بائیوپائریسی کیا ہے؟

ویب ڈیسک

بائیوپائریسی ایک ایسا کا موضوع ہے، جو کینیڈا کے شہر مونٹریال میں ہونے والی تحفظِ فطرت کی بین الاقوامی کانفرنس میں کلیدی اہمیت اختیار کر چکا ہے، جہاں ترقی پذیر ممالک قدیمی دانش کی بنیاد پر ایجادات میں اپنا مالی حصہ طلب کر رہے ہیں

کانفرنس میں ترقی پذیر ممالک نے موقف اختیار کیا کہ ایسی ہر سائنسی ایجاد یا پیش رفت، جس کی بنیاد قدیمی دانش یا فطری وسائل پر ہو، ان سے حاصل کردہ منافع تقسیم کیا جانا چاہیے

ادویات پر تحقیق ہو، جینیاتی تبدیلی پر مبنی فصلیں ہوں یا پھر دیگر مصنوعات ہوں، سن میں درحقیقت نیا کچھ بھی نہیں، کیونکہ یہ تمام کہیں نہ کہیں سے مستعار لی جاتی ہیں۔ روایتی قدیمی دانش یا حیاتیاتی تنوع، جسے وہاں سے حاصل کیا گیا اور کوئی باقاعدہ کریڈٹ یا معاوضہ دیے بغیر استعمال کیا گیا، اسے ’بائیوپائریسی‘ قرار دیا جاتا ہے

ایسے معاملات تمام انسانی تاریخ میں دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم ہسپتانوی، برطانوی اور دیگر عالمی سلطنتوں نے تواتر کے ساتھ مختلف مقبوضہ علاقوں کے قدرتی وسائل سے زبردست منافع کمایا، مثال کے طور پر کافی، سوت، چائے، مصالحے اور ربر وغیرہ

ان میں سے زیادہ تر مقبوضہ علاقے بعد میں آزاد تو ہو گئے، لیکن بائیوپائریسی کا سلسلہ مسلسل جاری رہا۔ امیر ممالک میں ریسرچرز اور اہم بین الاقوامی کمپنیوں نے غریب ممالک کے قدرتی وسائل پر قبضہ جاری رکھا اور ان کے حقوقِ دانش اپنے نام رکھ کر اس سے مالی فوائد سمیٹتے رہے۔ ان میں بائیوٹیک، زراعت اور ادویات ساز ادارے سبھی شامل تھے۔ ان میں سے ایک ایک صنعت اربوں کھربوں ڈالرز کی ہے

ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کا معاہدہ گو کہ حقوقِ دانش کے احاطہ کو بڑھا کر کچھ پودوں اور جانوروں تک پر لاگو کرتا ہے، تاہم یہ ضمانتیں ہر وقت کارگر نہیں ہوتیں

اس کی ایک بڑی مثال موجود ہے۔ امریکی بین الاقوامی کمپنی ڈبلیو آر گریس نے نیم کے پودے سے تیار کردہ نامیاتی فنگیسائڈل پروڈکٹ کو اپنے نام سے پیٹنٹ کروا رکھا تھا۔ اس بابت مقدمہ قائم کیا گیا، جس میں بھارتی فارمنگ کی روایتی دانش میں نیم کے پودے کے اہم کردار کا ذکر تھا۔ یہ مقدمہ بالآخر بھارتی حکومت نے جیت لیا تھا اور یوں یہ ساٹھ ملین ڈالر سالانہ کا پیٹنٹ کا مقدمہ کئی دہائیوں کی لڑائی کے بعد اپنے انجام کو پہنچا

نوگویا پروٹوکول نامی معاہدے کے ذریعے ایسی تمام مصنوعات، جو حیاتیاتی تنوع یا جینییٹک وسائل کی بنیاد پر ہوں، ان کی رسائی کی نگرانی کی جانا ہے، جبکہ ان سے حاصل ہونے والے نفع کو ’مناسب اور منصفانہ‘ انداز سے بانٹا جانا بھی تفویض ہے۔ یہ معاہدہ اکتوبر 2014ع سے نافذ العمل ہے جب کہ اب تک دنیا کے ایک سو اڑتیس ممالک اس کی توثیق کر چکے ہیں، جس میں کینیڈا، امریکا اور روس شامل ہیں

مونٹریال میں منعقدہ کوپ 15 بائیوڈائیورسٹی یا حیاتی تنوع کانفرنس میں یہ موضوع اہم ترین ہے، جس جینیٹک ڈیٹا کو ڈجیٹل فورم یا ڈجیٹل سیکوئنس یعنی DSI سےمحصولہ معلومات اور حاصل شدہ منافع کو بھی اس فریم ورک کا حصہ بنانے کے لیے کہا جا رہا ہے

متعدد افریقی ممالک کا موقف ہے کہ وہ نیا بائیوڈائیورسٹی فریم ورک صرف اسی صورت میں تسلیم کریں گے، اگر ڈی ایس آئی جیسی جدید سائنسی پیش رفتوں سے حاصل ہونے والے منافع کو متعلقہ ممالک کے ساتھ بانٹے جانے کا نکتہ اس فریم ورک میں شامل کیا جائے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close