے عثمان جامعی کا بمعنی شعر ہے:
مسیحا کرکے سمجھوتے صلیبوں سے اُتر آئے،
ہمیں مصلوب ہوتے بس حواری ہی نظر آئے۔۔

اس سے پہلے کہ ’حواری‘ کے لفظی معنی سے بحث کریں، یہ جان لیں کہ بظاہر عربی نظر آنے والا ’صَلِیب‘ اصلاً معرب لفظ ہے، اور اس ’صَلِیب‘ کی جڑ فارسی کے ’چلیپ‘ میں پیوست ہے

ہر دو لکڑیاں یا لکیریں جو ایک دوسرے کو کاٹتی ہوں ’چلیپ‘ یا ’چلیپا‘ کہلاتی ہیں۔ چونکہ کاٹنے کی اس عمل میں کسی قدر ترچھا پن بھی شامل ہوتا ہے، سو اس رعایت سے ایک خاص طرز کا خط جو ترچھا لکھا جاتا ہے، ’خطِ چلیپا‘ کہلاتا ہے۔ فارسی میں مجازاً زلف یار کو بھی ’چلیپا‘ کہتے ہیں

یقین نہ آئے تو ریاست علی تاج کا شعر ملاحظہ کریں:
زندگی ہے کہ بلاتی ہے تقاضوں کی طرف،
دل گرفتارِ خم زلفِ چلیپائی ہے۔۔

ممکن ہے کہ ’چلیپ‘ کا ’صلیب‘ بننا کچھ لوگوں کے لیے معمہ ہو، مگر جو لوگ اس راز سے واقف ہیں کہ حروف اپنے قریب المخرج حروف سے بدل جاتے ہیں، ان کے لیے ’چلیپ‘ کا ’صلیب‘ ہوجانا کوئی اچنبہ نہیں ہے

آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس چہار حرفی ’چلیپ‘ کا اول و آخر حرف بالترتیب ’ص‘ اور ’ب‘ سے بدل گیا ہے، وجہ یہ ہے کہ عربی میں ’چ‘ اور ’پ‘ یہ دونوں حروف نہیں ہیں، اس لیے بیشتر مواقع پر ’چ‘ حرف ’ص‘ سے بدل جاتا ہے، مثلاً ہم جسے ملک چین کے نام سے جانتے ہیں، اہل عرب اُس کو ’صین‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔ پھر اس ’صین‘ کو آپ عربی کے مشہور مقولے میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ جس میں تحصیل علم کی ترغیب ان الفاظ میں دلائی گئی ہے:
اطلبوا العلم ولو في الصين۔
یعنی علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین جانا پڑے

ایسے ہی حرف ’پ‘ کا معاملہ ہے، جو عربی میں ’ب‘ ہوجاتا ہے، یہی وجہ کہ اہل عرب ملک پرتگال کو ’برتغال‘، پارلیمنٹ کو ’بَرْلَمان‘ اور پاکستان کو ’باکستان‘ کہتے ہیں

اب کچھ ذکر ’حواری‘ کا ہو جائے جو معنوی اعتبار سے لفظ ’حُور‘ کا رشتے دار ہے۔ اردو میں بے جا طرفدار کے معنی میں استعمال ہونے والا ’حواری‘ اصطلاح میں جناب عیسیٰ علیہ السلام کے انصار کا لقب ہے

لفظ حور و حواری ہو یا محور و محاورہ، یہ سب ایک ہی شاخ کے برگ و بار ہیں۔ ان الفاظ کا باہم کیا تعلق ہے، یہ جاننے سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ ان تمام الفاظ کا مادہ ’اَلحَوْرُ‘ ہے

عربی زبان کے بڑے عالم علامہ راغب اصفہانی کے مطابق ’اَلحَوْر‘ کے اصل معنیٰ پلٹنے کے ہیں خواہ وہ پلٹنا بلحاظ ذات ہو یا بلحاظ فکر ہو۔ اب ’حور‘ بمعنی پلٹنا کو چند مثالوں سے سمجھیں۔
علامہ اقبال نے کہا تھا:
’مرکے جی اٹھنا فقط آزاد بندوں کا ہے کام‘
چونکہ گھومنے میں پلٹ کر آنے کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے، سو اس رعایت سے پانی کا حوض میں گھومنا ’حَارَ الْمَاءُ فِی الْغَدِیْز‘ کہلاتا ہے

اب اس پلٹنے اور گھومنے کو ذہن میں رکھیں اور لفظ ’محور‘ پر غور کریں۔ آپ باآسانی اس لفظ کی اصل تک پہنچ جائیں گے

دراصل عربی میں ’محور‘ اُس لکڑی کو کہتے ہیں، جس پر چرخی گھومتی ہے، پھر اس رعایت سے اُس فرضی خط کو بھی ’محور‘ کہا جاتا ہے، جس پر کوئی جرم فلکی گردش کرے

اس سے قبل کہ آگے بڑھیں محور کی رعایت سے ’محور سرسوی‘ کا شعر ملاحظہ کریں:
مرے عروج کا محور ہے سادگی میری،
وہ اس لیے تو مری سادگی سے جلتے ہیں۔۔

اسی ’محور‘ سے لفظ ’محاورہ‘ بھی ہے، وہ یوں کہ گھومنے اور چکر لگانے کی رعایت سے عربی میں ایک دوسرے کی طرف کلام لوٹانا ’اَلْمَحَاوَرَۃُ والحِوارُ‘ کہلاتا ہے، پھر اس نسبت سے تبادلہ خیال کو ’تَحَاوُرٌ‘ کہا جاتا ہے

’محور و محاورہ‘ تک بات صاف ہوجانے کے بعد اب سوال یہ ہے کہ اس گھومنے گھمانے سے ’حُور و حواری‘ کا کیا تعلق ہے؟ عرض ہے کہ عربی میں کسی چیز کا گھمانا ’حَوَّرْتُ الشَّیْءٌَ‘ کہلاتا ہے۔ چوں کہ دُھلائی کرتے ہوئے کپڑوں کو خوب گُھما گُھما کر پٹخا جاتا ہے تاکہ وہ اُجلے یا سفید ہوجائیں، سو اس سفید ہونے کی رعایت سے صفت ’حُور‘ پیدا ہوئی، جس کے معنی میں آنکھ کی سیاہی میں تھوڑی سی سفیدی ہونے کے ہیں، عرب میں یہ آنکھ کا انتہائی حُسن سمجھا جاتا ہے

پھر اس سفیدی کا مفہوم لفظ ’حواری‘ میں بھی پوشیدہ ہے، جس طرح اردو میں دھوبی کو کپڑے دھونے اور دھو کر اُجلے کردینے کی نسبت سے ’اُجلا‘ کہا جاتا ہے، ایسے ہی کپڑوں کو سفیدی بخشنے کی رعایت سے عربی میں دھوبی کو ’حواری‘ کہا گیا

’حواری‘ کے باب میں اہل علم کی ایک رائے یہ بھی کہ انصارانِ عیسیٰ علیہ السلام لوگوں کو علمی اور دینی فائدہ پہنچا کر گناہوں کی میل سے پاک کرتے تھے، اس بنا پر انہیں تمثیلاً ’حواری‘ کہا گیا

اب لفظ ’حواری‘ کی رعایت سے جعفر طاہر کا بمعنی شعر ملاحظہ کریں:
دونوں ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے بھاری پتھر،
مارنے آئے ہیں عیسیٰ کو حواری پتھر۔۔

بشکریہ: اردو نیوز

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close