مون سون میں بیس کروڑ گیلن بارشی پانی محفوظ کرنے کا منصوبہ

ویب ڈیسک

حالیہ بارشوں میں سندھ کا شہر کراچی ایک وسیع تالاب کا منظر پیش کر رہا ہے، پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں بھی اس سے قبل یہی مناظر دیکھنے کو ملتے تھے

بارشیں برستیں اور لاہور کی سڑکیں تالاب بن جایا کرتیں۔ دہائیوں تک تختِ لاہور پر براجمان شہباز شریف گھٹنوں تک لمبے بوٹ پہن کر گوڈے گوڈے پانی میں کھڑے ہو کر تصویریں کھنچواتے اور ’شہباز سپیڈ“ اور ”بہترین ایڈمنسٹریٹر“ کا خطاب پاتے

پھر 2018 میں جب پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بنی تو نئے وزیراعلٰی سردار عثمان بزدار نے یہ لمبے بوٹ ایک طرف رکھ دیے

وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی حکومت نے لاہور شہر میں اڑھائی ارب کی لاگت سے مون سون کے بارشی پانی کو محفوظ کرکے دوبارہ استعمال کرنے کے لیے گیارہ مقامات پر زیر زمین واٹر اسٹوریج تعمیر کرنے کا منصوبہ شروع کیا، جس کے ثمرات اب سامنے آنا شروع ہو چکے ہیں

یہ منصوبہ پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا منصوبہ تھا، جسے پارکس اینڈ ہارٹیکلچر اتھارٹی(پی ایچ اے) اور واسا مل کر بنایا۔ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے مختلف مقامات پر ایسے متعدد ٹینک تعمیر کرنے کی منظوری دی

اس منصوبے پر کام کرنے والے ماہرین کے مطابق اس منصوبے کی تکمیل کے بعد مون سون کے سیزن میں نہ تو بارشی پانی سڑکوں پر کھڑا ہوگا اور نہ ہی سڑکیں بارشی پانی کھڑا ہونے سے توڑ پھوڑ کا شکار ہوں گی۔ اس سے ٹریفک میں روانی بھی برقرار رکھی جا سکے گی اور بارش میں ہونے والے حادثات سے بچنا بھی ممکن ہو سکے گا

اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ پارکوں کی آبیاری کے لیے انڈر گراؤنڈ واٹر استعمال نہیں کرنا پڑے گا بلکہ یہی ذخیرہ کردہ بارش کا پانی پارکوں میں آبپاشی کے لیے استعمال ہوگا، اس طرح ٹیوب چلانے کے لیے استعمال کی جانے والی بجلی کی بھی بچت ہوگی

پنجاب ”آب پاک اتھارٹی‘‘ کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر سید زاہد عزیز کہتے ہیں ”لاہور میں ہونے والی اوسط درجے کی بارش لاہور شہر کو تقریباً دو کروڑ گیلن پانی مہیا کرنے کا باعث بنتی ہے اگر مون سون کے سیزن میں کم از کم دس بار اچھی بارشیں بھی ہو جائیں تو اس سے بیس کروڑ گیلن پانی ملے گا جسے مختلف مفید مقاصد کے لیے دوبارہ کام میں لایا جا سکتا ہے“

سید زاہد عزیز نے بتایا کہ بارشی پانی کو دوبارہ استعمال کرنے کے لیے زیر زمین محفوظ کرنے کا پہلا منصوبہ کامیابی سے لاہور کے لارنس روڈ پر مکمل کیا جا چکا ہے، یہاں بارش کے پانی کو ایک ٹینس کورٹ کے نیچے ذخیرہ کیا جا رہا ہے اور یہاں پندرہ لاکھ گیلن پانی اسٹور کیا جا رہا ہے۔ دو ایسے مزید منصوبے کشمیر روڈ اور شیرانوالا گیٹ کے پاس اندرون لاہور کے علاقے میں مکمل کئے جا چکے ہیں اور اس سال یہاں بارشی پانی اسٹور کیا جا رہا ہے

سید زاہد عزیز نے بتایا کہ قذافی اسٹیڈیم کے نزدیک بھی ایک بڑا زیر زمین سٹوریج بنایا جائے گا، جس میں چالیس لاکھ گیلن پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہوگی۔ حکومت پنجاب نے وارث روڈ کے مقام پر ایک اور واٹر اسٹوریج بنانے کے لیے رقم مختص کی ہے۔ مزید ایسے اسٹوریجز جن علاقوں میں بنائے جائیں گے ان میں تاجپورہ، فروٹ مارکیٹ ملتان روڈ، کریم پارک اور رسول پارک جیسے علاقے بھی شامل ہیں

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ حال ہی میں واشنگٹن میں زیر زمین ایک سرنگ سے پانی اکٹھا کر کے دریا میں ڈالنے کے ایک منصوبے کا افتتاح ہوا ہے۔ اس مقصد کے لیے وہاں ستائیس میل لمبی اور چونتیس فٹ چوڑی سرنگ بنائی گئی ہے۔ جاپانی شہر اوساکا سمیت کئی دیگر ملکوں میں بھی بارشی پانی کے نکاسی کے لیے ایسے طریقے استعمال کیے جا رہے ہیں

کراچی کیوں ڈوبا؟

سید زاہد عزیز بتاتے ہیں کہ بارشی پانے سے نمٹنے کے دو ہی مؤثر طریقے رہے ہیں، یا تو پانی کو زیر زمین ذخیرہ کر لیا جائے یا پھر اسے نالوں کے ذریعے سمندر یا دریا تک پہنچا دیا جائے۔ کراچی میں ماضی میں ایسے نالے موجود تھے جن کے ذریعے بارشی پانی سمندر میں چلا جاتا تھا۔ بعد میں ان نالوں پر عمارتیں بن گئیں ان میں سرکاری عمارتیں بھی شامل ہیں اور کئی جگہوں پر یہ نالے تجاوزات کے نرغے میں آ گئے

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ کراچی کا دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں بارش کے پانی کی نکاسی کا ذمہ دار ایک ادارہ نہیں ہے۔ کراچی واٹر بورڈ، کے ایم سی اور کے ڈی اے جیسے ادارے ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈالتے رہتے ہیں

سید زاھد عزیز کے مطابق کراچی کے بارشی پانی کا مسئلہ آسانی سے حل کیا جا سکتا ہے، اس کے لیے ہر سال مون سون آنے پر ہی سرگرمی دکھانے کی بجائے پہلے سے منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔ کراچی میں اس مسئلے کے حل کے لیے پروفیشنل لوگوں سے کام لیا جائے، سیاسی مداخلت ختم ہونی چاہیے، نالے بحال کروانے چاہئیں اور کچھ پانی سمندر میں اور باقی زیر زمین اسٹوریجز میں محفوظ کیا جانا چاہیے۔ یہ ضروری ہے کہ ہم ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات اور شہر میں اگلے سالوں میں ہونے والی وسعت کو سامنے رکھ کر لانگ ٹرم منصوبہ بندی کریں

سید زاہد عزیز سید زاہد عزیز (جو کہ پاکستان واٹر آپریٹرز نیٹورک کے بھی سربراہ ہیں) نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ یہ کام آسان ہے کہ ایک سڑک، انڈرپاس یا فلائی اوور بنا کر لوگوں کو اپنی کارکردگی دکھا دی جائے لیکن یہ مشکل ہے کہ پہلے زیر زمین اسٹرکچر بنایا جائے پھر اس کے اوپر تعمیرات کی جائیں تاکہ بارش کی صورت میں انڈرپاس اور سڑکیں بند نہ ہوں۔ ہماری مشکل یہ ہے کہ جب ایک دفعہ سڑک اور انڈرپاس بن جاتا ہے تو اس کے نیچے پانی کے اسٹوریج بنانا آسان نہیں ہوتا

زاہد عزیز نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ کراچی میں بارش کے پانی سے نمٹنا کوئی ناممکن کام نہیں ہے، ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہمارے پاس وسائل کتنے ہیں اور ہم کتنے عرصے کے لیے اور کس درجے کی شدت والی بارشوں کے لیے سسٹم ڈیزائن کرنا چاہتے ہیں۔ لاہور میں ایک سو بیس ملی میٹر بارش کے لیے نظام بنایا گیا ہے

سید زاہد عزیر نے بتایا کہ عالمی ادارے ایسے منصوبوں کے لیے فراخدلی سے مدد کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ ہم نے جرمنی کے ترقیاتی ادارے جی آئی زیڈ کو درخواست کی کہ لاہور کی سڑکوں پر بہت پانی کھڑا ہوتا ہے انہوں نے کمپوٹرائزڈ تحقیق کی مدد سے ہمیں بتایا کہ کتنی بارش ہونے کی صورت میں کس علاقے میں کتنا پانی کھڑا ہوگا۔ یہ ڈیٹا حاصل کرنے کے بعد ہم نے ان علاقوں کی نشاندہی کرلی، جن میں زیر زمین اسٹوریج بننے تھے۔ کراچی میں بھی ایسے کسی بھی منصوبے سے پہلے شہر کا تفصیلی سروے ہونا چاہیے

یاد رہے سید زاہد عزیر واسا لاہور کے سربراہ کے طور پر کئی مساجد میں وضو کے لیے استعمال شدہ پانی اسٹور کرکے پارکوں کو پانی دینے کے لیے اسے استعمال کرنے کے منصوبے بھی پایہ تکمیل تک پہنچا چکے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close