ہرنوں کا شکار، تھر کے نوجوان اتم سنگھ کو آخر کیا سوجھی؟

ویب ڈیسک

اتم سنگھ کو کیا پڑی تھی کہ وہ ہرن کے شکاریوں کی جیپوں کا پیچھا کرتا، پھر اپنی جیپ ان کی جیپ سے ٹکرا کر انہیں روکتا، اپنی ذاتی جیپ کا نقصان کراتا اور اگر شکاریوں کی فائرنگ میں اس کی جان چلی جاتی تو حکومت زیادہ سے زیادہ کیا کر لیتی؟ ایک دو لاکھ اس کے اہل خانہ کو دیتے، چند دن اس کا یہ کارنامہ ٹی وی چینلز اور اخبارات کی زینت بنتا اور پھر سب کچھ بھلا دیا جاتا

لیکن اگر اتم سنگھ بھی یہ ساری باتیں سوچتے تو کیا ہوتا؟ ہوتا یہ کہ کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہوتی کہ صحرائے تھر میں دھڑلے سے ہرنوں کا غیر قانونی شکار جاری ہے۔ اگر مقامی افراد کی بات پر جائیں تو ان کے مطابق یہ غیر قانونی شکار چند ہفتوں یا مہینوں سے نہیں بلکہ کئی سالوں سے ہو رہا ہے

اس ست قبل بھی تھر کے مقامی لوگوں نے کئی بار ان شکاریوں کا تعاقب کیا اور پکڑنے کی کوشش کی لیکن ناکامی ہوئی

وہ کام جو محکمہ جنگلی حیات کے کرنے کا تھا اس کام کی ذمہ داری مقامی افراد نے اپنے کندھوں پر لی ہوئی ہے، کیونکہ مقامی لوگوں کے مطابق محکمے کے لوگ اول تو اس بات کو ماننے کے لیے تیار ہی نہیں تھے کہ شکار ہو رہا ہے اور دوسرے یہ کہ ان کے پاس اتنے وسائل ہی نہیں کہ وہ اس غیر قانونی شکار کی روک تھام کے لیے اقدامات لے سکیں

تو پھر کیا کیا جاتا؟ وہی جو مقامی افراد نے کیا اور جس کے نتیجے میں اتم سنگھ نے علاقہ مکینوں کے ساتھ مل کر ان شکاریوں کو پکڑ لیا جنہوں نے سات ہرنوں کا شکار کیا

واضح رہے کہ تھر میں جس جنگل میں ہرنوں کا شکار کیا گیا اس کو تحفظ حاصل ہے

صحرائے تھر میں رنگلیو گاؤں اور آس پاس کے دیہاتوں کے مکینوں نے اپنی مدد آپ کے تحت یہ فیصلہ کیا کہ جنگل میں کوئی مشکوک سرگرمی یا رات کو گاڑی کی کوئی روشنی نظر آئی یا فائر ہوا تو ایک دوسرے کو فوری آگاہ کریں گے

پاکستان کی وزارت موسمیاتی تبدیلی کی جانب سے کرائے گئے سروے کے مطابق خیبر پختونخوا کے علاقے منگلوٹ، کالاباغ، پنجاب کے صحرائے چولستان سے لے کر سندھ کی کھیرتھر کی پہاڑیوں کے علاقوں میں چنکارا ہرن ہیں۔ اس کے علاوہ سبی کے میدانی علاقوں مکران، تربت اور لسبیلہ میں بھی چنکارا ہرن موجود ہیں۔ لیکن ان کی تعداد محض 585 ہے

ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق چنکارا ہرن ریتیلے اور پہاڑی و میدانی علاقوں میں پائے جاتے ہیں اور ان کی تعداد میں واضح کمی ہو رہی ہے

ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق 1983ع میں پسنی اور اوڑماڑہ کے درمیان دس سے بارہ چنکارا ہرن نظر آ جاتے تھے لیکن پانچ سال کے اندر ہی ان کا اتنا شکار کیا گیا کہ اسی علاقے میں مشکل ہی سے کوئی چنکارا ہرن دکھائی دیتا ہے

تاہم وائلڈ لائف ماہرین کا خیال ہےکہ چنکارا ہرن کی تعداد تقریباً تین ہزار تک ہے کیونکہ چنکارا ہرن کی بڑی تعداد چڑیا گھروں، وائلڈ لائف پارکس میں ہے

بین الاقوامی تنظیم انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر (آئی یو سی این) کا کہنا ہے کہ چنکارا ہرن کو معدومیت کا خطرہ لاحق نہیں ہے کیوں کہ دنیا بھر میں اس کی تعداد کافی ہے

لیکن بدقسمتی سے دو دہائیوں سے بڑھتے ہوئے موسمی تبدیلی کے اثرات اور انسانی وجوہات کی وجہ سے صحرائے تھر کی جنگلی حیات اور ماحولیات خطرے میں ہیں

ایک طرف قحط کی وجہ سے بھوک اور پیاس ہے دوسری طرف غیر قانونی شکار کے باعث جنگلی جانور خاص طور پر چنکارا ہرن کی نسل خطرے میں ہے۔ موسمی تبدیلی کے باعث تھر میں کنڈی، کونبھٹ کے ساتھ پیلو، تھوہر، باؤری، گگرال کے درخت تیزی سے ختم ہوتے جا رہے ہیں

ان درختوں کے جنگلات چنکارا کی رہائش ہوا کرتے تھے اور ان درختوں کے نیچے گھاس چنکارا کی خوراک

صحرائے تھر میں چند سال قبل بدترین قحط سالی دیکھی گئی۔ بارش نہ ہونے کے باعث انسان اور جنگلی حیات دونوں ہی بری طرح متاثر ہوئے۔ بارش صحرائے تھر میں نعمت ہے۔ بارش ہوتے ہی تھر کا صحرا ہریالی کی چادر اوڑھ لیتا ہے اور یہ ہریالی انسانوں اور جنگلی حیات دونوں ہی کے لیے اچھے وقت کی نوید ہوتی ہے۔ بارش کے ساتھ ہی بہت سے جانوروں کا میٹنگ سیزن کا آغاز بھی ہو جاتا ہے

لیکن اس ہریالی کے ساتھ شکاری بھی فعال ہو جاتے ہیں۔ صحرائی لوگوں کے پاس روایت ہے کہ صحرا میں چنکارا بارش کا پانی پیتا ہے اور جہاں قدرتی تالاب واقع ہیں وہ وہاں ضرور آتے ہیں اور شکار ہو جاتے ہیں

صحرائے تھر کے لوگ اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر ان سات ہرنوں کو بچا تو نہ سکے لیکن انہوں نے ان شکاریوں کو پکڑ کر کم از کم آنے والے کئی عرصے تک کئی دیگر ہرنوں کو ضرور بچا لیا ہے

واضح رہے کہ 2017ع سے نو سو چالیس کلومیٹر کے تھرپارکر میں ہرن اور پرندوں کے شکار پر پابندی عائد ہے اور اس علاقے کو چنکارا وائلڈ لائف سینکچوئری کا نام دیا گیا ہے۔ شکار پر پابندی شمال میں وجاٹو سے لے کر چیلہار تک اور مشرق میں چیلہار سے لے کر بھوریلو تک، جنوب میں بھوریلو سے لے کر مٹھی تک اور مغرب میں مٹھی سے لے کر وجاٹو تک یہ پابندی عائد ہے

علاقہ مکینوں کی جانب سے شکاریوں کو روکنے کی کوشش سے ممکن ہے کہ آئندہ وہ کچھ عرصے کے لیے شکار کے لیے تھرپارکر کا رخ نہ کریں، لیکن انسان اسی وقت غیر قانونی کام کرتا ہے جب اس کو اس بات کی یقین دہانی ہو یا قوی یقین ہو کہ اس کا کوئی بال بیکا نہیں کر سکتا۔ اب ان لوگوں کو معلوم ہو گیا ہے کہ محکمے کے لوگوں کے ساتھ تو شاید ہاتھ ملایا جا سکتا ہے لیکن یہاں کی مقامی آبادی جو صحرائے تھر کے ہرن اور موروں کا تحفظ اپنا فرض سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اسی علاقے کے باسی ہیں کسی بھی ایسے فرد سے ہاتھ نہیں ملائیں گے جو انہی کےعلاقے کے باسی کا شکار کرنے آئے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close