صوبہ سندھ کے ضلع ٹھٹہ کے علاقے جھمپیر میں کوئلے کی ایک کان میں پانی بھر جانے کے نتیجے میں 8 مزدور ہلاک ہوگئے جبکہ ایک بارہ سال بچہ بھی کان میں موجود تھا، جو لاپتہ ہے
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کان میں بچے کی موجودگی کے حوالے سے تحقیقات کا حکم جاری کیا ہے
یہ واقعہ منگل کی دوپہر دو بجے کے قریب جھمپیر میں پیش آیا ہے جہاں حکومت سندھ سے لیز شدہ کمپنی پہاڑی علاقے میں کان سے کوئلہ نکالتی ہے
ایک کان کن فیض عالم نے بتایا کہ ‘بارش جاری تھی لیکن مزدور کان کے اندر چلے گئے اس دوران بارش تیز ہو گئی اور ندی میں بھی بہاؤ آ گیا جس کی وجہ سے کان میں پانی بھر گیا اور مزدور اندر پھنس گئے۔’
فیض عالم کے بقول ‘جھمپیر میں کسی قسم کی سہولت موجود نہیں تھی اور کئی گھنٹوں کے بعد مشینیں منگوائی گئیں اور کان سے پانی کی نکاسی کی گئی جس کے بعد لاشیں نکالی گئیں۔’
انہوں نے بتایا کہ ‘ہلاک ہونے والے مزدوروں کا تعلق سوات، شانگلہ اور دیر سے تھا جن میں سے چار مزدور ایک ہی گاؤں کے ہیں۔’
وہ بتاتے ہیں کہ ‘یہاں کام کرنے والے مزدورں کی تعداد دو ہزار کے قریب ہے لیکن ان کے پاس نہ ٹھیکیدار اور نہ ہی حکومت کی جانب سے کوئی سہولت موجود ہے۔’
انہوں نے لاپتہ ہونے والے بچے کے بارے میں تفصیلات بتاتے ہوئے بتایا کہ ’بارہ سالہ بچہ اپنے والد کے ساتھ کام کرتا تھا اس کو ماہانہ دس، بارہ ہزار روپے ملتے تھے، وہ کان میں ہوا کے گیٹ پر مامور تھا۔‘
کوئلے کی کان میں بچے کا لاپتہ ہونے کا معاملہ جمعرات کو سندھ کابینہ میں بھی زیر بحث آیا۔
وزیراعلیٰ ہاؤس کے ترجمان کے مطابق ‘وزیراعلیٰ نے تحقیقات کا حکم جاری کیا اور کہا کہ اگر بچہ کان میں کام کر رہا تھا تو یہ چائلڈ لیبر کا معاملہ ہے اس پر سخت کارروائی کی جائے گی۔’
صوبائی محکمہ توانائی امتیاز شیخ نے کابینہ کو بتایا کہ ‘یہ ایک نجی کان تھی جس میں پانی بھر گیا اور پھنسے ہوئے مزدوروں میں سے آٹھ کی لاشیں نکالی گئی ہیں۔’
اس سے قبل کان مزدوروں نے ریسکیو آپریشن میں تاخیر پر جھمپیر کے قریب ریلوے ٹریک پر دھرنا دے کر ریلوے سروس کو معطل کر دیا تھا۔
مقامی انتظامیہ نے انہیں یقین دہانی کروائی تھی کہ ہیوی مشنری طلب کی گئی ہے اور کان سے پانی کی نکاسی میں تیزی لائی جائے گی۔
گلباز خان نامی کان کن نے بتایا کہ ‘جس روز واقعہ ہوا اس روز چھوٹی چھوٹی موٹریں لگائی گئیں جن میں سے کچھ خراب ہو گئیں اور پھر جنریٹر نے کام کرنا چھوڑ دیا جس کے بعد مزدوروں نے ریلوے ٹریک پر احتجاج کیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ‘وہ رات اور اگلی صبح گزر گئی، اس کے بعد دوپہر کو انتظامیہ آئی اور ریسکیو شروع کیا تاہم بارہ سالہ بچہ ابھی تک لاپتہ ہے۔’
گلباز خان کے مطابق ‘یہاں مزدوروں کے ساتھ بہت ظلم ہوتا ہے اور فی مزدور پندرہ سو سے دو ہزار روپے دہاڑی دی جاتی ہے اور لوگ مجبوری میں یہاں کام کرتے ہیں۔ بچے کے والد نے بھی مجبوری میں اس کو کام پر لگایا تھا۔’
ڈپٹی کمشنر ٹھٹہ غضنفر قادری کا کہنا ہے کہ ’ساڑھے تین سو فٹ گہری کان میں برساتی نالے کا پانی داخل ہو گیا تھا اور پانی کی نکاسی کے لیے ہیوی مشینیں لگائی گئیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ‘محکمہ مائینز اینڈ منرل کی جانب سے کانوں کے لیے ایک ایس او پی موجود ہے جس کی روشنی میں کام کیا جاتا ہے اس ایڈوائیزری پر عمل درآمد نہ ہونے کی تحقیقات کی جائیں گی۔’