یارک یونیورسٹی، میک گل یونیورسٹی اور انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس ایجوکیشن کے سائنسدانوں نے ایک ایسا سیارہ دریافت کیا ہے جہاں بارش میں پانی نہیں، بلکہ پتھریلی چٹانیں برستی ہیں، تحقیق کے مطابق اس آتش فشانی سیارے میں خطرناک اور طوفانی ہوائیں پانچ ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی ہیں
ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ سائنسدانوں کے مطابق 2۔141 بی نامی اس آتش فشانی سیارے میں چٹانوں کی بارش ہوتی ہے، یارک یونیورسٹی کے محققین نے ایک کمپیوٹر سمولیشن کے ذریعے اس منفرد سیارے کے موسم اور ماحول کی پیشگوئی کی ہے
یہ سیارہ اپنے میزبان ستارے کے بہت زیادہ قریب واقع ہے اور اس کا دو تہائی حصہ آگ برساتی روشنی کی زد میں، جبکہ اس کا تاریک حصہ سرد رہتا ہے
مذکورہ تحقیق کے نتائج جریدے "منتھلی نوٹسز آف دی رائل آسٹرونومیکل سوسائٹی” میں شائع ہوئے ہیں۔
تحقیق کے مطابق اس سیارے میں ایک لاوے کا سمندر بھی بہتا ہے جس کی گہرائی 62 میل ہوسکتی ہے، جب کہ اس کی سطح پر 3100 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سپر سونک ہوائیں چلتی ہیں
سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ تمام چٹانی سیارے بشمول زمین آغاز میں پگھلی ہوئی دنیائیں تھیں جو بہت تیزی سے ٹھنڈی ہوکر ٹھوس شکل اختیار کر گئیں، آتش فشانی سیارے ہمیں اس ارتقائی عمل کی نایاب جھلکیاں فراہم کرتے ہیں
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کمپیوٹر سمولیشنز میں عندیہ ملا ہے کہ کے 2۔141 بی میں چٹانوں کی بارش ہوتی ہے کیونکہ یہاں معدنیاتی بخارات چٹانوں کو سپرسانک ہواؤں کے ذریعے اڑا دیتے ہیں اور پھر چٹانوں کی بارش لاوے پر برستی ہے
محققین کو توقع ہے کہ اگلی نسل کی دوربینوں سے وہ اس سیارے کا قریب سے مشاہدہ کرنے کے قابل بن جائیں گے اور تصدیق ہو سکے گی کہ یہ کمپیوٹر سمولیشنز کس حد تک مستند ہیں
اس حوالے سے ناسا کی جیمز ویبب اسپیس ٹیلی اسکوپ اہم ہوگی، جو 2021ع میں کام شروع کرے گی. واضح رہے کہ یہ یہ زمین کے حجم کا سیارہ ہے جس پر ٹھوس سطح، سمندر اور ماحول ہے، جو چٹانوں سے بنا ہے۔