اینکر عمران ریاض کو اٹک عدالت کے بعد چکوال عدالت میں پیش کیا گیا اور اب انہیں لاہور پولیس کی تحویل میں دے دے دیا گیا ہے، لاہور پولیس کل بروز ہفتہ انہیں لاہور عدالت میں پیش کرے گی
عمران ریاض کے خلاف پاکستان بھر میں 21 مقدمات درج تھے، جن میں سے دو مقدمات خارج ہو چکے ہیں، تیسرے کی کارروائی شروع ہو چکی ہے جب کہ ابھی اٹھارہ مقدمات بھگتنے باقی ہیں
عمران ریاض کے وکیل میاں علی اشفاق کا کہنا ہے ”اتنی بڑی تعداد میں مقدمات درج کرنے سے ظاہر ہے کہ انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ کبھی ایک عدالت پھر دوسری عدالت، ایک شہر کی پولیس اور پھر دوسرے شہر کی پولیس کے حوالے کیا جارہا ہے حکومت ان کا حوصلہ توڑنا چاہتی ہے“
دوسری جانب پنجاب کے وزیر قانون ملک احمد خان کے مطابق عمران ریاض کے خلاف اٹک پولیس نے جو مقدمہ درج کیا تھا، اس کے تحت انہیں ضلع اٹک سے ہی گرفتار کیا گیا اور اب جہاں جہاں مقدمات درج ہیں، وہاں پولیس ان کے خلاف کارروائی کی پابند ہے
پنجاب کے صوبائی وزیر قانون نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا ”عمران ریاض سمیت جو بھی الیکٹرانک کرائم ایکٹ کی خلاف ورزی کرتا ہے قانون اس کے خلاف حرکت میں آتا ہے۔ اگر کوئی بے گناہ ہے تو وہ عدالتوں میں اپنی بے گناہی ثابت کرے۔ ہم کسی کے خلاف کسی انتقامی کارروائی پر یقین نہیں رکھتے اور آزادی صحافت پر یقین رکھتے ہیں“
واضح رہے کہ عمران ریاض خان کو منگل کے روز اٹک پولیس نے ’الیکٹرانک کرائم ایکٹ‘ اور دیگر چھ دفعات کے تحت گرفتار کیا تھا۔ ان پر سوشل میڈیا میں پاکستان فوج کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کا الزام ہے
انہیں اسلام آباد ٹول پلازہ سے پولیس نے گرفتار کیا تھا اور اٹک میں درج مقدمے پر گرفتاری کی گئی تھی
عمران ریاض کے بھائی عثمان ریاض کا کہنا ہے کہ انہیں فخر ہے کہ وہ عمران کے بھائی ہیں مگر عمران کے ساتھ اپنے ہی ملک میں جو کچھ سلوک کیا جارہا ہے وہ افسوس ناک ہے، انہوں نے ہمیشہ پاکستان سے محبت اور اداروں کے احترام کی بات کی ہے
دوسری جانب صحافی برادری بھی عمران ریاض کی گرفتاری پر تقسیم دکھائی دیتی ہے اسی لیے تحریک انصاف کی جانب سے تو ملک بھر میں ان کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کی کال دی گئی مگر اس بار روایت کے برعکس صحافتی تنظیموں نے محض رسمی بیانات پر ہی اکتفا کیا اور احتجاج کی باقاعدہ کوئی کال نہیں دی گئی
عمران ریاض کے خلاف مقدمات کی کارروائی
عمران ریاض کے وکیل میاں علی اشفاق کا کہنا ہے کہ عمران ریاض کو اسلام آباد ٹول پلازہ سے گرفتار کیا گیا اس کے بعد بتایا گیا کہ اٹک میں ان کے خلاف الیکٹرانک کرائم ایکٹ کے تحت درج مقدمہ میں گرفتاری کی گئی ہے۔ اٹک عدالت میں پیش کیا گیا تو عدالت نے مقدمہ خارج کرنے کا حکم دیا تو پولیس نے پھر گرفتارکیا کہ ان کے خلاف چکوال میں مقدمہ درج ہے آج جمعہ کو جب چکوال عدالت پیش ہوئے تو وہاں بھی مقدمہ میں ٹھوس شواہد نہ تھے
میاں علی نے کہاکہ آج چکوال عدالت کے سامنے عمران ریاض نے جج کے سامنے موقف اختیار کیا کہ ان کے خلاف من گھڑت مقدمات بنائے گئے ہیں، ملزم تو حاضر ہے مدعی کو سامنے لانے کا حکم دیا جائے جس کے بعد سرکاری وکیل نے مدعی کا نام بھی ایف آئی آر سے دیکھ کر بتایا مگر وہ خود موجود نہیں تھے
انہوں نے کہا تمام مقدمات صرف شناختی کارڈ کی بنیاد پر مدعی ظاہر کر کے درج کیے گئے ہیں۔ کسی مقدمہ میں باقاعدہ مدعی موجود نہیں، صرف درخواست گزاروں کے نام درج کر لیے گئے
ایک مقدمہ کے پی کے میں درج ہوا جو خارج کردیا گیا، تین مقدمات سندھ میں درج ہیں جبکہ سترہ مقدمات پنجاب کے مختلف شہروں میں درج کیے گئے ہیں
’ان مقدمات کی پیروی صرف پولیس اور حکومتی وکیل کر رہے ہیں ابھی تک کوئی مدعی سامنے نہیں آیا۔ نہ ہی کسی مدعی کو ہم جانتے ہیں اور کسی سے رابطہ بھی نہیں اور کسی نے خود پیش ہوکر الزامات کی تصدیق بھی نہیں کی ہے۔‘
میاں علی اشفاق کا کہنا تھا کہ عمران ریاض کو چکوال سے لاہور پولیس کی جانب سے حوالگی کی درخواست پر ان کے حوالے کر دیا اور خطرناک مجرموں کی طرح دس سے زائد گاڑیوں کا قافلہ انہیں لاہور لایا، جہاں انہیں تھانے میں بند کرکے کل بروز ہفتہ عدالت پیش کیا جائے گا
’اس کے بعد معلوم نہیں کس مقدمے میں گرفتاری مانگی جائے گی کیونکہ عید پر انہیں پولیس تحویل میں رکھنے کی نیت کا اندازہ ہوتا ہے‘
انہوں نے کہا کہ چکوال کی عدالت نے عمران ریاض خان کا جوڈیشل ریمانڈ منظور کر لیا ہے۔ ’ہم نےضمانت دائر کردی تھی، سماعت عید کی چھٹیوں کے بعد ہو گی، مختلف اضلاع میں عدالتی کاروائیاں اکٹھے چلیں گی۔‘
عمران ریاض کے بھائی عثمان ریاض نے کہا کہ ان کے بھائی کو حکومت تنقید کرنے پر انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے۔ ’افسوس ہے کہ ایسے شہری پر ملک کے خلاف بیان بازی کے مقدمات بنائے گئے جو محب وطن ہے اور ہمیشہ ملک اور اداروں کے احترام کی بات کرتا ہے۔ انہوں نے بیان میں کہاکہ میرے بھائی ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے صحافتی خدمات سرانجام دے رہے ہیں ان پر اس طرح کا کبھی کوئی الزام سامنے نہیں آیا۔ان کے حوصلے بلند ہیں تاہم اس بلاوجہ کارروائی سے اہل خانہ پریشان ہیں کہ کسی جرم کے بغیر ہی انہیں ایسی کارروائیوں کا نشانہ کیوں بنایا جارہاہے؟‘
صحافی برادری عمران کی گرفتاری پر تقسیم کیوں ہے؟
عمران ریاض کی گرفتاری کے بعد سابق وزیر اعظم عمران خان اور دیگر پی ٹی آئی رہنماؤں نے اس فعل کی مذمت کی اور ملک بھر میں ان سے اظہار یکجہتی کے لیے احتجاج کی کال دی اور احتجاج بھی کیا گیا لیکن صحافتی تنظیموں کی جانب سے اس کارروائی پر کوئی باقاعدہ کال نہیں دی گئی، تاہم بعض صحافیوں نے پی ٹی آئی کے احتجاج میں شرکت کر کے اظہار یکجہتی ضرور کیا ہے
صحافی سوشل میڈیا پر اپنے انداز میں ردعمل ضرور دے رہے ہیں۔ اینکر معید پیرزادہ کے مطابق ”عمران خان اینکر اب ایک شخص کا نام نہیں رہا بلکہ کئی کروڑ پاکستانیوں کی آواز ہے جسے دبانے کی خاطر تمام حکومتی مشینری استعمال کی جارہی ہے انسانی حقوق کو پامال کرنے کی ایک ایسی گھٹیا کوشش جس سے صرف پاکستان کا نام گندا ہوا ہے۔ دنیا بھر میں جہاں جہاں پاکستانی رہتے ہیں، وہاں اب دس دس سال کے بچے بھی پوچھ رہے ہیں کہ عمران ریاض خان کو کیوں گرفتار کیا ہے؟ کس نے کیا ہے؟ ماشااللہ عمران ریاض کی آواز کو دبانے والے کتنے ذہین نکلے! اسی کو کہتے ہیں اسٹریٹجی؟“
صحافی مطیع اللہ جان نے کہا ”عمران ریاض کی گرفتاری اور اس کو تکنیکی انداز سے ایک تھانے اور عدالت سے دوسرے تھانے اور عدالت کی حدود میں بار بار لے کر جانا قانون، انصاف اور انسانی حقوق کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے، اگر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے پاس ان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہیں تو پھر اپنی نالائقی کی مزید نمائش اب بند کریں“