معاشی بحران کے شکار ملک سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو میں ہزاروں مظاہرین نے ہفتے کو پولیس سے جھڑپوں کے بعد رکاوٹیں توڑ کر صدارتی محل پر دھاوا بول دیا
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مظاہرین سری لنکا کے پرچم تھامے ’گوٹا گھر جاؤ‘ کے نعرے لگاتے صدارتی محل کے اندر داخل ہو گئے،تاہم اس سے قبل ہی اپنی سرکاری رہائش گاہ سے نکل چکے تھے
یہ احتجاج معاشی اور سیاسی بحران میں گھرے ملک میں سب سے بڑے حکومت مخالف مارچ میں سے ایک ہے
دو کروڑ بیس لاکھ آبادی پر مشتمل یہ ملک 1948ع میں آزادی کے بعد سے بدترین معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ سری لنکا نہ صرف غیر ملکی زرمبادلہ کی شدید قلت سے نبرد آزما ہے بلکہ یہاں ایندھن، خوراک اور ادویات کی ضروری اشیا بھی معدوم ہیں
بہت سے لوگ ملک کے معاشی زوال کا ذمہ دار صدر گوتابایا راجا پاکسے کو ٹھہراتے ہیں
مقامی نشریاتی ادارے ’نیوز فرسٹ‘ پر جاری وڈیو فوٹیج میں کچھ مظاہرین کو سری لنکا کے پرچم تھامے اور ہیلمٹ پہنے صدارتی محل کے اندر گھستے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے
اطلاعات کے مطابق صدر راجا پکشے محفوظ مقام پر منتقل ہو گئے ہیں۔ تاہم ابھی تک صدر کہاں ہیں اس بارے میں کوئی مصدقہ اطلاع نہیں ہے
محکمہ دفاع سے منسلک ایک سینئیر اہلکار نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ کو محفوظ مقام پر لے جایا گیا ہے، وہ اب بھی صدر ہیں اور فوجی یونٹ ان کی حفاظت کر رہا ہے
روئٹرز فوری طور پر صدر کے نئے ٹھکانے کی تصدیق نہیں کر سکا
صدارتی محل کے اندر سے ایک فیسبک لائیو اسٹریم میں سینکڑوں مظاہرین کو دیکھا جا سکتا ہے، جن میں سے کچھ محل کے کمروں اور راہداریوں میں راجا پاکسے کے خلاف نعرے لگا رہے تھے
نوآبادیاتی دور میں تعمیر کیے گئے صدارتی محل کی سفید عمارت کے باہر بھی سینکڑوں لوگ گراؤنڈ پر موجود تھے، تاہم وہاں کوئی سکیورٹی اہلکار نظر نہیں آیا
منظر عام پر آنے والی وڈیو فوٹیج میں مظاہرین صدراتی دفتر میں کرسیوں پر بیٹھے اور سوئمنگ پول میں نہاتے ہوئے نظر آ رہے ہیں
ایک عینی شاہد نے روئٹرز بتایا ’کولمبو میں ہزاروں افراد نے صدر کے خلاف نعرے لگائے اور راجا پاکسے کے گھر تک پہنچنے کے لیے پولیس کی کئی رکاوٹیں توڑ دیں۔‘
دوپہر ایک بجے کے قریب مظاہرین صدر کی سرکاری رہائش گاہ میں داخل ہونا شروع ہوئے۔ کچھ مظاہرین مین گیٹ پر چڑھ کر احاطے میں داخل ہوئے۔ احتجاجی مقام پر فوج کے جوان بھی تعینات ہیں۔ پولیس نے مظاہرین کو روکنے کے لیے کرفیو لگا دیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق مظاہرین کی بڑی تعداد گال کرکٹ سٹیڈیم کے باہر بھی جمع ہو گئی، جہاں سری لنکا اور آسٹریلیا کے درمیان ٹیسٹ میچ کھیلا جا رہا تھا
عینی شاہد نے مزید بتایا ’پولیس نے ہوا میں گولیاں چلائیں لیکن مشتعل ہجوم کو صدر کی رہائش گاہ کا گھیراؤ کرنے سے روکنے میں ناکام رہی‘
ہسپتال ذرائع نے روئٹرز کو بتایا کہ تازہ مظاہروں میں دو پولیس اہلکاروں سمیت کم از کم 21 افراد زخمی ہوئے، جنہیں ہسپتال منتقل کردیا گیا
ایندھن کی شدید قلت کے باوجود مظاہرین ملک کے کئی حصوں سے بسوں، ٹرینوں اور ٹرکوں میں سوار ہو کر کولمبو پہنچے تاکہ وہ ملک کو معاشی تباہی سے بچانے کے لیے حکومت کے خلاف احتجاج کا حصہ بن سکیں
حالیہ ہفتوں میں عوام کا غصہ مزید بڑھ گیا ہے کیونکہ رقم کی کمی کے شکار اس ملک میں ایندھن کی ترسیل روک گئی ہے اور اسی وجہ سے حکومت کو اسکول اور ضروری خدمات کے ادارے بھی بند کرنا پڑے ہیں
سری لنکا کا معاشی بحران وہاں کے زرمبادلہ کے ذخائر میں تیزی سے کمی کی وجہ سے پیدا ہوا۔ بہت سے لوگوں کا الزام ہے کہ یہ وہاں کی حکومت کی معاشی بد انتظامی اور کورونا کی وبا کے اثر کی وجہ سے ہوا ہے
غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کی کمی کی وجہ سے سری لنکا ضروری اشیا درآمد کرنے سے قاصر ہے جس میں تیل، کھانے پینے کی اشیا اور ادویات جیسی چیزیں شامل ہیں
رواں برس مئی میں وہ تاریخ میں پہلی بار اپنے قرض کی قسط ادا کرنے میں ناکام رہا۔ پھر اسے 78 ملین ڈالر ادا کرنے تھے لیکن تیس دن اضافی دینے کے باوجود وہ ادا نہیں کر سکے
سری لنکا اس وقت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ، آئی ایم ایف سے تقریباً 3.5 بلین ڈالر کی بیل آؤٹ رقم کا مطالبہ کر رہا ہے، جس کے لیے وہ بات چیت کر رہا ہے
سری لنکا کی حکومت کا کہنا ہے کہ اسے اس سال آئی ایم ایف سمیت عالمی برادری سے پانچ بلین ڈالر کی امداد کی ضرورت ہے۔