بھارتی پارلیمان میں ”آپ کس کے آگے بین بجا رہے ہیں“ کہنا منع ہے۔۔ اب صرف واہ مودی جی واہ کہیے

ویب ڈیسک

بھارتی سیاست میں میں اس وقت ایک دلچسپ صورتحال ہے، جہاں اس بات کو لے کر سیاستدان بحث کر رہے ہیں کہ کیا پارلیمان میں ‘تاناشاہ’ لفظ کا استعمال کیا جا سکتا ہے؟ یا کرپٹ، ڈکٹیٹر اور فراڈ وغیرہ کے الفاظ بولے جا سکتے ہیں یا نہیں

اس بحث کا آغاز اس وقت ہوا، جب لوک سبھا (پارلیمان کا ایوان زیریں) سیکرٹریٹ نے ایسے الفاظ کی ایک فہرست جاری کی، جو اب غیر پارلیمانی سمجھے جائیں گے اور اگر استعمال کیے گئے تو پارلیمان کے ریکارڈ سے حذف کر دیے جائیں گے

بھارتی پارلیمان کے سکریٹریٹ نے مونسون اجلاس سے عین قبل غیر پارلیمانی الفاظ سے متعلق جو نیا کتابچہ جاری کیا ہے، اس میں خاص طور پر بہت سے ان الفاظ کو غیر موزوں قرار دیا گیا ہے، جن کا استعمال حزب اختلاف کے بیشتر ارکان حکومت پر نکتہ چینی کرنے کے لیے کرتے رہے ہیں

حزب اختلاف کی جماعتوں نے اس پر شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اس کا نفاذ ہوا، تو حکومت پر تنقید کرنے کی ان کی صلاحیت کو ایک بڑا دھچکا لگے گا۔ یہ نیا کتابچہ دونوں ایوانوں کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ تاہم پارلیمان میں بحث کے دوران کن الفاظ کا استعمال ممنوع ہے، اس پر آخری فیصلہ ایوان زیریں اور ایوان بالا کے اسپیکر کو ابھی کرنا ہے

کون سے الفاظ غیر پارلیمانی ہیں؟

خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق تاناشاہ، جے چند، وناش پروش، خالصتانی وغیرہ جیسے الفاظ کو اب غیر پارلیمانی الفاظ سمجھا جائے گا

جبکہ ایسے جملے بھی غیر پارلیمانی ہوں گے مثلا ”آپ میرا وقت برباد کر رہے ہیں“ ، ”آپ ہمارا گلا گھونٹ دیجیے“ ، ”چیئر (کرسی) کو کمزور کر دیا گیا ہے“ ، ”میں آپ سے کہنا چاہتی ہوں کہ آپ کس کے آگے بین بجا رہے ہیں“

حیرت کی بات یہ ہے کہ ممنوعہ الفاظ کی نئی فہرست میں وہ عام فہم الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، جو عام طور پر ہر روز استعمال میں آتے ہیں۔ جیسے ’شرمسار کرنا یا شرمندہ ہونا، گالی گلوچ، دھوکہ دہی، کرپٹ، ڈرامہ، منافقت، کووڈ اسپریڈر یا کورونا پھیلانے والا، اسنوپ گیٹ، نااہل اور جملہ جیوی (یعنی جو شخص چکنی چپڑی باتیں کرتا ہو، تاہم ان پر عمل نہ کرے)‘ وغیرہ وغیرہ

آئندہ پیر سے شروع ہونے والے پارلیمان کے مونسون اجلاس کے دوران بحث میں ان الفاظ کا استعمال غیر مناسب سمجھا جائے گا اور انہیں حذف کر دیا جائے گا۔ ’چمچہ، چمچا گیری، بچوں جیسی حرکت، بزدل، مجرم، گھڑیالی آنسو، گدھا، گمراہ کن، جھوٹ، غدار، گرگٹ، غنڈا، توہین، انا، یوم سیاہ، کالا بازاری، خرید و فروخت، فساد، دلال، دادا گیری، لولی پاپ، اعتماد شکنی، بیوقوف اور پٹھو‘ جیسے الفاظ بھی ممنوع ہوں گے

اس فہرست میں اور بھی کئی الفاظ، جیسے انتشار پسند، شکونی (مہابھارت کا ایک منفی کردار) آمرانہ، تانا شاہ، تانا شاہی، جئے چند، وناش پرش، (تباہی مچانے والا) خالصتانی، خون سے کھیتی، دوہرا کردار، نکمّا، نوٹنکی، ڈھنڈورا پیٹنا اور بہری سرکار‘ جیسے الفاظ بھی درج ہیں

واضح رہے کہ پارلیمینٹ ان الفاظ اور جملوں کی فہرست پہلے بھی جاری کرتی رہی ہے، لیکن موجودہ فہرست پر حزب اختلاف کی طرف سے شدید تنقید کی جا رہی ہے ، جبکہ سوشل میڈیا صارفین اور میڈیا پر اس کا خوب مذاق بھی اڑایا جا رہا ہے

سیاسی رہنما اکثر تاناشاہ لفظ کا استعمال اپنے مخالف پر تنقید کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں سیاست دانوں اور سوشل میڈیا صارفین نے مودی حکومت پر تاناشاہی کا الزام لگایا ہے

دلچسپ بات یہ ہے کہ ’جے چند‘ کا لفظ بھی اس فہرست میں شامل ہے حالانکہ یہ ایک نام ہے۔ جے چند بارہویں صدی کے راجا تھے، جنہوں نے محمد غوری کی مدد کی تھی

’وناش پروش‘ کا مخالف لفظ ہے ’وکاس پروش‘، جسے حکومت کے حامی نریندر مودی کے لیے استعمال کرتے ہیں

تاہم خبر رساں ایجینسی پریس ٹرسٹ آف انڈیا (پی ٹی آئی) کے مطابق زیر بحث الفاظ 2021 میں پارلیمینٹ، ریاستی اسمبلیوں اور کامن ویلتھ پارلیمینٹ کے مختلف اجلاسوں میں استعمال ہوئے ہیں، جنہیں اسپیکر نے غیر پارلیمانی قرار دیا ہے

تاہم ایوان بالا راجیہ سبھا کے چیئرمین اور ایوان زیریں لوک سبھا کے اسپیکر کے پاس اس بات کا آخری اختیار ہے کہ کن الفاظ کو کسی کی تقریر سے نکالا جائے یا نہیں

اپوزیشن کا سخت رد عمل

اس نئی فہرست پر اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں نے شدید ردعمل ظاہر کیا ہے

ترنمول کانگریس کے ایک رکن ڈیرک اوبرائن نے اس پر حکومت کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان الفاظ کا استعمال جاری رکھیں گے

انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، ’’اب ہمیں پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے، شرمندہ، زیادتی کی گئی، دھوکہ دیا، بد عنوان، منافقت اور نااہل جیسے بنیادی الفاظ کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ میں یہ تمام الفاظ استعمال کروں گا۔ مجھے معطل کرنا ہے تو کر دیں۔ ہم جمہوریت کے لیے لڑ رہے ہیں۔‘‘

شیو سینا کی ترجمان پرینکا چترویدی نے، سوشل میڈیا پر مقبول ایک بہت ہی معروف میم کی یاد دلائی اور لکھا، ”اگر کریں تو کیا کریں، آخر بولیں تو کیا بولیں؟ صرف۔۔۔۔ واہ مودی جی واہ۔۔۔ واہ مودی جی واہ!‘‘

بنگال میں مقبول پارٹی ترنمول کانگریس کی رہنما اور شعلہ بیان مقرر رکن پارلیمان مہوا موئترا نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، ”آپ کا مطلب ہے کہ میں لوک سبھا میں کھڑے ہو کر یہ بات نہیں کر سکتی کہ ایک نااہل حکومت نے کس طرح بھارتیوں کو دھوکہ دیا ہے، جسے اپنی منافقت پر شرم آنی چاہیے؟‘‘

مہوا موئترا، جو کہ مودی کی شدید ناقد ہیں، نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا ”لفظ ’سنگھی‘ لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے لیے غیر پارلیمانی الفاظ کی فہرست میں شامل نہیں ہے، دراصل حکومت نے ہر اس لفظ پر پابندی لگا دی ہے جس کے ذریعے اپوزیشن بتاتی ہے کہ بی جے پی کس طرح بھارت کو برباد کر رہی ہے“

انہوں نے مزید کچھ الفاظ کو استعمال کرنے کی صلاح دی، مثلاً ’بلڈوزز‘ اور ’گولی مارو سالوں کو‘ (جس کا استعمال دائیں بازو کے حامی اپنے مخالف کے لئے اکثر کرتے ہیں)

راجیہ سبھا کے رکن پارلیمینٹ اور کانگریس کے جنرل سیکریٹری جے رام رمیش نے اس فہرست پر تنقید کرتے ہوئے لکھا، ”اپوزیشن کی طرف سے مودی حکومت کے اصل چہرے کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال کیے گئے تمام الفاظ اب غیر پارلیمانی تصور کیے جائیں گے۔ اب آگے کیا، وش گرو؟“

’وشو گرو‘ کا مطلب ہوتا ہے عالمی رہنما لیکن رمیش نے اسے طنزاً ’وش گرو‘ لکھا، جس کا مطلب ہے زہریلا رہنما

کانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی لکھتی ہیں ”حکومت کا ارادہ ہے کہ جب وہ بدعنوانی کرے تو انہیں بدعنوان نہیں بلکہ ان کے کرپشن کو ماسٹر اسٹروک کہا جائے۔ دو کروڑ نوکریاں، کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنے کے (ادھورے) وعدوں کے لیے ’جملہ جیوی‘ (جملہ پھینکنے والے یا سادہ الفاظ میں چھوڑُو) نہ کہا جائے، بلکہ ان کا شکریہ ادا کیا جائے۔ پارلیمینٹ میں کسانوں کی تحریک کے کارکنان کے لیے ’آندولن جیوی‘ (یعنی اشتعال انگیز افراد) لفظ کس نے استعمال کیے تھے؟“

مورخ عرفان حبیب نے نئی فہرست کے بارے میں ایک اخبار کا کلپ شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے ”اب ہماری پارلیمانی بحث میں بولے جانے والے الفاظ غیر پارلیمانی ہیں۔ کچھ ممنوعہ الفاظ واقعی ہنسنے کے قابل ہیں“

راجیہ سبھا کے رکن پارلیمینٹ اور عام آدمی پارٹی کے رہنما راگھو چڈھا نے ٹویٹ کیا ”یہ جان کر بہت اچھا لگا کہ حکومت ایسی صفتوں سے واقف ہے جو اس کے کام کاج کو درست طریقے سے بیان کرتی ہیں“

‘ہر سال جاری ہونے والی فہرست’

غیر پارلیمانی الفاظ کی فہرست پر لوک سبھا سیکرٹریٹ کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس بات کی تصدیق کی کہ جو الفاظ میڈیا کی خبروں میں بتائے جا رہے ہیں ان پر واقعی پابندی عائد کی گئی ہے

انہوں نے کہا “لوک سبھا یا راجیہ سبھا کے اسپیکر نے کبھی نہ کبھی ان الفاظ کو غیر پارلیمانی کہا ہوگا۔ ہم نے یہ فہرست خود تیار نہیں کی ہے۔ یہ اسپیکر کا فیصلہ ہوتا ہے اور انہیں کے مطابق فہرست تیار کی جاتی ہے“

انہوں نے کہا ”یہ تازہ ترین فہرست 2021 کی ہے۔ ہم ہر سال اس فہرست کو اپ ڈیٹ کرتے ہیں۔ جب 2022 سال گزر جائے گا تب 2023 میں ایک نئی فہرست آئے گی“

اس سوال پر کہ ایک سال میں کتنے الفاظ شامل کیے جاتے ہیں، اہلکار نے بتایا کہ اس بار پندرہ بیس نئے الفاظ شامل کیے گئے ہیں، جو کہ وہ الفاظ ہیں جو ایوان کے اندر استعمال ہوئے ہیں

انہوں نے بتایا کہ غیر پارلیمانی قرار دیے جانے کے بعد بھی اگر کوئی رکن بحث کے دوران یہ الفاظ استعمال کرتا ہے، تو ان الفاظ کو ریکارڈ سے نکال دیا جائے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close