ملمع کار آپو رستم، جن کے بعد اسکردو کے برتنوں کی چمک ماند پڑ جائے گی۔۔۔

ویب ڈیسک

گلگت بلتستان کے شہر اسکردو کی حیدری مارکیٹ کے آخری نکڑ کے قریب چھوٹی سی دکان میں ایک شخص گذشتہ تیس برس سے روزی روٹی کے لیے صبح سے شام تک آگ میں اپنی انگلیاں جلا رہا ہے

یہ آپو رستم ہے، جو پرانے برتنوں میں ملمع کاری کا کام کرتا ہے جس میں آگ کی تپش بنیادی ضرورت ہے۔ آپو رستم اور برتنوں کی زیبائش کی کہانی بڑی طویل اور دلچسپ ہے

آپو رستم کا کہنا ہے ”ہمارے آبا و اجداد میں سے دو افراد کو راجہ کھرمنگ نے زیورات، سماوار، طبریل بنانے، برتنوں کی ملمع کاری اور کلہاڑی، تیشے کا کام سیکھنے کے لیے کشمیر بھیج دیا تھا۔ واپس آ کر ایک دادا میاردو گاؤں میں آباد ہوا اور ایک کے ذمے میں رومبو کھانگ کھرمنگ کا علاقہ آیا اور وہ وہیں بس گیا“

آپو رستم کے مطابق ان کے آبا و اجداد کو قدیم زمانے میں لداخ کے گاؤں استرق چن سے راجہ کھرمنگ نے لاکر میاردو میں بسایا تھا۔ رستم کی عمر اس وقت ستر سال ہونے کو ہے اور انہیں اپنے پچھلے پانچ پشت نسب کے نام زبانی یاد ہیں جو اس کام سے منسلک رہے تھے

ان کے مطابق میاردو میں جو دادا آباد ہوئے ان کے حصے میں ’گربا‘ یعنی لوہار اور برتن قلعی کرنے کا کام تھا جبکہ جو دادا کھرمنگ خاص گئے ان کے حصے میں ’سیزگر‘ یعنی سنار، زیورات بنانے کا کام آیا

بلتستان میں محفل اور دعوت کے برتن علیحدہ اور مخصوص ساخت کے ہیں۔ بڑے گھروں میں، خانقاہوں، امام بارگاہوں، مساجد اور شادی بیاہ میں سبز چائے پیش کرنے کے لیے جو چائے دان استعمال ہوتا ہے وہ ’ساموار‘ کہلاتا ہے جو دراصل سماوار ہے اور اس کا اصل وطن تو کوہ قاف روس ہے وہاں سے کشمیر کے راستے بلتستان و لداخ میں متعارف ہوا اور یہیں کا ہو کر رہ گیا ہے۔ اس کے پیندے میں آگ کے انگارے ڈالے جاتے ہیں جبکہ اوپری بیضوی حصے میں سبز چائے جسے انگاروں کی تپش سے گرم رکھا جاتا ہے

’طبریل‘ دوسرا چائے دان ہے، جس کی شکل سماوار سے قدرے مختلف ہوتی ہے اور یہ مخروطی شکل کا ہوتا ہے اور ڈیزائن نہایت دیدہ زیب ہوتا ہے۔ اس میں بھی سبز چائے اور بعض اوقات قہوہ بھی ڈالا جاتا ہے۔ دونوں چائے دان میں دیدہ زیب گل کاری کی جاتی ہے۔ آفتابہ بھی قدیم وقتوں سے پانی رکھنے اور ہاتھ دھلانے کے لیے استعمال ہونے والا پانی کا برتن ہے اس میں بھی کئی طرح کے پھول بوٹے بنے ہوئے ہوتے ہیں

’جام‘ کے نام سے ایک بڑا ڈونگے جیسا برتن ہے جسے مقامی زبان میں تو ’مونگر‘ کہتے ہیں لیکن اسے جام کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ پیتل کا بنا ہوا ہوتا ہے اس میں پگھلا ہوا گھی ڈال کر پیش کیا جاتا ہے۔ اسی کا ایک چھوٹا سائز سبز چائے پینے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے

’طبق‘ کے نام سے ایک بڑی گول تھالی ہے جو پیتل کی بنی ہوئی ہوتی ہے بعض سادہ اور بعض میں پھول کاڑھے ہوئے ہیں۔ پہلے پہل تو ان تھال میں ’مرزان‘ یعنی مقامی تیار کردہ آٹے یا برو (Buck wheat) کی حلوہ نما غذا جو ذائقے میں سادہ ہے اس کے ساتھ پگھلا ہوا زومو کا دیسی گھی خاص ترتیب سے رکھ کر لایا جاتا تھا۔ اب اس میں سفید ابلے چاول، یخنی گوشت اور کوفتے ڈال کر دعوتوں میں پیش کیا جاتا ہے۔ ان چند برتنوں کا ذکر اس لیے کہ آپو رستم کے پاس یہ سب چمکانے کے لیے لائے جاتے ہیں

آپو رستم کے والد نے انہیں کم عمری میں ہی اپنے ساتھ ساتھ رکھا اور اس طرح اس کی آنکھوں نے گلیڈ کو آگ کی تپش میں پگھل کر اپنے باپ کی فنکارانہ انگلیوں کے ذریعے سماوار، طبریل، آفتابہ اور جام میں ڈھلتے دیکھا اور یہ برتن اس کے دل پر نقش ہو گئے

کلہاڑے، تیشہ، کدال اور پن چکی کے ہک جو لوہے کام تھا وہ جلد ہی سیکھ گئے تھے، مگر ان متذکرہ برتنوں کی تیاری اور ملمع کاری کا کام سیکھنے میں انہیں کچھ وقت لگا۔ وہ اپنے والد کے ساتھ کھرمنگ کے علاوہ کریس، خپلو، سکردو اور روندو کے دورافتادہ گاؤں گاؤں جاتے اور انہیں کئی کئی دن پیدل چلنا پڑتا تھا

آپو رستم کے باپ دادا کے لیے کھرمنگ میں راجہ صاحب کی طرف سے میاردو کے علاوہ انگوت نالہ کا علاقہ بھی مختص تھا اور سال میں دو دفعہ یعنی مارچ اور ستمبر کے مہینے میں انہیں وہاں کام کے لیے جانا پڑتا تھا

وہ کسی گھر میں ڈیرا ڈال دیتے اور ہر کوئی آکر اپنی ضرورت کا کام ان سے کراتا تھا۔معاوضے کے طور پر رقم دینے کا رواج نہیں تھا بلکہ آٹا اور لکڑی اکٹھا کرتے۔ ہاں، سردیوں میں لوسر کا گوشت بھی معاوضے کی مد میں ملتا تھا۔ برتنوں کی ملمع کاری، ظروف سازی کے علاوہ جو کام زیادہ ہوتا تھا وہ دیسی پن چکی کا ہک بنانے اور ٹھیک کرنے کا ہوتا تھا کیونکہ آٹا پسائی ایک بڑی مہم ہوتی تھی جس کے لیے دیسی پن چکی جسے ’گھراٹ‘ کہا جاتا ہے، اس کا باقاعدہ قانون بنا ہوا تھا

1986ع کے بعد سے آپو رستم نے اسکردو کو اپنا مسکن بنایا اور حیدری مارکیٹ میں ایک دکان پچاس روپے ماہانہ کے حساب سے کرایہ پر لی۔ وہ اپنے والد کے ساتھ گاؤں گاؤں گھومے پھرے تھے لہٰذا ان کی پہچان ہر جگہ تھی۔ جب انہوں نے حیدری مارکیٹ میں دکان کھولی تو خپلو، کیرس، کھرمنگ، شگر اور روندو سے ان کے گاہک آنے لگے

لوہار کے کام کے ساتھ ساتھ ان کی ہنرمندی ملمع کاری اور ظروف سازی کی شکل میں کھل کر سامنے آ گئی۔ یوں ان کے پاس جام، سماوار، طبریل، آفتابہ، بڑے بڑے پیتل کے دیگ اور تھال مرمت اور قلعی کرانے کے لیے آتے رہے ہیں۔ ان کی اپنی نرینہ اولاد تو تھی نہیں تو ایک آدھ شاگرد رکھنے کی کئی بار کوشش کی لیکن کوئلہ، آگ اور دھوئیں میں کس نے ٹھہرنا تھا، وہ کسی اور کام کی طرف نکل گئے

وہ اکیلے ہی دیسی پھونکنی سے کوئلے گرم کر کے انگارے بناتے، کبھی آگ میں قلعی ڈال کر نرم کرتے اور پھر کبھی دوسری طرف انگاروں میں رکھے کلہاڑے کو جو سرخ ہو ہو کر آگ کی شکل اختیار کر جاتا، اسے نکال کر خوب کوٹتے ہیں تو چنگاریاں ہر طرف جگنوؤں کی طرح پھیل جاتیں ہیں۔ انہی چنگاریوں سے ان کی قمیض کے دامن میں سو چھید ہیں

آپو رستم کا ہمدم دیرینہ ان کا پرانا جاپانی ریڈیو ہے، جو ان کی عمر کا ہے اور دن بھر چلتا رہتا ہے۔ پہلے تو وہ ریڈیو سیلون سے سہگل، مکیش اور لتا کے گانے سنتے تھے اور جب سے ریڈیو پاکستان اسکردو سے بلتی لوک گیت نشر ہونا شروع ہوئے ہیں، تب سے رستم ان لوک گیتوں کے رسیا رہے ہیں اور یہ شوق اب بھی اسی طرح جوان ہے

ایک سماوار جس کی قلعی کرنے کے پچاس روپے ملتے تھے، اس سے کام کا آغاز کیا اور وقت گزرتا رہا۔ ان کے کالے بال پہلے بھورے رنگ میں بدل گئے اور پھر اب چہرے پر جھریوں نے جال ڈال دیا اور بالوں پر چاندی نے قبضہ کر لیا، مگر وہ اب بھی اسی لگن کے ساتھ کام میں مصروف ہیں

وقت نے کروٹ لی زمانے کی ترجیحات بدل گئیں اب روایتی برتنوں کی جگہ اسٹیل، کراکری اور اسٹون ویئر آگئے تو ایسے میں آپو رستم کا کام بھی رو بہ زوال ہے۔ وہ دکان جو انہوں نے پچاس روپے کرائے میں لی تھی اب اس کا کرایہ چار ہزار روپے ماہانہ ہے۔ قلعی جو شروع شروع میں دو سو رویے میں ملتی تھی پندرہ ہزار روپے کلو تک جا پہنچی ہے۔ ان کے ہم عصر دو تین اس کام کے ہنرمند تھے وہ یا تو گزر گئے ہیں یا ہے ’جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات‘ کی نذر ہو گئے ہیں

عمر کے اس حصے میں بھی آپو رستم خوش مزاج اور زندہ دل ہیں، زندگی کے دکھ سکھ اپنی جگہ مگر وہ اپنی حالت پر خوش ہیں اور بلند قہقہے ان کی شناخت ہیں۔ ہاں انہیں یہ دکھ ضرور ہے کہ اب اس کام کی روایت کو آگے بڑھانے والے کوئی نہیں، یوں یہ فن دم توڑ رہا ہے

نوٹ: اس رپورٹ کی تیاری میں محقق و سماجی کارکن عاشق فراز کے انڈیپینڈنٹ اردو میں شائع ہونے والے فیچر سے مدد لی گئی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close