یوکرین میں روسی مداخلت سے دنیا کی توجہ ایک اہم نکتے کی طرف مبذول ہوئی۔۔ اور وہ تھی: کریملن کے کالے دھن کو سفید کرنے میں برطانیہ کا کردار
یہ ایک ایسا مسئلہ ہے اور اس نے ایک جارحانہ آمریت کی مالی معاونت کی ہے جس نے ہزاروں لوگوں کو قتل اور لاکھوں کو بے گھر کیا اور یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ اس نظام کے ذریعے نہ صرف روسی باشندے بلکہ دنیا بھر کے بعض امیر ترین اور جرائم پیشہ لوگ منی لانڈرنگ کے مرتکب ہوتے ہیں اور یہ رقوم بہت بڑی ہوتی ہیں
ہر سال ترقی پذیر ملکوں سے ایک ٹریلین ڈالر (جی ہاں! دس کھرب یعنی ایک ہزار ارب ڈالر) چرائے جاتے ہیں اور اس میں سے ایک بڑی رقم لندن یا اس کی سیٹلائٹ ٹیکس ہیونز (ٹیکسوں میں چھوٹ والے مقامات) کے ذریعے منتقل کی جاتی ہے
اسے ’آف شور منی لانڈرنگ‘ کہا جاتا ہے، اگرچہ سننے میں یہ مشکل لگتا لیکن بنیادی سطح پر یہ ایک سادہ خیال پر مبنی ہے۔ اسے معاشی سرگرمیوں کے مرکز ’دی سٹی آف لندن‘ نے ایجاد کیا، جو نیویارک کی وال اسٹریٹ کے برابر ہے
یہ تاریخ میں برطانیہ کی سب سے اہم ’ایجادات‘ میں سے ہے۔ آف شور کے تصور کے بغیر آج کی دنیا کچھ الگ ہو سکتی تھی
غلطیاں دہرانے سے بچنے کا طریقہ
سنہ 1944ع میں اتحادی فتح کے قریب تھے اور جنگ کے بعد کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ وہ ایک بہتر عالمی مالیاتی نظام بنانا چاہتے تھے تاکہ دوبارہ 1930ع کی دہائی کے معاشی بحران اور دوسری عالمی جنگ کی تباہی جیسی صورتحال سے محفوظ رہا جا سکے
اس نظام کو اُس چھوٹے امریکی کمپلیکس کا نام دیا گیا، جہاں اس پر مذاکرات ہوئے تھے: بریٹن ووڈز
برکلی میں یونیورسٹی آف کلیفورنیا کی مورخ ونیسا اوگل بتاتی ہیں ”اس نظام میں سرحد پار رقم کی منتقلی کے اصول طے کیے گئے۔۔ باہر سے یا اندر سے رقم کی کوئی بڑی منتقلی سے عدم استحکام پیدا ہوسکتا تھا۔ ایسا جنگوں کے دوران بھی ہو چکا تھا۔ اس کا مطلب تھا بہت بڑی رقوم کی ادائیگی یا وصولی کو روکا جائے تاکہ ملک اپنی کرنسی میں استحکام پیدا کرسکے اور اپنی معیشت کو محفوظ کر سکے“
برطانوی بینکرز نے ایسے محفوظ مالیاتی نظام کو تسلیم کیا جس میں ہاتھ بندھے رہتے ہیں۔ اس طرح دنیا کی تعمیر نو کا کام کیا گیا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ سٹی آف لندن کا کردار چھپ گیا تھا
دس سال بعد۔۔۔
تاہم دی سٹی کو وہ دن یاد تھے جب یہ بڑی سلطنت کا دل ہوا کرتا تھا۔ 1950ع کی دہائی کے وسط کے بعد بینکرز پریشان ہونے لگے۔ ایک معروف بینکر کا کہنا تھا کہ ’یہ ایسا ہے جیسے کسی تیز رفتار کار کو 20 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار پر چلایا جائے۔‘
اوگل نے کہا ’چیزیں بہتر ہونے لگیں۔ جرمن معیشت کی بحالی اور پیداوار کی علامات ظاہر ہوئیں۔‘
’بینکرز ان اقدامات سے پریشان تھے اور انھوں نے ایسی کوششیں شروع کر دیں جس میں بریڈن ووڈز کے اصولوں کی پامالی نہ کی جائے مگر اس کے ساتھ قانونی طریقے سے کام بھی جاری رہے۔‘
ایک چھوٹا سا بینک
سٹی کے کئی بینکوں میں سے ایک مڈلینڈ تھا جو چھوٹا ہونے کے باوجود آگے نکلنا چاہتا تھا تاہم اصولوں کے تحت بینک صارفین حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے سے مقابلہ نہیں کر سکتے تھے
مڈلینڈ بینک کو مزید پیسہ درکار تھا۔ سنہ 1955ع میں اسے بہترین خیال آیا کہ قریب ہی ایک ایسا بینک بھی ہے جس کے مسائل اس سے الٹ ہیں۔ سوویت یونین کے سرکاری بینک ماسکو ناروڈنی کی تجوری ڈالروں سے بھری پڑی تھی
اوگل بتاتی ہیں ’انھیں ڈر تھا کہ امریکہ منتقل کیے جانے پر ان پیسوں کو ضبط کر لیا جائے گا۔ یہ سرد جنگ کا دور تھا اسی لیے (روسی بینک کے) پیسے لندن میں پڑے تھے‘
تو اس طرح ایک بینک کے پاس بہت زیادہ پیسہ تھا اور دوسرے کے پاس کوئی پیسہ نہیں تھا۔۔۔ بس انہیں نگراں اصولوں میں سے کوئی راستہ نکالنا تھا
مڈلینڈ میں کسی کو خیال آیا کہ انہیں ڈالر خریدنے کی ضرورت نہیں۔ وہ ادھار پر بھی لے سکتے ہیں جس سے غیر ملکی کرنسی کی خریداری پر برطانوی پابندیاں لاگو نہیں ہوتی تھیں
ان ڈالروں سے وہ برطانوی پاؤنڈ خرید سکتے تھے جسے قرض کے طور پر آگے بڑھایا جا سکتا تھا۔ اس طرح روسی بینک نہ صرف امریکہ کی پہنچ سے دور رہا بلکہ یہ اپنے پیسے پر منافع بھی کمانے لگا
اس کی تفصیلات بہت پیچیدہ ہیں لیکن آسان لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس ڈیل سے روسی بینک نے امریکی پابندیوں سے بچ کر پیسے بنائے اور مڈلینڈ نے برطانوی پابندیوں سے بچ کر پیسے بنائے
معاملات اسی طرح آگے بڑھتے رہتے اگر مشرق وسطیٰ سے ایک حیرت انگیز خبر نہ آتی۔
ایک بڑے کاروبار کا موقع
سنہ 1956ع میں سوئز نہر مصری اثاثوں میں شامل ہو گئی جسے اس سے پہلے تک برطانیہ اور فرانس کنٹرول کرتے تھے۔ لندن اور پیرس نے دستے بھیجے مگر امریکہ نے اس کی مخالفت کی۔ اس سے شرمناک ناکامی کا سامنا کرنا پڑا
عظیم برطانوی سلطنت کے لیے یہ زوال کی طرح تھا مگر اس تباہی کے ملبے سے ایک برے کاروبار کا موقع سامنے آیا
آکسفرڈ کی مورخ کیتھرن شینک بتاتی ہیں کہ بینک آف انگلینڈ اور محکمہ خزانہ نے پاؤنڈ کا بین الاقوامی استعمال کم کر دیا جس سے ڈالر مزید پرکشش ہو گیا کیونکہ وہ اس کی نگرانی کے باہر تھا
سٹی کے بینک اس سے پہلے تک پاؤنڈ کے ذریعے کاروبار کرتے تھے۔ پاؤنڈ تک رسائی کم ہونے پر انھوں نے فنڈز کے لیے ایک نئے ذرائع کی طرف دیکھنا شروع کر دیا
دیگر بینکوں نے بھی مڈلینڈ جیسا راستہ اپنایا اور روزمرہ کے کاروبار کے لیے ڈالر ادھار پر حاصل کرنا شروع کر دیا۔ اس سے سب بدل گیا
ان کے مطابق ’ان ڈالروں کو استثنیٰ حاصل ہوئی کیونکہ اس پر فیڈرل ریزوو بینک کے قواعد و ضوابط لاگو نہیں ہوتے تھے۔ اس طرح بریٹن ووڈز نظام اور ملک میں موجودہ پابندیوں کے باوجود سٹی کے بینکوں کو الگ طریقے سے کاروبار کرنے کا موقع مل گیا‘
دی سٹی نے یوں بیسویں صدی کا سب سے اہم مالیاتی طریقہ ایجاد کر لیا تھا
یورو ڈالر کا تصور
وہ اسے یورو ڈالر کہتے تھے کیونکہ یہ ڈالر تھا بھی اور نہیں بھی تھا۔ اس کا انحصار اس بات پر ہوتا تھا کہ اس وقت زیادہ منافع بخش کیا ہے۔ بینکرز کسی بحری جہاز پر سوار قزاقوں کی طرح تھے جن کے پیروں تلے پیسوں کا سمندر تھا۔ سب جن اصولوں کی پیروی کر رہے تھے، بینک وہی اصول نظر انداز کر کے منافع کما رہے تھے
مگر کیا وہ اس قانونی خامی کا بتانے والے تھے جسے انہوں نے دریافت کیا تھا؟
انہوں نے میری ٹائم لا سے ایک اصطلاح لی، جس میں بتایا جاتا ہے کہ ’اگر آپ سمندر میں کسی ملک کی حدود میں نہ آئیں تو زمین کے قوانین آپ پر لاگو نہیں ہوتے، لہٰذا آپ ’آف شور‘ ہیں۔‘
کیتھرن کے مطابق ”یہ جلد ایک آف شور انٹربینک مارکیٹ بن گئی جو کسی ملک کے مالیاتی نگراں ادارے کی پہنچ سے دور تھی۔“ برطانوی حکومت میں بظاہر کسی کو یہ معلوم نہ تھا کہ آخر کیا ہو رہا ہے
مگر بینک آف انگلینڈ کے رہنماؤں کو یہ معلوم تھا اور انہیں یہ بہت پسند تھا۔ جنگ اور معاشی مشکلات کے دور کے خاتمے کے بعد سٹی آف لندن کا انجن آخر کار گرم ہونا شروع ہوگیا تھا
غیر ملکی بینکوں نے فوراً لندن میں اپنی شاخیں قائم کرنا شروع کر دیں تاکہ وہ بھی بغیر نگرانی والی اس مارکیٹ کے فائدے اٹھا سکیں
آئندہ دو دہائیوں کے دوران سٹی آف لندن سے پیسہ منتقل ہوتا رہا اور بریٹن ووڈ نظام کی پابندیوں کو نظر انداز کرتا گیا۔ پیسوں کی منتقلی کے تحفظ کے لیے مالی استحکام اور زندگی کے معیار کا دفاع کرنے کی کوششیں ناکام رہیں
ایک جنت کا سما
اس طرح منی لانڈرنگ کا طریقہ متعارف کرایا گیا، جس میں آف شور مارکیٹ کا پیسہ بیرونی نگرانی سے بچا رہتا تھا مگر لندن پیسے چھپانے کی بہترین جگہ نہیں تھا۔ اس کی وجہ امیر ترین لوگوں کے اثاثوں کا سب سے بڑا دشمن تھا: یعنی ٹیکس
اگر برطانوی بینکرز اپنے کلائنٹس کی مزید مدد کرنا چاہتے تھے تو انھیں قانون میں مزید خامیاں نکالنا تھیں۔ انھیں ایسے مقام درکار تھا جہاں ان رقوم کو محفوظ طریقے سے رکھا جاسکے
ان کی قسمت اچھی تھی کہ انہیں کہیں دور جانا نہ پڑا
قریب ہی انگلش چینل میں جرسی نامی جزیرہ تھا، جہاں قریب ایک ہزار سال سے برطانیہ کی حکمرانی تھی۔ یہ برطانیہ کا حصہ نہیں تھا مگر یہاں پاؤنڈ استعمال ہوتا تھا اور ٹیکسوں کا اپنا ایک نظام تھا
جرسی کی انتظامیہ میں ایک سینیئر اہلکار اور بعد میں ٹیکس ہیونز کے خلاف مہم چلانے والے جان کرسٹنسن کہتے ہیں ”سال 1950ع کے آخر تک آئین میں شق تھی کہ سود کے ساتھ ادائیگی کو روکا جاتا تھا اور صرف اپنے رہائشیوں کے لیے یہ جزیرہ ایک ٹیکس ہیون تھا“
اگر یہ جزیرہ اصولوں میں نرمی کر دیتا تو سب کو بڑا منافع ہو سکتا تھا اور یہی ہوا۔ جرسی کے سیاستدانوں نے بڑی رکاوٹ دور کر دی
بینکرز پہلے سے ڈالروں کی تجارت میں امریکی پابندیوں سے بچنے کے لیے سٹی آف لندن کا سہارا لے رہے تھے۔ اپنا پیسہ جرسی کے خفیہ بینک اکاؤنٹس میں منتقل کرنے سے وہ برطانوی پابندیوں سے بھی بچ گئے
اس اقدام سے ان پر لگنے والا ٹیکس نصف ہو گیا۔ سنہ 1970ع کی دہائی میں برطانوی کارپوریٹ ٹیکس 50 فیصد سے زیادہ تھا جبکہ جرسی میں یہ 20 فیصد تھا
کرسٹنسن کا کہنا ہے ”جرسی علاقائی اعتبار سے بھی بہترین تھا کیونکہ وہ ملاقات کے لیے لندن سے جرسی جاسکتے تھے۔ پرواز میں صبح روانگی اور رات کو واپسی“
”آہستہ آہستہ سٹی آف لندن کے لیے جرسی سیٹلائٹ ٹیکس ہیون بن گیا“
شمالی امریکہ اور یورپ کے دیگر بینکوں نے بھی اس جزیرے میں اپنی شاخیں کھول لیں اور جرسی تو صرف ایک شروعات تھی
مزید ’جنتیں‘ بنانے کا بندوبست
جیسے جیسے برطانوی نوآبادیاتی علاقے آزاد ہوتے گئے ویسے ویسے برطانوی سلطنت نقشے پر سکڑتی نظر آئی۔ برطانوی زیر کنٹرول برمودا، کیمین جزائر، برٹش ورجن آئیلینڈز، جبرالٹر اور اینگویلا اس قدر غریب اور دور دراز علاقے تھے کہ وہ آزاد ہو جائیں
تاہم ان کے پاس استحصال کے قومی وسائل میں برطانیہ سے تعلق کا وجود تھا۔ جرسی کی طرح وہاں بھی سیاستدانوں نے قانون میں خامیاں پیدا کیں تاکہ دوسرے ممالک سے آنے والے پیسوں پر پابندیاں ختم کی جا سکیں
یہ علاقے بھی ٹیکس ہیون بن گئے جس میں کم ٹیکس اور کلائنٹس کی رازداری قائم رکھی جاتی تھی تاکہ صارفین کی سرگرمیوں پر نظر نہ رکھی جا سکے
اوگل کے مطابق ’ایک فائدہ برطانوی سلطنت میں کامن لا کی مشترکہ ڈاکٹرائن کا تھا جس سے مذاکرات کافی آسان ہو گئے۔‘
’ان علاقوں میں برطانوی شہری بھی تھے۔ اگر ایک امریکی وکیل کیمین جزائر میں ایک کمپنی رجسٹریشن کا کاروبار شروع کرنا چاہتا تھا تو ٹیکس نہ ہونے کی وجہ سے وہ اہلکاروں کے ایک چھوٹے گروہ کو نظر میں رکھ سکتا تھا اور اس طرح مقامی قیادت کو منایا جاسکتا ہے۔ اس طرح ٹیکس ہیون کے کاروبار کے حصہ دار سب ہی بن جاتے ہیں۔‘
تو ٹیکس سے بچنے کے لیے کتنا پیسہ پہنچا جبکہ اس کی کتنی مقدر انسانی سمگلنگ، منشیات، ہتھیار، بدعنوانی اور چوری سے لائی گئی؟
’وہ پیسوں سے بھرے سوٹ کیس لاتے تھے‘
1980ع سے قبل کا زیادہ ڈیٹا موجود نہیں لیکن ہر بار ماضی کا کوئی دروازہ کھلتا ہے اور ہمیں اس جنت کے بارے میں کچھ معلومات مل جاتی ہے
اوگل کا کہنا ہے کہ ’1960 اور 1970 میں بڑے بحرانوں کے بعد کچھ مواقع ایسے آئے جب منی لانڈرنگ کے پیسوں کا تعلق جرائم پیشہ افراد سے نکلا۔ یہ نایاب کیسز تھے مگر درحقیقت تحقیقات کے بعد ہمیشہ یہ واضح ہوجاتا تھا کہ جرائم کی دنیا کے پیسے ہمیشہ سے آف شور کاروبار کی کامیابی کا حصہ رہے۔‘
’معلومات کو خفیہ رکھنے کے اقدامات اور رازداری کے اصولوں کی وجہ سے یہ معلوم کرنا انتہائی مشکل ہوتا تھا کہ یہ پیسہ کہاں سے آ رہا ہے اور مرکزی اثاثہ کیا ہے۔‘
کرسٹنسن کا کہنا ہے کہ ’تمام طرح کے پیسے جرسی آتے تھے۔ ایسے لوگ بھی تھے جو پرائیویٹ جہازوں پر پیسوں سے بھرے سوٹ کیس لایا کرتے تھے۔‘
انھوں نے یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ ’میں ٹرسٹ مینیجمنٹ ڈپارٹمنٹ میں ایک بڑی اکاؤنٹنگ کمپنی کے لیے کام کرتا تھا۔ میں نے دیکھنا شروع کیا کہ میرے کلائنٹس میں کون شامل ہے۔ مجھے ہر طرح کے شعبوں سے منسلک لوگ ملے۔‘
’یہ بات صرف ٹیکس چوری کی نہیں بلکہ اس میں غیر قانونی پارٹی فنانسنگ، غیر قانونی مالی معاونت اور دیگر سرگرمیاں شامل تھیں۔ جرسی تک پہنچنے والے پیسے ہر بار انھیں آمرانہ ریاستوں سے آتے تھے۔‘
’یہ پیسہ پوری دنیا سے آتا تھا۔ رقم جرسی منتقل ہونے کے بعد آف شور کاروبار بنایا جاتا تھا جس میں قانون کے تحت ٹرسٹ اور کمپنیاں شامل ہوتی تھیں۔‘
مگر جرسی اور دیگر ٹیکس ہیونز برطانیہ کے مالیاتی اداروں سے کیسے چھپے رہے؟
سب سے محفوظ راز
کرسٹنسن کے مطابق منی لانڈرنگ کی زبان میں لیڈرنگ کا ایک تصور ہے جس میں مقامات تبدیل کرنے سے کسی راز کو محفوظ کر لیا جاتا ہے اور پیسے کے اصل ذریعے تک پہنچنا انتہائی مشکل ہوجاتا ہے
’لندن اس سیڑھی پر سب سے اوپر ہے تو کسی کرپٹ حکمران کے لیے یہ غیر معمولی نہیں تھا کہ اس سیڑھی پر کچھ نشانات لندن کے ملتے ہوں۔‘
تو اگر لندن میں حکام یہ پتا چلانا چاہتے ہیں کہ پیسوں کا اصل ذریعہ کیا ہے تو وہ جرسی کے حکام سے پوچھیں گے اور پتا چلے گا کہ وہاں ان کا ایک ٹرسٹ ہے۔ کوئی بھی نہیں بتائے گا اس کے پیچھے بینفشری کون ہے کیونکہ رجسٹریشن کے دوران کسی بھی ملک میں یہ بتانا ضروری نہیں تھا کہ بینفشری کون ہے۔‘
’پھر آپ کو معلوم ہوتا تھا کہ ٹرسٹ کی برٹش ورجن آئیلینڈز اور مزید دوسری جگہوں پر کئی کمپنیاں ہیں۔‘
کرسٹنسن ان کمپنیوں کو ’شیل کمپنیاں‘ کہتے ہیں جس کا ہسپانوی زبان میں مطلب کاغذی، گھوسٹ یا افسانوی کمپنیاں ہے۔ مگر ان شیل کمپنیوں کی کیا ضروری تھی؟
واشنگ مشین کا تیسرا اور اہم حصہ
شیل کمپنیوں کے حوالے سے مہارت رکھنے والے گراہم برو کا کہنا ہے کہ ’یہ ایسی کمپنی ہوتی ہے جس کا کوئی کمرشل مقصد نہیں ہوتا
’اس کے کچھ اثاثے ہوتے ہیں جو ضروری نہیں کہ غیر قانونی ہوں۔ اس کے کوئی ملازمین، دفاتر نہیں ہوتے اور یہ کچھ بھی نہیں بیچتی۔ لیکن اسے دوسرے انداز میں استعمال کیا جاسکتا ہے اور اس کے وجود کی اور کوئی وجہ نہیں ہوتی۔‘
منی لانڈرنگ میں برطانوی اتنے مددگار کیوں؟
وہ اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ ’جرائم کے حوالے سے برطانیہ کو کم خطرے والی جگہ سمجھا جاتا ہے۔‘
ان مختلف مقامات میں بینک اکاونٹس اور کمپنیاں قائم کر دی جائیں تو رقم کی منتقلی آسان ہوجاتی ہے۔ اگر یہ کمپنیاں برطانوی ہیں اور ان کے سربراہ برطانوی شہری ہیں تو بظاہر حکام کو لگتا تھا کہ دوسرے ملک میں بھی ان کی کارروائیاں قانونی طریقے سے کی جا رہی ہوں گی۔
’یہ کمپنیاں بنانا آسان ہے۔ آپ دنیا میں کہیں سے بھی کمپیوٹر پر 12 پاؤنڈ خرچ کر انھیں بنا سکتے ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ آپ کوئی خلائی مخلوق ہیں جو چاند پر رہتی ہے اور اسی معلومات کے ساتھ کمپنی بنا سکتے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’آپ ایک پوری شناخت قائم کرسکتے ہیں جس کے ذریعے لاکھوں ڈالروں کی ترسیل کی جائے اور اس کے لیے یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ آپ کون ہیں۔ آپ دوسروں کے پیچھے چھپ سکتے ہیں کیونکہ آپ کی تصدیق کے لیے کوئی نظام نہیں۔‘
کمپنی بنانے کے لیے جھوٹ بولنا غیر قانونی ہے لیکن اس جرم کی سزا بہت معمولی سی ہے۔ وہ لوگ جو اپنے چوری کے پیسے چھپانا چاہتے ہیں اور اپنی مرضی سے انھیں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا چاہتے ہیں، وہ برطانوی کارپوریٹ نظام کو استعمال کرتے ہوئے اور اپنی شناخت خفیہ رکھتے ہوئے ایسا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
برو کا کہنا ہے کہ ’آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے کہ کتنی ساری کمپنیاں ایک دوسری کمپنی کی ملکیت ہیں، جو پھر کسی اور کمپنی کے نیچے کام کرتی ہے۔ آپ اس کی تحقیقات کرتے ہوئے اپنا ذہنی توازن کھو سکتے ہیں۔‘
برطانیہ میں کمپنیوں کے رجسٹرار، کمپنی ہاؤس، کو ہر روز کہیں زیادہ نئی درخواستیں دائر کی جاتی ہیں۔ اس کے پاس اتنے وسائل یا طاقت نہیں کہ ہر کمپنی کی معلومات کی تصدیق کر سکے۔
’اکثر روزانہ قریب 3500 کمپنیاں شامل کی جاتی ہیں جن میں ہر کمپنی 15 سے 20 ڈیٹا پوائنٹ دیتی ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر قریب ایک لاکھ ڈیٹا پوائنٹ سسٹم میں شامل ہوتے ہیں۔‘
محدود وسائل اور قدیم آئی ٹی سہولیات کے ساتھ آپ اس سب کی نگرانی کیسے کر سکتے ہیں؟ ان کا جواب تھا یہ ناممکن ہے اور جرائم پیشہ افراد اس بات سے باخبر ہیں۔
کئی گزرتی حکومتوں نے اپنی اپنی حیثیت میں مالیاتی نظام کو صاف و شفاف بنانے کی کوشش کی ہے۔ مثلاً جرسی میں اس حوالے سے اقدامات کیے گئے ہیں۔
کرسٹنسن کا کہنا ہے کہ سال 1997 سے 2007 تک کی ٹونی بلیئر حکومت نے جرسی اور دیگر علاقوں پر دباؤ ڈالنا شروع کیا۔ ان کے مطابق اس نظام کی کئی خامیاں دور کی گئی ہیں لیکن لیگیسی کسٹومرز کی ایک بڑی فہرست ہے جو 1970 اور 1980 کے دوران جرسی میں رہائش پذیر ہوئے تھے۔ ان کے پرانے اکاؤنٹس اب بھی موجود ہیں اور ماضی کی یاد دلاتے ہیں جب معلومات کی اتنی نگرانی نہیں کی جاتی تھی۔
ادھر سٹی آف لندن میں بہت کچھ ہونا باقی ہے اور اس کے لیے بڑا حوصلہ درکار ہوگا۔
نوٹ: یہ رپورٹ صحافی اور مصنف اولیور بُلو کی سیریز ’ہاؤ ٹو سٹیل اے ٹریلین‘ سے تیار کی گئی ہے جسے بی بی سی ریڈیو فور کے فِل فٹلائن نے بنایا.