عبدالغفار کو جوں ہی پاکستان تحریک انصاف کی سابقہ حکومت کی اسکیم ’میرا گھر میرا پاکستان‘ سے قرض کی منظوری ملی، انہوں نے گھر تلاش کرنا شروع کردیا۔ کئی ماہ بعد جب انہیں اپنا من پسند گھر ملا تو اب اسٹیٹ بینک نے قرضہ دینے سے ہی معذرت کر لی ہے
کراچی سے تعلق رکھنے والے عبدالغفار بتاتے ہیں ”اس اسکیم کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ جن کا کوئی گھر نہیں ہے یہ اسکیم ان کے لیے لانچ کی گئی تھی۔ مگر گھر بنانے والوں کا خواب اب خواب ہی رہ جائے گا۔ تین ماہ اور بیس گھروں کو دیکھنے کے بعد مجھے اپنا من پسند گھر ملا مگر اب قرضہ نہ ملنے کے باعث میں گھر کا بیانہ نہیں دے سکتا۔ اتنی مشکلوں سے ملنے کے بعد وہ گھر میرے ہاتھ سے چلا گیا“
واضح رہے کہ گذشتہ سال اکتوبر میں پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے آسان ماہانہ اقساط اور سبسڈائزڈ یعنی کم شرح سود پر مبنی ہاؤسنگ منصوبے کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس منصوبے کے تحت اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ملک کے اکیس کمرشل بینکوں کے ساتھ مل کر لوگوں کو گھر بنانے کے لیے قرضے دینے کا آغاز کیا تھا
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی ویب سائٹ کے مطابق ’میرا گھر میرا پاکستان‘ اسکیم کو گذشتہ حکومت اور نیا پاکستان ہاؤسنگ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے اشتراک سے شروع کیا گیا تھا
اس منصوبے کے تحت درخواست دہندگان نہ صرف مکان یا فلیٹ خریدنے کے لیے قرض لے سکتے تھے بلکہ گھر بنانے کے لیے خالی پلاٹ کی خریداری، خالی پلاٹ پر نئے مکان کی تعمیر، تعمیر شدہ گھر میں اضافی تعمیراتی کام یا ذاتی خالی پلاٹ پر نئے مکان کی تعمیر کے لیے بھی قرضہ لیا جا سکتا تھا
اسٹیٹ بینک کے مطابق یہ اسکیم ان پاکستانی شہریوں اور اوورسیز پاکستانوں کے لیے شروع کی گئی تھی، جو کہ پہلی بار اپنا گھر تعمیر کر رہے تھے۔ اس اسکیم کے تحت ایک کروڑ روپے تک قرض مل سکتا تھا۔ قرضہ چکانے کی مدت پانچ سے بیس سال تھی
شروع کے پانچ سالوں کی قسطوں میں شرح سود صرف تین سے سات فیصد تھی۔ کم سے کم ماہانہ قسط تین ہزار تین سو روپے اور زیادہ سے زیادہ لگ بھگ ساڑھے ستاسی ہزار روپے تھی
البتہ نئی حکومت آنے کے بعد رواں سال 30 جون کو اسٹیٹ بینک کے ڈائریکٹر ڈاکٹر میاں فاروق حق کی جانب سے ایک نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا، جس میں ان کا کہنا تھا ”موجودہ حکومت میرا گھر میرا پاکستان اسکیم کو ’ملک کے وسیع طر معاشی مفاد‘ میں 31 اگست 2022 تک معطل کر رہی ہے۔ اس دوران حکومت اس اسکیم کے نکات اور خصوصیات پر غور کرے گی“
نوٹیفکیشن میں مزید کہا گیا ”تاہم وہ افراد جنہیں 30 جون 2022 تک اپنے قرض کی آدھی رقم مل چکی ہے صرف انہیں باقی رقم دی جائے گی۔ دیگر درخواستوں پر دو ماہ کے بعد غور کیا جائے گا“
کراچی کے رہائشی عبدالغفار کا کہنا ہے ”میں نے وہ گھر اپنی والدہ کو بھی دکھا دیا تھا اور انہیں وہ بہت پسند آیا تھا۔ میں نے اس گھر کے مالک سے تمام معاملات طے کر لیے تھے۔ میں اپنی جیب سے گھر کی ٹوکن منی بھی دے چکا تھا“
انہوں نے کہا کہ ان کے ہاؤسنگ لون کا کیس بینک کے لیگل ڈپارٹمنٹ میں منظوری کے لیے گیا ہوا تھا
عبدالغفار کہتے ہیں ”میرا گھر لینے کا خواب پوری طرح مکمل ہوچکا تھا، سب کچھ تیار تھا، لیکن اب اچانک سے 30 جون کو اسٹیٹ بینک کا نوٹیفیکیشن آیا تو مجھے یقین نہیں آیا کہ اس حکومت نے ایسا کیوں کیا؟“
انہوں نے کہا ”حکومت تبدیل ہونے کے بعد بھی اسے جاری رکھ سکتی تھی۔ مجھے 20 اپریل کو بینک سے رقم کی منظوری ملی اور صرف نوے دنوں کا وقت ملا گھر تلاش کرنے کے لیے۔ جب یہ تمام وقت گزر گیا تو حکومت نے اسکیم ہی روک دی“
انہوں نے کہا کہ دیگر کمرشل بینکوں کے ہاؤس لون اور ہاؤس بلڈنگ فائنانس کی شرح سود اس قدر بلند ہے کہ عام آدمی اسے برداشت ہی نہیں کر سکتا
’میرا گھر میرا پاکستان‘ منصوبے کے ابتدائی مرحلے کے حوالے سے گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر کہنا تھا ’ابتدائی مرحلے میں بینکوں نے اس پروجیکٹ کے لیے آنے والی درخواستوں پر 109 ارب روپے قرضوں کی منظوری دی تھی۔ تقریبا 260 ارب روپے سے زائد مالیت کی درخواستیں آئی تھیں۔ ہر ہفتے تقریباً 1.7 ارب روپے قرض کی رقم تقسیم کی جاتی تھی“
رواں سال مارچ میں اسٹیٹ بینک کے کمرشل بینکوں کے ساتھ مل کر مختلف شہروں میں کئی میلے بھی سجائے تھے، جہاں لاکھوں لوگوں نے آکر اس اسکیم کی معلومات حاصل کی تھیں، درخواستیں جمع کروائی تھیں
اسی طرح کا ایک میلہ پنجاب کے شہر فیصل آباد میں بھی منعقد کیا گیا تھا، جس میں شرکت کرنے والے ایک شہری نوید احمد نے بتایا ”جب حکومت نے پہلی دفعہ گھر بنا کر دینے کے لیے درخواستیں مانگی تھیں تو میں نے اس وقت درخواست دی تھی لیکن ابھی تک اس کا کوئی رسپانس نہیں آیا“
ان کا کہنا تھا ”اب لاگت یا لیبر کے اخراجات میں تقریباً 40 فیصد سے زائد فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ ابھی دو ماہ پہلے ایک دوست نے 625 روپے میں سیمنٹ کی بوری خریدی تھی، کل وہ بتا رہا تھا کہ اب بوری 890 روپے کی ہو گئی ہے۔ اس طرح روزانہ کی بنیاد پر ہر چیز کی قیمت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے حالات میں سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ کسی کو کیا پلاٹ لینا ہے اور کیا گھر بنانا ہے“
معاشی و کاروباری امور کے ماہر سمیع اللہ طارق کہتے ہیں ”ملک کے دیگر کمرشل بینکوں یا ہاؤس بلڈنگ فائنانس کی ہاؤسنگ اسکیموں میں پہلے پانچ سالوں میں شرح سود تقریبا 18 سے 19 فیصد ہوتی ہے۔ مگر ’میرا گھر میرا پاکستان‘ اسکیم میں یہ شرح صرف تین سے سات فیصد تھی
انہوں نے مزید کہا ”بیس لاکھ کے قرض پر بھی ماہانہ قسط صرف گیارہ ہزار روپے بنتی۔ واقعی یہ اسکیم ایک عام آدمی کے لیے بہت سستی تھی“
ان کے خیال میں حکومت اس اسکیم کو اس لیے جاری نہیں رکھ سکتی کیوں کہ اس وقت ہماری ملکی سیاسی صورت حال صحیح نہیں ہے۔ بقول ان کے، اس وقت حکومت کوئی بھی ایسا منصوبہ برداشت نہیں کر سکتی جس سے عوامی طلب میں اضافہ ہوتا ہو کیونکہ حکومت اس وقت عوام کو پیسے دینے کی حالت میں نہیں ہے
سمیع اللہ طارق کے بقول ”گذشتہ حکومت نے اس منصوبے میں شرح سود سات فیصد طے کی ہوئی تھی مگر اب شرح سود میں کافی اضافہ ہوگیا ہے اس لیے حکومت کے لیے ممکن نہیں کہ پرانے ریٹس پر لوگوں کو قرض دے۔ اگر یہ اسکیم دوبارہ شروع ہوگئی تو ماہانہ اقساط بھی پہلے سے کافی زیادہ ہوں گی“
وہ کہتے ہیں ”بہت سے لوگ تو اہلیت کے معیار سے ہی باہر نکل جائیں گے۔ پہلے اس اسکیم میں درخواست دہندہ کی کم از کم آمدنی صرف پچیس روپے ہونا تھی۔ مگر اب شرح سود بڑھ جانے کے بعد اہلیت کا معیار اور کم از کم آمدنی کا معیار بھی کافی بڑھ جائے گا“
یاد رہے کہ اسٹیٹ بینک نے 30 جون ایک اور نوٹیفیکیشن جاری کیا تھا، جس کے مطابق ’میرا گھر میرا پاکستان‘ منصوبے کے ساتھ پی ٹی آئی حکومت کی ایک اور سبسڈائزڈ اسکیم ’کامیاب جوان‘ سکیم کو بھی ’ملک کے وسیع طر معاشی مفاد‘ میں 15 جولائی تک معطل کردیا گیا ہے۔