جعفر آباد: سیلاب متاثرین میں راشن کی تقسیم کے دوران فائرنگ.. ’امداد کے بدلے بیٹے کی لاش گھر آئی‘

ویب ڈیسک

بلوچستان کے ضلع جعفر آباد میں جمعرات کو ایک غیر سرکاری تنظیم کی جانب سے راشن کی تقسیم کے دوران فائرنگ کے باعث گولی لگنے سے تیئیس سالہ نوریز علی کی جان چلی گئی

جواں سال بیٹے کی المناک موت پر غم سے نڈھال ان کے والد وسند خان مستوئی نے رندھی ہوئی آواز میں بتایا ”امدادی راشن کی بجائے میرے جوان بیٹے کی لاش گھر آئی۔۔ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ معمولی امدادی راشن کے بدلے میرے بیٹے کی لاش آئے گی تو میں ان کو کبھی بھی راشن لینے کے لیے نہ بھیجتا۔۔“

وسند خان اور ان کے بھتیجے طارق علی نے فائرنگ کا الزام پولیس اہلکاروں پر عائد کرتے ہوئے کہا ”نوریز علی اب واپس تو نہیں آ سکتا، لیکن ہمارا مطالبہ ہے کہ ہمیں انصاف فراہم کیا جائے“

بلوچستان کے مشیر برائے داخلہ و قبائلی امور میر ضیا اللہ لانگو کے مطابق ایڈیشنل چیف سیکریٹری محکمہ داخلہ کو اس سلسلے میں تحقیقات کے لیے کہا گیا ہے اور انصاف کے تمام تقاضے پورے کیے جائیں گے

نوریز علی کے لواحقین اور دیگر لوگوں نے ان کی لاش کے ہمراہ اوستہ محمد ڈیرہ اللہ یار روڈ پولیس تھانہ کیٹل فارم کے سامنے احتجاج کیا اور اس معاملے کی ایف آئی آر انسداد دہشتگردی فورس کے اہکاروں کے خلاف ضابطہ فوجداری کی شق 302-34 کے تحت درج کی گئی ہے

اس ایف آئی آر کے مطابق ایس ایچ او کیٹل فارم کی موجودگی میں اے ٹی ایف کے اہلکاروں نے فائرنگ کی، جس سے نوریز کی موت ہوئی

فائرنگ کا واقعہ جعفرآباد میں کیٹل فارم کے علاقے میں پیش آیا۔ نوریز علی کے چچا زاد بھائی طارق علی نے بتایا کہ ایک غیر سرکاری تنظیم کے لوگ ان کے گاﺅں گوٹھ نظام الدین مستوئی میں سیلاب سے متاثرہ خاندانوں کے سروے کے لیے آئے تھے

ان کا کہنا تھا کہ سروے کے بعد ان کو ٹوکن جاری کیا گیا اور یہ بتایا گیا کہ جب وہ انہیں کال کریں گے تو وہ راشن لینے کے لیے آجائیں

انہوں نے بتایا کہ سروے کے بعد انہیں فون آیا کہ وہ جمعرات کو کیٹل فارم کے علاقے میں آئیں اور راشن لے جائیں

وسند خان مستوئی نے بتایا کہ کیٹل فارم ویسے تو ان کے گاﺅں سے براہ راست تین کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، لیکن سیلابی پانی کھڑا ہونے کی وجہ سے براہ راست وہاں پہنچنا ممکن نہیں تھا اس لیے ان کے بیٹے اور دیگر لوگوں کو وہاں تک پہنچنے میں طویل مسافت طے کرنا پڑا

ان کا کہنا تھا کہ ان کو متبادل راستے سے جانا پڑا، جو کہ اندازاً چھ سے سات کلو میٹر کا فاصلہ بنتا ہے۔ نوریز علی کے چچا زاد بھائی طارق علی بھی ان لوگوں میں شامل تھے، جو کہ گاﺅں سے اکٹھے امدادی راشن لینے گئے تھے

طارق علی نے بتایا ’ہم جب مشکل سے پیدل کیٹل فارم کے اس علاقے میں پہنچے، جہاں راشن تقسیم ہونا تھا تو وہاں بہت زیادہ رش تھا، جس کی وجہ سے لوگوں کو ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہونا پڑا‘

’ہمارا خیال تھا کہ صرف ہمارے گاﺅں کے لوگ ہوں گے، اس لیے ہمیں آسانی سے راشن ملے گا لیکن جب ہم وہاں پہنچے تو لوگوں کی بڑی تعداد موجود تھی کیونکہ وہاں دوسرے یونین کونسلوں سے بھی متاثرین کو بلایا گیا تھا‘

ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کی بڑی تعداد کے پیش نظر راشن کی مناسب انداز سے تقسیم کے لیے مناسب انتظام نہیں تھا، جس کی وجہ سے بدنظمی پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ بھگدڑ مچ گئی

طارق علی نے بتایا کہ اس موقع پر پولیس کی جانب سے فائرنگ کی گئی، جو کہ ان کے بقول دس منٹ سے زیادہ تک جاری رہی

طارق بتاتے ہیں ’فائرنگ اتنی زیادہ تھی کہ لوگ خوف کے باعث ایک دوسرے کے اوپر گرتے رہے۔۔ اس دوران ہم نے دیکھا کہ نوریز علی زمین پر گر گیا ہے اور ان کے بائیں کندھے سے خون بہہ رہا ہے۔‘

طارق کے مطابق نوریز کو پولیس کی جانب سے کی جانے والی فائرنگ سے بائیں کندھے کے نیچے ایک گولی لگی تھی

’گولی لگنے کے بعد ہم نے انہیں فوری طور پر ہسپتال پہنچانے کی کوشش کی لیکن انہوں نے ہسپتال میں دم توڑ دیا۔‘

اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑے نوریز علی کا تعلق ضلع جعفر آباد کے علاقے گوٹھ نظام الدین مستوئی سے تھا۔ وہ نہ صرف شادی شدہ تھے، بلکہ ان کے دو کم سن بچے ہیں، جن میں بیٹی کی عمر گیارہ ماہ جبکہ بیٹے کی عمر ڈھائی سال کے لگ بھگ ہے

ان کے والد نے بتایا کہ غربت کے باعث وہ ان کو تعلیم نہ دلا سکے لیکن وہ محنت مزدوری کر کے خاندان کی کفالت میں ان کا ہاتھ بٹھا رہے تھے

وسند خان مستوئی نے بتایا ’ہمارا علاقہ سیلاب سے بُری طرح متاثر ہوا جس کی وجہ سے سب کچھ ختم ہوگیا ہے اور ہمارے علاقے کے تمام غریب اور مزدور پیشہ افراد امداد کے مستحق ہوگئے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا ’پہلے ہم محنت مزدوری کر کے اپنے بچوں کی کفالت کرتے تھے لیکن سیلابی پانی کھڑا ہونے کی وجہ سے محنت مزدوری ممکن نہیں جس کی وجہ سے ہم ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہیں۔‘

’اگر ہماری مناسب مدد ہوتی تو شاید ہمارے گاﺅں سے لوگوں کو اتنی دور راشن لینے کے لیے جانے کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔‘

وسند خان اور ان کا خاندان بہت خوش تھا، جب انہیں راشن کا ٹوکن ملا تھا کہ شاید چند دن کھانے پینے کے حوالے سے پریشانی نہیں رہے گی۔ لیکن اسی راشن کی بجائے بیٹے کی لاش گھر آئی۔۔۔

وہ کہتے ہیں ’ہم بے بس لوگ ہیں۔ بس یہی کہہ سکتا ہوں کہ کاش بیٹے کو راشن لینے کے لیے نہ بھیجتا۔‘

انھوں نے بتایا کہ ان کا بیٹا، ان کا سہارا اب واپس نہیں آسکتا لیکن وہ چاہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ انصاف ہو۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close