”میرے پاس ایک پشتون خاتون شکایت لے کر آئیں کہ مجھے جاوید اقبال نے کہا ہے کہ تمہیں شوہر کی کیا ضرورت ہے، تم تو اتنی خوبصورت ہو“
”میں نے بطور سابق چیف جسٹس کئی بار اپنے ساتھی جج صاحبان کو ہاتھ پکڑ کر متوجہ کیا کہ کسی سے بھی اور خاص کر کسی خاتون کے لیے عدالت میں ایسی زبان استعمال کرنا مناسب نہیں ہے۔ ان کو کوئی خوف نہیں ہوتا کہ ان کے خلاف کوئی کارروائی کی جائے گی“
”میرے ساتھ تو ایسا نہیں ہوا لیکن ایک جج نے خواتین وکلا کے جوتوں پر اعتراض کرتے ہوئے بھری عدالت میں کہا یہ کمرہ عدالت میں ٹِک ٹِک کرکے مت آیا کریں پلیز!“
یہ تمام تر باتیں ان لوگوں کی کہی ہوئی ہیں جنہوں نے حال ہی میں مختلف نیوز چینلز سے بات کرتے ہوئے چند ایسے واقعات کی نشاندہی کی ہے، جہاں موجود ججز نے عدالت یا کمیشن کو رجوع کرنے والی خواتین، یا خواتین وکلا کے بارے میں ایسے کلمات کہے ہیں جو ہراسانی کے زمرے میں آتے ہیں
لیکن ان کلمات کے بارے میں سوشل میڈیا پر شور مچانے کے علاوہ کیا کیا جا سکتا ہے؟ کیا کسی جج کو عدالت میں کہی گئی باتوں کے نتیجے میں سزا دی جا سکتی ہے؟
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق اس حوالے سے زیادہ تر وکلا کا کہنا ہے کہ ایسا کوئی قانون نہیں ہے، جس کی بنیاد پر کسی جج کے خلاف کارروائی کی جا سکے۔ لیکن ماضی میں چند ایسے واقعات ضرور پیش آئے ہیں جہاں ججوں کو نوکری سے یا تو فارغ کیا گیا ہے یا پھر انہیں استعفیٰ دینے کو کہا گیا ہے
ان میں سے ایک مثال حالیہ دنوں کی ہے۔ جس میں جبری طور پر گمشدہ کیے گئے افراد کے کمیشن کے چیئرمین جاوید اقبال کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کے ساتھ ساتھ انہیں حالیہ الزامات کا جواب دینے کو بھی کہا گیا ہے
اب اطلاعات ہیں کہ پی اے سی انہیں اپنے عہدے سے برطرف کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے
واضح رہے کہ سالوں سے جبری طور پر گمشدہ افراد کی بازیابی کے لیے سرگرم سماجی کارکن آمنہ مسعود جنجوعہ نے گزشتہ دنوں جیو کے ایک پروگرام میں کہا تھا کہ کس طرح اپنے شوہر کی تلاش میں آئی ایک پشتون خاتون کو موجودہ کمیشن کے سربراہ نے مبینہ طور پر کہا کہ ”تمہیں شوہر کی کیا ضرورت ہے؟“
اسی طرح طیبہ گل نے نیب کے سابق چیئرمین جاوید اقبال کے خلاف مئی 2019ع میں ہراسانی کا الزام لگایا تھا۔ لیکن حال ہی میں ایک پروگرام میں انہوں نے کہا کہ کس طرح ان کی طرف سے وڈیو ثبوت کا غلط استعمال کیا گیا۔ اور ان کی اجازت کے بغیر ان وڈیوز کو میڈیا کو بھی دیا گیا
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کی جج ماہ رُخ تارڑ کہتی ہیں ”ایسے کسی بھی واقعے کے بعد خواتین وکلا کو بٹھا کر اخلاقیات پر لیکچر دیا جاتا ہے۔ یہی اخلاقیات کا سبق کسی مرد جج کو کیوں نہیں دیا جاتا؟“
انہوں نے کہا ”جج کے عہدے کا ویسے ہی خاصا رعب ہوتا ہے اور ایک جج کے عہدے پر ہونے کے بعد اگر آپ ان لوگوں کے ساتھ ایسی زبان کا استعمال کریں، جو آپ کے پاس اپنی فریاد لے کر آئے ہیں تو یہ بہت غلط ہے۔ کیونکہ یہ ہراسانی کسی راہ چلتے کی طرف سے نہیں بلکہ ایک جج کی طرف سے ہو رہی ہے“
اس حوالے سے ایڈووکیٹ رمشا کامران کہتی ہیں ”حالانکہ اس بات کو بہت اہمیت نہیں دی جاتی لیکن ایک جج کا طرزِ عمل بہت معنی رکھتا ہے کیونکہ اس سے انصاف کے حصول کے لیے عدالت آنے والے لوگ جج کی سنجیدگی کے ساتھ ساتھ عدالتی نظام کا بھی اندازہ لگا لیتے ہیں اور نتیجتاً ذاتی نوعیت کے جملے کسنے سے، جو لوگ عدالت آنا چاہتے ہیں، وہ بھی پھر نہیں آتے“
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ایک سابق چیف جسٹس نے بتایا کہ کس طرح سے انہیں اپنے ساتھی ججوں کو جنسی تعصب پر مبنی جملے کسنے سے روکنا پڑتا تھا
انہوں نے کہا ”آپ کو یقین نہیں آئے گا کہ اکثر جج صاحبان عدالت میں آئی خواتین کو کیا کچھ بول جاتے تھے اور سامنے کھڑے لوگ جو ان کے ہر ایک جملے کو بغور سنتے ہیں ان کی کتنی دل آزاری ہوتی تھی۔ ایک بار مجھے اپنے ساتھی جج کا ہاتھ پکڑ کر ان کو متوجہ کرنا پڑا کہ بھائی ایسی بات نہ کرو۔ لیکن ظاہر ہے انہیں پتا ہے کہ ان کے خلاف کوئی کچھ نہیں بولے گا۔ یہ کرسی اور اس کے ساتھ ملنے والی طاقت زیادہ دیر نہیں رہتی، اور اس بات کا اندازہ بہت سے لوگوں کو دیر سے ہوتا ہے“
ان واقعات کے بارے میں جسٹس ریٹائرڈ ناصرہ اقبال کہتی ہیں ”کوئی قانون واضح طور پر نہیں کہتا کہ جج کے خلاف کیا کیا جائے۔ جج بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔ اور حالانکہ میرے ساتھ ایسا نہیں ہوا، لیکن جو لوگ سامنے آکر شکایت کر رہے ہیں انہیں سننا چاہیے اور جن کے خلاف الزامات ہیں ان سے بھی پوچھنا چاہیے“
انھوں نے کہا ”عدالتوں میں خواتین کی نمائندگی بھی بہت ضروری ہے. اس وقت تو خواتین ججوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ 2010ع میں جہاں ہر جگہ ہراسانی کی شکایات سننے کے لیے کمیٹیاں بنائی گئیں وہیں عدالتوں میں ایسے کسی معاملے سے نمٹنے کے لیے آج بھی خاصا طویل مرحلہ ہے اور جو لوگ کمیٹیوں میں گئے ہیں، وہ ان معاملات کے دیر سے نمٹنے کی وجہ سے کمیٹی میں دوبارہ نہیں جاتے اور چپ ہوجاتے ہیں“