نوشہرو فیروز کا نوجوان ہنزہ میں حُسینی پُل پار کرتے ہوئے لقمہ اجل بن گیا

ویب ڈیسک

نوشہرو فیروز سے تعلق رکھنے والے نوجوان سید غلام مرتضیٰ شاہ گزشتہ روز گلگت بلتستان کے شہر ہنزہ میں ایڈونچر پُل سمجھے جانے والے ’حسینی پُل‘ سے دریا میں گر کر جاں بحق ہو گئے

سید غلام مرتضیٰ خاہ صوبہ سندھ کے ضلع نوشہرو فیروز کے رہائشی اور کراچی میں اقرا یونیورسٹی میں الیکٹرانک انجینیئرنگ کے آخری سال کے طالبعلم تھے۔ انہوں نے سوگواروں میں دو بھائی، تین بہنیں اور بیوہ والدہ چھوڑی ہیں

مرتضیٰ شاہ کے قریبی عزیز رحیم شاہ، جو اسلام آباد میں ملازمت کرتے ہیں، کے مطابق منگل کی دوپہر کو ہنزہ سے ان کی میت اسلام آباد پہنچائی گئی ہے۔ اہل خانہ کے مطابق نوشہرو فیروز پہنچتے ہی نماز جنازہ ادا کر کے تدفین کر دی جائے گی

واضح رہے کہ یہ حادثہ سوموار کے روز پیش آیا تھا

رحیم شاہ کا کہنا ہے ”تسلیم کرتے ہیں کہ ہمارے بچے کے ساتھ حادثہ ہوا ہے۔ مگر حادثے کی تحقیقات تو ہونی چاہئیں کہ پتا چلے کہ کیسے اور کیوں حادثہ ہوا اور آئندہ ایسے حادثے سے کیسے بچا جا سکتا ہے“

حادثہ کیسے پیش آیا؟

رحیم شاہ نے بتایا کہ انہیں سید غلام مرتضٰی شاہ کے ساتھ موجود ان کے ایک کزن اور تین دوستوں نے بتایا کہ ان لوگوں نے اپنے تفریحی دورے کے موقع پر فیصلہ کیا کہ وہ حسینی پُل سے گزر کر اپنے دورے کو یادگار بنائیں گے۔ ’اس شوق کی خاطر وہ حُسینی پل پہنچے۔‘

غلام مرتضٰی کے ساتھ موجود ان کے کزن اور دوستوں نے اہل خانہ کو بتایا کہ جیسے ہی غلام مرتضٰی پُل کے درمیان میں پہنچے تو اچانک انہوں نے اپنی عینک اُتار دی

رحیم کے مطابق ’ہمیں بتایا گیا کہ غلام مرتضٰی نے اپنے دونوں ہاتھوں سے پُل کے اطراف موجود پتلی تاروں کو پکڑا ہوا تھا جس کی مدد سے وہ آگے بڑھ رہے تھے۔ اس موقع پر انہوں نے کچھ اس طرح ہاتھ اوپر اٹھائے جیسے انہیں کوئی تکلیف محسوس ہوئی ہو یا چکر وغیرہ آیا ہو۔ چند ہی لمحوں میں وہ پُل پر گِر گئے۔‘

رحیم بتاتے ہیں ”جب غلام مرتضٰی گرے تو اس وقت ایک اور فیملی قریب سے گزر رہی تھی۔ اس میں موجود ایک شخص نے انہیں پکڑا اور سہارا دینا چاہا۔ اُس شخص نے کچھ دیر غلام مرتضٰی کو تھامے رکھا مگر پھر وہ اپنا توازن برقرار نہیں رکھ پا رہا تھا۔ توازن برقرار رکھنے کی کوشش کے دوران اس شخص کا ہاتھ غلام مرتضٰی کے ہاتھ سے چھوٹ گیا اور غلام مرتضٰی دریا میں گر گئے۔ اُس شخص نے بعد ازاں کزن اور دوستوں سے افسوس کا اظہار کیا کہ وہ انہیں بچا نہیں سکا“

رحیم شاہ کے مطابق ”غلام مرتضٰی کے دریا میں گرنے کے بعد اُن کے دوستوں اور دیکھنے والوں نے شور شرابہ کیا تو موقع پر موجود ریسیکو اہلکار پہنچ گئے جنہیں پہلے تو یقین نہ آیا کہ کوئی سیاح دریا میں گرا ہے مگر جلد ہی انہوں نے تلاش شروع کر دی۔‘

’دریا تیز رفتار تھا مگر پھر بھی ریسیکو اہلکاروں نے تین گھنٹے کی کوشش کے بعد اُن کی لاش کو دریا سے نکال لیا۔‘

”پتہ نہیں تھا کہ وہ اپنی موت کی طرف جا رہا تھا“

غلام مرتضٰی کے ماموں مہتاب شاہ کہتے ہیں کہ ان کے بھانجے کے والد پہلے ہی وفات پا چکے ہیں، جس کے بعد ان بچوں کی نگرانی کی ذمہ داری اُن پر آن پڑی تھی۔ ”ہمارا ایک ہی مشترکہ گھر ہے۔ غلام مرتضٰی انجینیئرنگ کے آخری سال میں تھا۔ وہ بہت لائق تھا اور چاہتا تھا کہ بیچلرز کے بعد مزید تعلیم کا سلسلہ جاری رکھے“

ان کا کہنا تھا ”اس ٹور کا پروگرام غلام مرتضٰی اور میرے بیٹے نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر بنایا تھا۔ اس کی اجازت بھی غلام مرتضٰی نے مجھ سے حاصل کی تھی کیونکہ سب جانتے ہیں کہ میں اپنے بھانجوں کی بات کو کم ہی ٹالتا ہوں۔ ویسے بھی بچے اور طالب علم تھے کچھ تفریح ان کا حق ہے۔ مجھے نہیں پتا تھا کہ میرا بھانجا تفریحی دورے پر نہیں اپنی موت کی طرف جا رہا تھا“

غلام مرتضٰی کے ماموں کے مطابق “ان لوگوں نے حیدر آباد سے اپنے ٹور کا آغاز کیا تھا۔ اس دوران میرے ساتھ بات تو نہیں ہوئی مگر ان دونون لڑکوں کی اپنے بہن بھائیوں سے بات ہوتی رہی تھی۔ وہ بتا رہے تھے کہ وہ بہت تفریح اور مزہ کر رہے ہیں۔ بتا رہے تھے کہ بس اب چند دونوں میں واپسی ہے“

”اُس کی والدہ اکثر میرے ساتھ اُس کے رشتے کے متعلق بات کرتی تھیں۔ کچھ رشتوں کے بارے میں مشورہ بھی کرتیں تو میں اُن کو کہتا کہ پہلے اس کو ڈگری پوری کر کے مستقبل بنانے دو پھر شادی کرنا، مگر وہ نہیں مانتی تھیں، کہتی تھیں کہ زیادہ سے زیادہ ڈگری کا انتظار کروں گی اور شادی کروا دوں گی“

انہوں نے کہا ”جب سے حادثہ کی اطلاع پہنچی ہے اس وقت سے اپنی بہن کا سامنا نہیں کر پا رہا ہوں۔ کروں بھی تو کیسے سمجھ ہی نہیں آتا ہے“

حسینی برج

ہنزہ کے علاقے میں حُسینی برج یا حُسینی سسپینشن برج درحقیقت ہوا میں معلق ایک پُل ہے یعنی عام پلوں کے برعکس اس طویل پُل کے کوئی ستون نہیں ہیں، جو اسے سہارا دیتے ہوں

یہ پُل مقامی لوگ عرصہ دراز سے اپنے آپسی رابطوں اور دریا کو عبور کرنے کے لیے استعمال کرتے آئے ہیں

اس پُل کے تختے اس طرح لگائے گئے ہیں کہ ان میں فاصلہ ہے، یعنی ایک کے بعد دوسرا قدم رکھنے کے لیے لمبا قدم اٹھانا پڑتا ہے، کیونکہ تختوں کے درمیان فاصلہ ہے

مقامی افراد کے مطابق تختوں کے درمیاں فاصلہ اس لیے رکھا گیا ہے کیونکہ یہ ایک معلق پُل ہے اور جب ہوا تیز چلتی ہے تو تختوں کے درمیان فاصلہ پُل کو گرنے سے بچاتا ہے

مقامی افراد کے مطابق ایک مرتبہ تختوں کے درمیاں فاصلہ ختم کیا گیا تھا مگر تیز ہوا چلنے سے پورا پُل ہی الٹ گیا اور کچھ عرصے کے لیے ناقابل استعمال رہا، جس کے بعد دوبارہ تختوں میں فاصلہ رکھ دیا گیا تاکہ تیز ہوا پُل کو نقصان نہ پہنچائے

سردیوں میں جب دریا میں پانی کم ہو جاتا ہے تو اس وقت اس پُل کی ضرورت باقی نہیں رہتی ہے کیونکہ مقامی لوگ دریا میں سے گزرگاہ بنا لیتے ہیں

ریسکیو اہکاروں کے مطابق 635 فٹ طویل اس پُل کو بنانے کے لیے چھ بڑی تاریں استعمال کی گئی ہیں۔ ان چھ تاروں کی مدد سے اس پورے پُل کو جوڑا گیا ہے۔ سنہ 2015 تک زیادہ تر اس پُل کو مقامی لوگ ہی استعمال کرتے تھے اور اکا دکا سیاحوں کو ہی اس کا پتہ تھا

لیکن بعد میں اس پل سے گزرنا ایک ایڈونچر میں بدلا اور اب اس علاقے میں جانے والے سیاح اس پُل تک لازمی آتے ہیں، بھلے وہ اس کو عبور کریں یا نہ کریں

کئی اہم شخصیات نے اس پُل کو عبور کرتے ہوئے اپنی تصاویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کیں جس کے نتیجے میں یہ سیاحوں میں مشہور ہوتا چلا گیا

پیر کے روز غلام مرتضٰی کے دریا میں گرنے کے واقعے کے بعد سے مقامی انتظامیہ نے اس پُل کو تاحکم ثانی بند کر دیا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close