پرسنل لون: عام لوگ کیسے ڈجیٹل قرضوں کے پھندے میں پھنستے ہیں؟

ویب ڈیسک

پنجاب کے شہر وزیر آباد کے رہائشی عاطف کے بیٹے کی ٹانگ کا آپریشن تھا۔ انھیں پیسوں کی شدید ضرورت تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ دوستوں یا رشتہ داروں سے پیسے ادھار مانگتے، ان کی نظر سوشل میڈیا پر قرضہ دینے والی ایک کمپنی کے اشتہار پر پڑی جو نوے دن کے لیے قرضہ دی رہی تھی۔

عاطف نے جھٹ سے قرض کے لیے اپلائی کیا اور ایک آدھ دن میں انھیں رقم بھی مل گئی۔ عاطف نے بیٹے کے علاج کے لیے ہسپتال سے رابطہ کیا اور آپریشن کے لیے انھوں نے کچھ وقت دیا۔

عاطف بتاتے ہیں ”میں نے آن لائن پرسنل لون ایپ سے 27000 روپے قرض لیا اور نوے دن میں 34200 لوٹانا تھے تاہم چھ دن بعد ہی کمپنی سے فون آگیا کہ آپ کو قرضہ ادا کرنا ہے۔ ایپ پر نوے دن میں قرضہ ادا کرنے کا کہا گیا، اس پر کمپنی کے ریکوری ایجنٹ سے بحث شروع ہو گئی اور اب تو حالات یہ ہیں کہ ریکوری ایجنٹ کی جانب سے مجھے گالیاں تک دی جا رہی ہیں“

اس فون کال سے حیران و پریشان عاطف نے ایجنٹ سے کہا کہ انہیں نوے دن بعد قرضہ واپس کرنا ہے۔ ایجنٹ کی جانب سے انہیں کہا گیا کہ نہیں آپ کی قرض ادائیگی کا وقت ہو گیا اور آپ کو یہ ادا کرنا ہے

ایجنٹ نے انہیں مزید کہا ”اگر آپ قرضہ نہیں دے سکتے تو آپ ’ایکسٹنشن منی‘ یعنی قرضہ ادائیگی کی تاریخ میں توسیع کے لیے 6600 روپے جمع کرا دیں تو آپ کو دس دن مزید مل جائیں گے

اس پریشان صورتحال کا ذکر عاطف نے اپنی بیوی سے کیا۔ دونوں میاں بیوی پہلے ہی بچے کے علاج کے لیے فکرمند تھے، اب یہ نئی مصیبت ان کے سر پر ٹوٹ پڑی تھی

جیسے تیسے کر کے عاطف نے ایک دوست سے 6600 روپے لے کر ایکسٹنشن منی ادا کی

دس دن گزرنے کے بعد ریکوری ایجنٹ کی جانب سے ان کے فون پر دوبارہ کالیں آنا شروع ہوئیں کہ آپ قرضہ ادا کریں

عاطف نے بتایا کہ ان کے پاس پیسے نہیں ہیں اور نوے دن میں پیسے جمع کرا دیں گے تاہم ایجنٹ کی جانب سے کہا گیا کہ وہ پیسے ادا کریں، ایکسٹنشن منی دے کر مزید دس دن کے لیے توسیع لے لیں یا پھر ان کے رشتہ داروں کو فون کر کے بتایا جائے گا

عاطف بتاتے ہیں ”ایجنٹ کی جانب سے کال ختم ہونے کے کچھ دیر بعد میرے ایک دو رشتہ داروں کی جانب سے کال بھی آ گئی کہ سنا ہے تم نے قرضہ لیا اور اب ادا نہیں کر رہے۔۔ لہٰذا میں نے مزید قرضہ پکڑ کر 6600 روپے کی رقم دے کر مزید دس دن کی توسیع مانگ لی“

عاطف کہتے ہیں ”اب تک میں تیرہ ہزار دو سو روپے ایکسٹنشن منی کے نام پر کمپنی کو دے چکا ہوں اور ابھی بھی مجھے چونتیس ہزار دو سو کا قرضہ واپس کرنا ہے اور اب تو ایجنٹ کی جانب سے مجھے دھکمیاں دی جاتی ہیں اور بات گالم گلوچ تک پہنچ چکی ہے“

ایسا ہی پنجاب کے ضلع لیہ کے رہائشی ثمر الٰہی کے ساتھ بھی ہوا

ثمر الٰہی کہتے ہیں ”میں گذشتہ دو دن سے سو نہیں سکا کیونکہ میں نے پرسنل لون ایپ سے تین مہینے کی ادائیگی کے لیے قرضہ لیا تھا اور دس دن کے بعد ان کی جانب سے قرضہ ادائیگی کا کہا جا رہا ہے اور میرے رشتہ داروں کو بتانے کی دھمکیاں بھی دی جا رہی ہیں“

کراچی کے حسن علی نے بھی آن لائن ایپ کے ذریعے قرضہ لیا اور 21000 قرض پر انہیں 16800 روپے ملے، جو کمیشن کے نام پر کاٹ لیے گئے اور پھر کمپنی کی جانب سے انہیں تنگ بھی کیا گیا

عاطف، ثمر الٰہی اور حسن علی آن لائن ایپس کے ذریعے ذاتی قرضہ لینے والے متاثرین میں شامل ہیں جو قرضہ لینے کے بعد کمپنیوں کی جانب سے ناروا سلوک کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں

سوشل میڈیا پر ایسے سینکڑوں متاثرین موجود ہیں، جنہوں نے آن لائن ذاتی قرض کی ایپس کی جانب سے ناجائز طریقوں سے پیسوں کی واپسی اور ادائیگی نہ کرنے کی صورت میں ڈرا دھمکانے کے اپنے تجربات شئیر کیے ہیں

جہاں ایک جانب آن لائن قرضہ دینے کی ایپ کے بارے میں کمپنیوں کی جانب سے روا رکھے گئے ناروا سلوک پر لوگ نالاں نظر آتے ہیں وہیں پر کچھ لوگوں کے مطابق انہوں نے ان آن لائن ایپس سے قرضہ لیا اور اپنے وقت پر لوٹا بھی دیا اور انہیں اس سلسلے میں کوئی تلخ تجربہ نہیں ہوا

ایسے ہی افراد میں کراچی کے رہائشی عبید صغیر بھی شامل ہیں، ان کے بقول انھوں نے پندرہ ہزار کا قرضہ لیا اور کمپنی کی جانب سے دیے گئے وقت میں اسے لوٹا دیا

قرض کی آن لائن ایپس کیا ہیں؟

سوشل میڈیا پر قرضہ دینے کی بہت ساری آن لائن ایپس موجود ہیں جو لوگوں کو چھوٹے قرضے فراہم کرتی ہیں۔ ڈجیٹل قرضہ دینے کی یہ کمپنیاں مختلف ناموں سے سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر موجود ہیں اور ان میں زیادہ تر کمپنیاں دس ہزار سے پچاس ہزار تک قرضہ فراہم کرتی ہیں۔ ان کمپنیوں کی جانب سے تیز، آسان ، بروقت طریقوں سے قرضہ دینے کے اشتہار سوشل میڈیا پر چلتے ہیں جس میں قرضہ لینے والے خواہش مند افراد کو ایک سے دو دن میں قرضہ کی سہولت دینے کی رجھانے والی پیشکش کی جاتی ہے

آن لائن قرضہ دینے والی یہ ایپس پاکستان میں پلے اسٹور سے سب سے سے زیادہ ڈاؤنلوڈ ہونے والی ایپس میں شامل ہیں

پاکستان میں ڈجیٹل قرضہ دینے کی ایپس کے بارے میں حکومتی ادارے ’سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان‘ کا کہنا ہے ”ڈجٹیل قرض دینے والی کچھ ایپس نان بنکنگ کمپنیوں سے منسلک ہیں اور انہیں ایس ای سی پی کے ذریعے ریگولیٹ کیا جاتا ہے اور باقاعدہ اس سلسلے میں انہیں لائسنس دیا جاتا ہے یا انہیں اسٹیٹ بینک لائسنس دیتا ہے تاہم بہت ساری ایسی ایپس بغیر لائسنس کے کام کر رہی ہیں جو غیر قانونی ہیں کیونکہ قرضہ دینا ایک لائنسس یافتہ عمل ہے اور پاکستان کا قانون کسی کو نجی طور پر قرضے دینے کی ممانعت کرتا ہے“

آن لائن قرضہ ایپس کا طریقہ واردات

ایک آن لائن ایپ پر ریکوری ایجنٹ کے طور پر کام کرنے والے شارق (فرضی نام) نے آن لائن ایپ قرضے کے حصول اور کمپنی کی جانب سے کیسے قرض لینے والے کو دھوکے میں رکھا جاتا ہے، اس کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ آن لائن ایپ پر جب کوئی قرضے کے لیے اپلائی کرتا ہے تو سب سے پہلے اسے کمپنی کی جانب سے صحیح معلومات فراہم نہیں کی جاتیں۔ ایپ میں قرضے کی مالیت اور اس کی واپسی کی جو تفصیلات دی گئی ہوتی ہیں، وہ صرف دھوکا ہوتا ہے

شارق بتاتے ہیں ”وہ چاہے چھوٹا قرضہ ہو یا بڑا، کمپنی سات دن بعد اس کی ادائیگی کا تقاضہ شروع کر دیتی ہے جب کہ ایپ میں یہ نوے دن لکھا ہوتا ہے۔ جب کوئی قرضے کے لیے اپلائی کرتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ اسے نوے دن بعد قرضہ دینا ہے جب کہ قرضہ ملنے کے بعد اسے پتہ چلتا ہے کہ یہ سات دن کے بعد ادا کرنا ہے۔ ایسے میں اگر قرض لینے والا ہیلپ لائن پر کال کرے تو وہ ہر وقت مصروف ملتی ہے اور کسٹمرز کو کوئی رسپانس نہیں دیا جاتا“

شارق نے بتایا ”اگر قرض دہندہ پیسے واپس نہ کر سکے تو اس سے ’ایکسٹنشن منی‘ کے نام پر پیسے وصول کیے جاتے ہیں کہ قرض کی ادائیگی کے لیے ہفتہ دس دن کی توسیع دی جاتی ہے۔ اگر کوئی قرضہ ادا نہ کر سکے تو اسے دھکمیاں بھی دی جاتی ہیں اور اس کے رشتہ داروں کو بھی بتایا جاتا ہے تاکہ وہ شخص ذہنی اذیت کا شکار ہو“

شارق نے بتایا کہ انہیں بہت سارے لوگوں پر ترس بھی آیا لیکن کمپنی کی انتظامیہ اس سلسلے میں کوئی رعایت نہیں دیتی

وہ کہتے ہیں ”سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ چھوٹے قرضہ لینے والے یہ افراد کسی مجبوری کے تحت قرضہ لیتے ہیں اور جلدی میں کمپنی کی ایپ کو بس سرسری پڑھ کر قرضے کے لیے اپلائی کر دیتے ہیں یا بہت سارے افراد تو یہ پڑھنے کا بھی تردد نہیں کرتے اور ان کمپنیوں کے جال میں پھنس جاتے ہیں“

ایس ای سی پی کی جانب سے اس سلسلے میں کہا گیا ہے کہ یہ ڈجیٹل قرض دینے اور لینے کے سلسلے کی نگرانی کر رہا ہے اور اس سے جڑے بنیادی خطرے کو بھی دیکھ رہا ہے تاکہ اس سلسلے میں ضروری ریگولٹیری مداخلت کے ذریعے قرض دہندگان اور صارفین کو محفوظ رکھا جا سکے

کمپنیوں کی جانب سے قرض دہندگان کو ڈرانے دھمکانے کے معاملے پر ایس ای سی پی نے کہا کہ قرض دینے والوں کو صحیح معلومات اور قرض فراہم کرنے کی تمام شرائط کو صحیح طریقے سے بتانا چاہیے اور کسی شکایت کی صورت میں متعقلہ کمپنی سے رابطہ کرے اور وہاں سے داد رسی نہ ہونے کی صورت میں ایس ای سی پی سے رابطہ کرے اور https://sdms.secp.gov.pk/ پر اپنی شکایت درج کرائے

ڈجیٹل قرض ایپ میں بڑھتی ہوئی شکایات کی وجہ

ڈجیٹل قرضہ فراہم کرنے والی ایپ کے خلاف بڑھتی شکایات کے سلسلے میں ماہر سرمایہ کاری اور مالی امور کے ماہر عمار خان نے کا کہنا ہے ”نارمل بینکاری نظام میں اسٹیٹ بینک کی جانب سے بہت سخت نگرانی رکھی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں کنزیومر فنانسنگ ایک ریگولیٹڈ بزنس ہوتا ہے تاکہ صارف کے مفاد کا تحفظ کیا جا سکے۔ دنیا بھر میں ڈجٹیل طریقے سے قرضے دینے کی ایپس کام کر رہی ہیں تاہم پاکستان میں تو یہ ’لون شارک‘ بن چکی ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں شفافیت نہیں ہے“

انھوں نے کہا ”اس قسم کی ڈجیٹل قرض ایپس پر کوئی اعتراض نہیں ہے تاہم ان کے کام کے طریقوں پر نگرانی رکھنی چاہیے جیسا کہ وہ قرض دہندگان کو ڈراتے دھمکاتے ہیں اور ان کے خاندان کے لوگوں تک کو ہراساں کرتے ہیں“

عمار خان کہتے ہیں ”یہ قرضہ اکثر غریب لوگ لیتے ہیں جنہیں فوری طور پر پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے اور صحیح طرح سے پڑھنا لکھنا بھی نہیں جانتے۔ اکثر ان ایپس پر بلاسود قرضے کی فراہمی کے اشتہار چلتے ہیں اور یہ لوگ جھانسے میں آجاتے ہیں۔ قرض کی ادائیگی کے لیے جب کمپنی کی جانب سے انہیں ہراساں کیا جاتا ہے تو ان لوگوں کو پتا نہیں ہوتا کہ کون سا ایسا فورم ہے کہ جہاں پر وہ اپنی شکایت درج کر ا سکیں یا پھر کمپنیوں کی جانب سے ڈرانے دھمکانے پر خوف زدہ ہو جاتے ہیں“

عمار خان کے مطابق جس طرح اسٹیٹ بینک نے 2009ع میں پالیسی جاری کی کہ بینکوں کی جانب سے قرض لینے والے صارفین کو ڈرایا اور ہراساں نہیں کیا جائے گا۔ تاہم لگتا ہے کہ ایس ای سی پی کے اندر اتنی استعداد نہیں ہے کہ وہ اس پر کوئی کارروائی کرے

ایس ای سی پی نے اس سلسلے میں اپنا موقف دیتے ہوئے کہا کہ اس کی جانب سے لون شارک کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور قرض لینے والوں کو بار بار بتایا جاتا ہے کہ قرض لینے سے پہلے تمام شرائط کا بغور مطالعہ کر لیں جس میں قرض پر سود، سروس چارجز، تاخیر سے قرض کی ادائیگی پر جرمانے وغیرہ شامل ہیں

ایس ای سی پی اس سلسلے میں اضافی قواعد و ضوابط متعارف کروانے پر بھی غور کر رہی ہے، جس کے ذریعے قرض لینے والے افراد کے ساتھ بہتر رویے کی حوصلہ افزائی کی جا سکے

ڈیجیٹل لون کمپنیاں مقامی ہیں یا غیر مقامی؟

پاکستان میں ڈجیٹل پلیٹ فارم پر قرضہ دینے والی کمپنیوں کی ملکیت کے بارے میں بات کرتے ہوئے عمار خان نے کہا کہ ان کمپنیوں میں مقامی کے ساتھ غیر مقامی کمپنیاں بھی شامل ہیں

انہوں نے کہا زیادہ تر مقامی کمپنیوں کے ساتھ چینی افراد پر مشتمل انتظامیہ کی کمپنیاں بھی اس سلسلے میں آن لائن پلیٹ فارم پر کام کر رہیں ہیں

دوسری جانب خود چین میں آن لائن قرضہ دینے والی کمپنیوں پر پابندی لگ چکی ہے

عمار خان کہتے ہیں ”ایس ای سی پی سے پوچھنا چاہیے کہ کیا ان ایپس کے ذریعے چین سے ڈیٹا شیئر کیا جا رہا ہے جب کہ چین میں ڈجیٹل پلیٹ فارم کے ذریعے قرضہ دینے کی ایپس پر پابندی لگی ہوئی ہے“

ایس ای سی پی نے اس سلسلے میں اپنا موقف دیتے ہوئے کہا کہ این بی ایف سی یعنی غیر بینکاری فنانس کمپنیوں کے قواعد و ضوابط کے تحت کوئی بھی ایسی کمپنی اپنے بزنس کے متعلقہ ریکارڈ یا دستاویزات کو پاکستان سے باہر منتقل اس وقت تک نہیں کر سکتی ہے جب تک کمیشن اسے اس بات کی اجازت نہ دے

ادارے نے کہا کسی بھی ممکنہ خطرے سے نمٹنے کے لیے ایس ای سی پی مزید ایسے ضوابط بنانے پر غور کر رہا ہے جس کے تحت کوئی بھی کمپنی اپنے صارفین یا قرض دہندگان کا ڈیٹا پاکستان کے اندر ہی محفوظ طریقے سے رکھ سکے

چین میں ڈجیٹل قرضہ دینے والی کمپنیوں پر پابندی اور پاکستان میں اس کی اجازت پر ایس سی ای پی نے کہا قرضہ دینا ایک قانونی عمل ہے اور ایسی ایپ کے ذریعے ان طبقات کو قرضے تک رسائی مل سکتی ہے جن کی تجارتی بینکوں تک قرضوں کے حصول کی رسائی نہیں ہوتی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close