امریکا کے سابق مشیر برائے قومی سلامتی جان بولٹن نے اعتراف کیا ہے کہ کئی بار بیرون ملک حکومتوں کی تبدیلی کے لیے اپوزیشن کے ساتھ مل کر بغاوت کی کوششوں کی منصوبہ بندی میں مدد کی تھی
بولٹن نے یہ بیان 6 جنوری 2021 کے یو ایس کیپیٹل ہل پر حملے پر ہونے والی کانگریس کی سماعت کے بعد امریکی نشریاتی ادارے سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے دیا
واضح رہے کہ پینل میں شامل قانون سازوں نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر الزام لگایا ہے کہ وہ سنہ 2020 کا انتخاب ہارنے کے بعد اقتدار میں رہنے کے لیے لوگوں کو تشدد پر اکسا رہے تھے
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکا کے اقوام متحدہ میں سابق سفیر اور مشیر قومی سلامتی جان بولٹن نے گزشتہ برس ٹرمپ کے حامیوں کے کیپیٹل ہل پر حملے سے متعلق کانگریس کی سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو میں کئی انکشافات کیے ہیں
سی این این سے گفتگو میں جان بولٹن نے اعتراف کیا کہ انہوں نے کئی بار دوسرں ممالک میں ’’رجیم چینج‘‘ ( منتخب حکومتوں کی تبدیلی) کے لیے وہاں کی اپوزیشن جماعتوں کی بغاوتوں میں مدد کی تھی اور اس کام میں کافی محنت لگتی ہے
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر تنقید کرتے ہوئے اُس وقت کے مشیر قومی سلامتی جان بولٹن کا مزید کہنا تھا کہ رجیم چینج کا کام ٹرمپ نے نہیں بلکہ میں نے کیا تھا۔
سی این این سے بات کرتے ہوئے بولٹن نے کہا کہ ٹرمپ میں اتنی صلاحیت نہیں تھی کہ وہ ’احتیاط سے رجیم چینج کی منصوبہ بندی کرتے‘
سابق صدر ٹرمپ کے مشیر قومی سلامتی کے اس اعتراف پر میزبان نے حیرانگی سے پوچھا کہ وہ ’رجیم چینج‘ کی کن کوششوں کا ذکر کر رہے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ’میں تفصیلات میں نہیں جاؤں گا‘
اس کے بعد انہوں نے وینزویلا کا ذکر کیا۔ ’وہ کامیاب نہیں ہوا تھا۔ ایسا نہیں کہ اس میں ہمارا کوئی بہت زیادہ کردار تھا لیکن میں نے اس دوران دیکھا کہ ایک اپوزیشن کو منتخب صدر کو غیر قانونی طور پر ہٹانے کے لیے کیا کچھ کرنا پڑتا ہے‘
خیال رہے کہ 2019 میں جان بولٹن نے قومی سلامتی کے مشیر کی حیثیت سے وینزویلا کے اپوزیشن لیڈر جوآن گائیڈو کی ملک کے صدر نکولس مدورو کو ہٹانے کی کوششوں کی حمایت کی تھی
وینزویلا میں صدر مدورو کو اقتدار سے ہٹانے کی اپوزیشن کی کوششیں ناکام رہی تھیں اور منتخب حکومت کے خلاف سازش کرنے پر دو سابق امریکی فوجیوں ایرون بیری اور لیوک ڈینمن کو گرفتار کر کے دہشت گردی کا مقدمہ بھی چلایا گیا تھا
جب سی این این کے اینکر نے بولٹن سے کہا ’مجھے ایسا لگتا ہے کہ اور بھی چیزیں ہیں جو آپ مجھے نہیں بتا رہے ہیں (وینزویلا سے آگے کی)، تو انھوں نے جواب دیا: ’مجھے یقین ہے کہ اور بھی ہیں‘
یاد رہے کہ کئی ممالک کی منتخب حکومت کے خاتمے پر انگلیاں امریکا کی جانب اٹھتی رہی ہیں تاہم یہ پہلی بار ہے کہ کسی اعلیٰ امریکی عہدیدار نے کھلے عام رجیم چینج کا اعتراف کیا ہو
کچھ ماہ قبل پاکستان میں ’تحریک عدم اعتماد‘ کے ذریعے عمران خان کی وزارت عظمیٰ سے معزولی اور سائفر تنازع کے بعد مداخلت اور سازش کے غلغلے میں ’رجیم چینج‘ کا معاملہ زیر بحث رہا
خارجہ پالیسی کے بہت سے ماہرین گزشتہ برسوں میں دوسرے ممالک میں واشنگٹن کی مداخلت پر تنقید کرتے رہے ہیں۔ اس کی ایک طویل تاریخ ہے: 1953 میں اس وقت کے ایرانی قوم پرست وزیر اعظم محمد مصدق کی معزولی اور ویتنام کی جنگ میں امریکہ کے کردار سے لے کر اس صدی میں عراق اور افغانستان پر حملے تک
لیکن امریکی حکام کے لیے بیرونی ممالک میں بدامنی پھیلانے میں اپنے کردار کا کھلے عام اعتراف کرنا انتہائی غیر معمولی بات ہے
کینیا سے تعلق رکھنے والے بی بی سی کے صحافی ڈکنز اولیوے نے ٹویٹر پر لکھا: ’جان بولٹن، جو کہ امریکی حکومت میں اعلیٰ ترین عہدوں پر خدمات انجام دے چکے ہیں، جس میں اقوام متحدہ کا سفیر ہونا بھی شامل ہے، بڑے آرام سے اس بات پر فخر کر رہے ہیں کہ انہوں نے دوسرے ممالک میں بغاوت کی منصوبہ بندی میں مدد کی تھی۔‘