بلوچستان میں سرکاری و عسکری ذرائع نے ضلع زیارت سے اغوا ہونے والے ڈیفینس ہاؤسنگ اتھارٹی کوئٹہ کے افسر لیفٹیننٹ کرنل لئیق مرزا کی ہلاکت کی تصدیق کر دی ہے
واضح رہے کہ لئیق مرزا کو ان کے ایک ساتھی سمیت منگل کی شب زیارت اور کوئٹہ کے درمیان واقع ورچوم کے علاقے سے اس وقت اغوا کیا گیا تھا، جب وہ اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ سفر کر رہے تھے
شدت پسند بلوچ تنظیم بی ایل اے نے جمعرات کی صبح ایک بیان میں لیفٹیننٹ کرنل لئیق کے اغوا کی ذمہ داری قبول کی تھی اور کہا تھا کہ فوجی افسر ان کی تحویل میں ہیں، جبکہ اس بارے میں تفصیلی بیان بعد میں جاری کیا جائے گا
تاہم تاحال یہ واضح نہیں ہے کہ کرنل لئیق کی ہلاکت کیسے ہوئی
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے اپنے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ لیفٹیننٹ کرنل لئیق کے ساتھ اغوا کیے جانے والے شخص ان کے رشتہ دار ہی ہیں جن کی تلاش جاری ہے
دوسری جانب وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے اپنے بیان میں مغوی افسر کی ہلاکت پر دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ آرمی افسر کے اغوا اور انہیں ہلاک کرنے کا مقصد دہشت اور وحشت کا ماحول پیدا کرنا ہے
ڈائریکٹوریٹ آف پبلک ریلیشنز حکومت بلوچستان کی جانب سے وزیر اعلیٰ بلوچستان اور مشیر داخلہ میر ضیاء اللہ لانگو کے واقعے کے بعد جاری بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ اغوا کا یہ واقعہ ضلع زیارت کے علاقے ورچوم میں پیش آیا
بعض اطلاعات کے مطابق منگل کی شب 9 بجے مسلح افراد زیارت اور کوئٹہ کے درمیان سفر کرنے والی گاڑیوں کو روک رہے تھے۔ انہی میں لیفٹیننٹ کرنل لئیق اور ان کی فیملی کی گاڑی بھی شامل تھی
ان کی گاڑی کو روکنے کے بعد ڈی ایچ اے کے افسر کو مسلح افراد اپنے ساتھ لے گئے جبکہ ان کے خاندان کے افراد کو چھوڑ دیا گیا
اطلاعات کے مطابق ملزمان انہیں اس راستے سے نامعلوم مقام کی جانب لے گئے، جو کہ مانگی ڈیم کی جانب جاتا ہے
اس واقعے کے بعد فرنٹیئر کور اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار جائے وقوعہ پر پہنچ گئے، جنہوں نے مغوی کے خاندان کو زیارت پہنچانے کے انتظامات کیے اور علاقے میں بڑے پیمانے پر سرچ آپریشن شروع کر دیا
جب حکومت بلوچستان کی ایک اعلیٰ شخصیت سے اس سلسلے میں رابطہ کیا گیا تو انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ڈی ایچ اے کے افسر سمیت دو افراد کو اغوا کیا گیا
ان کا کہنا تھا کہ اغوا ہونے والے دوسرے شخص ڈی ایچ اے افسر کے ساتھی تھے، جو ان کے ساتھ ہی سفر کر رہے تھے۔ اغوا ہونے والے دوسرے فرد کی شناخت کے حوالے سے تاحال سرکاری حکام کی جانب سے کوئی تفصیل فراہم نہیں کی گئی
بیان کے مطابق وزیر اعلیٰ نے محکمہ داخلہ اور ضلعی انتظامیہ سے واقعے کی رپورٹ طلب کی ہے اور سیاحوں کی باحفاظت بازیابی یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے
وزیراعلیٰ نے زیارت سمیت بلوچستان کے تمام سیاحتی مقامات پر حفاظتی انتظامات مزید مؤثر بنانے کی ہدایت بھی کی ہے
مشیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو نے ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ و قبائلی امور بلوچستان ہاشم غلزئی سے ملاقات میں کہا ہے کہ معاملے کے حل تک انتظامیہ کو چین سے نہیں بیٹھنے دیں گے
مشیر داخلہ نے ایک بیان میں اس واقعے کو صوبے میں امن و امان خراب کرنے کی کوشش قررا دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے واقعات باعث تشویش ہیں لیکن بہت جلد اس معاملے کو حل کیا جائے گا
انہوں نے بتایا کہ اغوا کاروں کو گرفتار کرنے کے لیے آپریشن جاری ہے
واضح رہے کہ زیارت بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے تقریباً ڈیڑھ سو کلومیٹر کے فاصلے پر شمال مشرق میں واقع ہے۔ زیارت کا شمار بلوچستان کے سرد ترین علاقوں میں ہوتا ہے جہاں دنیا میں صنوبر کے قدیم جنگلات میں سے ایک بڑا جنگل بھی واقع ہے
اہم سیاحتی مقام ہونے کے باعث لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد عید اور دیگر تعطیلات میں سیر و سیاحت کے لیے اس علاقے کا رخ کرتی ہے
اہم بات یہ ہے کہ عمومی طور پر زیارت کا شمار بلوچستان کے نسبتاً پرامن علاقوں میں کیا جاتا ہے لیکن ماضی میں یہاں چند پرتشدد واقعات پیش آ چکے ہیں جن میں بانی پاکستان قائد اعظم کی ریزیڈینسی پر حملے کا واقعہ بھی شامل ہے
جون 2013 میں اس ریزیڈینسی پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری کالعدم عسکریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی تھی۔