صوبہ پنجاب کے ضلع اٹک کی پولیس نے اینکر پرسن عمران ریاض خان کو گرفتار کر لیا ہے، جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران ریاض کی گرفتاری پر آئی جی اسلام آباد سے وضاحت طلب کی ہے
وزیرِ قانون پنجاب ملک احمد خان نے عمران ریاض کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں پنجاب میں درج متعدد مقدمات کی بنیاد پر پنجاب کی حدود سے گرفتار کیا گیا ہے
عمران ریاض نے گرفتاری دینے سے قبل گاڑی میں بیٹھ کر ایک وڈیو ریکارڈ کروائی ہے جس میں انھوں نے بتایا کہ ’میں اپنی ضمانت کے لیے اسلام آباد آ رہا تھا اور یہ بالکل اسلام آباد کی حدود ہیں جہاں سے مجھے گرفتار کیا جا رہا ہے۔‘
وڈیو میں وہ کہہ رہے ہیں ”(چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ) اطہر من اللہ نے مجھے ضمانت دے رکھی ہے اور ایسی صورتحال میں مجھے گرفتار کرنا غلط ہے۔ کل صبح مجھے اُن ہی کی عدالت میں پیش ہونا تھا اور اسلام آباد ہائی کورٹ سے اپنی ضمانت میں توسیع حاصل کرنی تھی“
عمران ریاض کا مزید کہنا تھا ”اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ مجھے اندر بند کر دیں، جان سے مار دیں، یہ کچھ بھی کر دیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا میرے خیال میں ہمیں اپنا کام کرنا چاہیے“
انہوں نے کہا ”جو صحافی باہر ہیں ان سب سے میری گزارش ہے کہ آواز اٹھائیں، بات کریں اور اپنا کام کرتے رہیں، کام نہیں چھوڑنا آپ نے، میں جرأت کے ساتھ گرفتاری دینے جا رہا ہوں۔ یہ پیچھے پڑ گئے ہیں بلاوجہ بولنے ہی نہیں دے رہے“
انہوں نے کہا ”مجھے گرفتار کرنے کا تجربہ کرنا ہے تو یہ بھی کر کے دیکھ لیجیے“
ان کی گرفتاری کے بعد سامنے آنے والی پہلے سے ریکارڈ کی گئی ایک ویڈیو میں عمران ریاض خان کہتے ہیں ”اگر اب سے پانچ گھنٹے کے بعد انھوں نے مجھے نہ چھوڑا تو میرے چینل پر ایک ایسی وڈیو اپ لوڈ ہوگی کہ تہلکہ مچ جائے گا“
”ان کو پتا چل جائے گا جنہوں نے میرے خلاف کارروائی کی ہے، سب کا نام لوں گا۔ ان ایجنسیوں کا بھی، ان اداروں کا بھی اور ان بندوں کا بھی جنہوں نے یہ سب کیا ہے“
پولیس ذرائع نے بتایا کہ ’لاہور سے موصول ہونے والی ہدایت کے بعد عمران ریاض کو گرفتار کر کے اُن کے موبائل فون، بٹوے سمیت دیگر تمام اشیا پولیس نے قبضے میں لے لیں، پہلے تو گرفتاری کو چھپانے کی کوشش کی جارہی تھی مگر پھر فوٹیج سامنے آنے کے بعد اٹک پولیس نے گرفتاری کی تصدیق کی‘
پولیس حکام نے عمران ریاض خان کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں شہری ملک مرید عباس نامی شہری کی جانب سے درج کیے جانے والے مقدمے کے بعد گرفتار کیا گیا۔ (یہ مقدمہ دیگر درج 17 مقدمات کے علاوہ ہے)
ترجمان پولیس کے مطابق عمران ریاض خان کے خلاف تھانہ سٹی اٹک میں الیکٹرانک کرائم ایکٹ اور دیگر 6 دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا
ایف آئی آر میں شہری نے مؤقف اختیار کیا گیا کہ اُس نے سوشل میڈیا پر ایک وڈیو دیکھی جس میں عمران ریاض خان نے پاک فوج کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی
دوسری جانب پاکستان تحریکِ انصاف نے اینکر کی گرفتاری کے خلاف بدھ کو پریس کلبز کے سامنے ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا ہے
عمران ریاض تحریکِ انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے اس جماعت کے بیانیے کے بڑے حامی اینکر کے طور پر سامنے آئے تھے اور ان کے ذاتی یو ٹیوب چینل کی ویڈیوز کی بنیاد پر ملک کے مختلف شہروں میں ان کے خلاف ”اداروں کے خلاف تضحیک آمیز زبان استعمال کرنے“ اور ”عوام کو افواج پاکستان کے خلاف اکسانے“ جیسے الزامات کے تحت متعدد مقدمات درج ہوئے ہیں
ملک احمد خان کے مطابق ضلع اٹک کے دو تھانوں میں بھی اُن کے خلاف مقدمات درج ہیں اور انہی کی بنیاد پر اٹک پولیس نے انہیں گرفتار کیا ہے
یاد رہے کہ اینکر عمران ریاض پر اٹک کے علاوہ لاہور، بہاولپور، مظفر گڑھ، بھکر، سرگودھا، کالا باغ، گوجرانوالہ، جھنگ، ٹوبہ ٹیک سنگھ اور متعدد دیگر شہروں میں ایف آئی آرز درج ہیں
عمران ریاض خان نے کچھ عرصہ قبل اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کر کے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کی تھی
عمران ریاض خان جب اسلام آباد ہائی کورٹ میں ضمانت کے لیے آئے تھے، تو انہوں نے اٹک میں درج مقدمات کا ذکر کیا تھا جس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے کہا تھا کہ ’اٹک اس عدالت (اسلام آباد ہائی کورٹ) کے دائرہ سماعت میں نہیں ہے اس لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا جائے۔‘
نامہ نگار کے مطابق منگل کی شب عمران ریاض کی گرفتاری کے بعد بھی ان کے وکلا کی جانب سے رات گئے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا ہائی کورٹ میں توہین عدالت کی درخواست دائر کی گئی، جس میں پنجاب اور اسلام آباد پولیس کے سربراہوں کو فریق بنایا گیا ہے
عمران ریاض خان کے وکیل نے بتایا تھا کہ ’ہائی کورٹ نے گرفتاری سے روک رکھا تھا اس کے باوجود گرفتاری ہوئی، ہم پولیس کے اس عمل پر توہین عدالت کی درخواست دائر کرنا چاہتے ہیں‘۔
عمران خان کے وکلا نے درخواست میں آئی جی اسلام آباد، آئی جی پنجاب اور ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو فریق بنایا اور مؤقف اختیار کیا کہ ہائی کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود بھی عمران ریاض کو گرفتار کیا گیا، عدالتی احکامات کی حکم عدولی پر ملوث افراد کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کی گئی
عدالت نے اس درخواست پر اسلام آباد پولیس کے مجاز افسر کو بدھ کی صبح دس بجے طلب کیا ہے اور کہا ہے کہ ’آئی جی اسلام آباد وضاحت کریں کہ عدالت کی حکم عدولی کیوں ہوئی؟‘
خیال رہے کہ منگل کی صبح ہی لاہور میں عدالت نے عمران ریاض کے اسلحہ لائسنس منسوخ کرنے اور انھیں بلٹ پروف گاڑی رکھنے کے اجازت واپس لینے کے احکامات بھی معطل کیے تھے
صوبہ پنجاب کے ضلع اٹک کی پولیس نے اینکر پرسن عمران ریاض خان کو گرفتار کر لیا ہے، جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران ریاض کی گرفتاری پر آئی جی اسلام آباد سے وضاحت طلب کی ہے
وزیرِ قانون پنجاب ملک احمد خان نے عمران ریاض کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں پنجاب میں درج متعدد مقدمات کی بنیاد پر پنجاب کی حدود سے گرفتار کیا گیا ہے
عمران ریاض نے گرفتاری دینے سے قبل گاڑی میں بیٹھ کر ایک وڈیو ریکارڈ کروائی ہے جس میں انھوں نے بتایا کہ ’میں اپنی ضمانت کے لیے اسلام آباد آ رہا تھا اور یہ بالکل اسلام آباد کی حدود ہیں جہاں سے مجھے گرفتار کیا جا رہا ہے۔‘
وڈیو میں وہ کہہ رہے ہیں ”(چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ) اطہر من اللہ نے مجھے ضمانت دے رکھی ہے اور ایسی صورتحال میں مجھے گرفتار کرنا غلط ہے۔ کل صبح مجھے اُن ہی کی عدالت میں پیش ہونا تھا اور اسلام آباد ہائی کورٹ سے اپنی ضمانت میں توسیع حاصل کرنی تھی“
عمران ریاض کا مزید کہنا تھا ”اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ مجھے اندر بند کر دیں، جان سے مار دیں، یہ کچھ بھی کر دیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا میرے خیال میں ہمیں اپنا کام کرنا چاہیے“
انہوں نے کہا ”جو صحافی باہر ہیں ان سب سے میری گزارش ہے کہ آواز اٹھائیں، بات کریں اور اپنا کام کرتے رہیں، کام نہیں چھوڑنا آپ نے، میں جرأت کے ساتھ گرفتاری دینے جا رہا ہوں۔ یہ پیچھے پڑ گئے ہیں بلاوجہ بولنے ہی نہیں دے رہے“
انہوں نے کہا ”مجھے گرفتار کرنے کا تجربہ کرنا ہے تو یہ بھی کر کے دیکھ لیجیے“
ان کی گرفتاری کے بعد سامنے آنے والی پہلے سے ریکارڈ کی گئی ایک ویڈیو میں عمران ریاض خان کہتے ہیں ”اگر اب سے پانچ گھنٹے کے بعد انھوں نے مجھے نہ چھوڑا تو میرے چینل پر ایک ایسی وڈیو اپ لوڈ ہوگی کہ تہلکہ مچ جائے گا“
”ان کو پتا چل جائے گا جنہوں نے میرے خلاف کارروائی کی ہے، سب کا نام لوں گا۔ ان ایجنسیوں کا بھی، ان اداروں کا بھی اور ان بندوں کا بھی جنہوں نے یہ سب کیا ہے“
پولیس ذرائع نے بتایا کہ ’لاہور سے موصول ہونے والی ہدایت کے بعد عمران ریاض کو گرفتار کر کے اُن کے موبائل فون، بٹوے سمیت دیگر تمام اشیا پولیس نے قبضے میں لے لیں، پہلے تو گرفتاری کو چھپانے کی کوشش کی جارہی تھی مگر پھر فوٹیج سامنے آنے کے بعد اٹک پولیس نے گرفتاری کی تصدیق کی‘
پولیس حکام نے عمران ریاض خان کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں شہری ملک مرید عباس نامی شہری کی جانب سے درج کیے جانے والے مقدمے کے بعد گرفتار کیا گیا۔ (یہ مقدمہ دیگر درج 17 مقدمات کے علاوہ ہے)
ترجمان پولیس کے مطابق عمران ریاض خان کے خلاف تھانہ سٹی اٹک میں الیکٹرانک کرائم ایکٹ اور دیگر 6 دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا
ایف آئی آر میں شہری نے مؤقف اختیار کیا گیا کہ اُس نے سوشل میڈیا پر ایک وڈیو دیکھی جس میں عمران ریاض خان نے پاک فوج کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی
دوسری جانب پاکستان تحریکِ انصاف نے اینکر کی گرفتاری کے خلاف بدھ کو پریس کلبز کے سامنے ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا ہے
عمران ریاض تحریکِ انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے اس جماعت کے بیانیے کے بڑے حامی اینکر کے طور پر سامنے آئے تھے اور ان کے ذاتی یو ٹیوب چینل کی ویڈیوز کی بنیاد پر ملک کے مختلف شہروں میں ان کے خلاف ”اداروں کے خلاف تضحیک آمیز زبان استعمال کرنے“ اور ”عوام کو افواج پاکستان کے خلاف اکسانے“ جیسے الزامات کے تحت متعدد مقدمات درج ہوئے ہیں
ملک احمد خان کے مطابق ضلع اٹک کے دو تھانوں میں بھی اُن کے خلاف مقدمات درج ہیں اور انہی کی بنیاد پر اٹک پولیس نے انہیں گرفتار کیا ہے
یاد رہے کہ اینکر عمران ریاض پر اٹک کے علاوہ لاہور، بہاولپور، مظفر گڑھ، بھکر، سرگودھا، کالا باغ، گوجرانوالہ، جھنگ، ٹوبہ ٹیک سنگھ اور متعدد دیگر شہروں میں ایف آئی آرز درج ہیں
عمران ریاض خان نے کچھ عرصہ قبل اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کر کے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کی تھی
عمران ریاض خان جب اسلام آباد ہائی کورٹ میں ضمانت کے لیے آئے تھے، تو انہوں نے اٹک میں درج مقدمات کا ذکر کیا تھا جس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے کہا تھا کہ ’اٹک اس عدالت (اسلام آباد ہائی کورٹ) کے دائرہ سماعت میں نہیں ہے اس لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا جائے۔‘
نامہ نگار کے مطابق منگل کی شب عمران ریاض کی گرفتاری کے بعد بھی ان کے وکلا کی جانب سے رات گئے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا ہائی کورٹ میں توہین عدالت کی درخواست دائر کی گئی، جس میں پنجاب اور اسلام آباد پولیس کے سربراہوں کو فریق بنایا گیا ہے
عمران ریاض خان کے وکیل نے بتایا تھا کہ ’ہائی کورٹ نے گرفتاری سے روک رکھا تھا اس کے باوجود گرفتاری ہوئی، ہم پولیس کے اس عمل پر توہین عدالت کی درخواست دائر کرنا چاہتے ہیں‘۔
عمران خان کے وکلا نے درخواست میں آئی جی اسلام آباد، آئی جی پنجاب اور ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو فریق بنایا اور مؤقف اختیار کیا کہ ہائی کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود بھی عمران ریاض کو گرفتار کیا گیا، عدالتی احکامات کی حکم عدولی پر ملوث افراد کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کی گئی
عدالت نے اس درخواست پر اسلام آباد پولیس کے مجاز افسر کو بدھ کی صبح دس بجے طلب کیا ہے اور کہا ہے کہ ’آئی جی اسلام آباد وضاحت کریں کہ عدالت کی حکم عدولی کیوں ہوئی؟‘
خیال رہے کہ منگل کی صبح ہی لاہور میں عدالت نے عمران ریاض کے اسلحہ لائسنس منسوخ کرنے اور انھیں بلٹ پروف گاڑی رکھنے کے اجازت واپس لینے کے احکامات بھی معطل کیے تھے
عمران ریاض کی گرفتاری کے حوالے سے سوشل میڈیا پر خاصا ردِ عمل دیکھنے میں آ رہا ہے اور اس حوالے سے مختلف ٹرینڈ بھی چل رہے ہیں
اس بارے میں ردِ عمل دیتے ہوئے سابق وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ پنجاب پولیس کے ہاتھوں عمران ریاض کی بلاجواز گرفتاری کی مذمت کرتے ہیں
ان کا کہنا تھا ’قوم کو امپورٹڈحکومت کے سامنے جھکانے کے لیے ملک فسطائیت کے سپردکیا جارہا ہے اور یہی وقت ہےکہ ہر شخص خصوصاً میڈیا یکجا ہو کر اس فسطائیت کے خلاف کھڑے ہوں‘
سابق وزیرِ اطلاعات اور پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری نے کہا کہ ’آج ہی (سابق وزیر اعظم) عمران خان نے پاکستان میں صحافیوں پر پابندیوں کے حوالے سے تفصیلی بات کی تھی اور کہا تھا کہ ملک میں فاشسٹ حکومت اپنے خلاف تنقیدی آوازوں کو دبانے کے لیے تیسرے درجے کے ہتھکنڈے استعمال کرے گی۔‘
فواد چوہدری کا مزید کہنا تھا کہ ’تحریک انصاف عمران ریاض کی گرفتاری کی شدید مذمت کرتی ہے۔ امید ہے عدالتیں کُھلیں گی اور انصاف ہوگا۔‘
عمران ریاض کی گرفتاری کے حوالے سے سوشل میڈیا پر خاصا ردِ عمل دیکھنے میں آ رہا ہے اور اس حوالے سے مختلف ٹرینڈ بھی چل رہے ہیں
اس بارے میں ردِ عمل دیتے ہوئے سابق وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ پنجاب پولیس کے ہاتھوں عمران ریاض کی بلاجواز گرفتاری کی مذمت کرتے ہیں
ان کا کہنا تھا ’قوم کو امپورٹڈحکومت کے سامنے جھکانے کے لیے ملک فسطائیت کے سپردکیا جارہا ہے اور یہی وقت ہےکہ ہر شخص خصوصاً میڈیا یکجا ہو کر اس فسطائیت کے خلاف کھڑے ہوں‘
سابق وزیرِ اطلاعات اور پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری نے کہا کہ ’آج ہی (سابق وزیر اعظم) عمران خان نے پاکستان میں صحافیوں پر پابندیوں کے حوالے سے تفصیلی بات کی تھی اور کہا تھا کہ ملک میں فاشسٹ حکومت اپنے خلاف تنقیدی آوازوں کو دبانے کے لیے تیسرے درجے کے ہتھکنڈے استعمال کرے گی۔‘
فواد چوہدری کا مزید کہنا تھا کہ ’تحریک انصاف عمران ریاض کی گرفتاری کی شدید مذمت کرتی ہے۔ امید ہے عدالتیں کُھلیں گی اور انصاف ہوگا۔‘