’پشاور بی آر ٹی کی بسیں برائے فروخت۔۔ چار کروڑ کی بس صرف 288 روپے میں‘
جی ہاں ، ان دنوں سوشل میڈیا پر ایسی دستاویزات شئیر کی جا رہی ہیں، جن کے مطابق پشاور کی بس ریپڈ ٹرانزٹ یا بی آر ٹی کی بسیں جو فی بس چار، چار کروڑ میں حکومت نے خریدی تھیں، بارہ سالہ معاہدہ مکمل ہونے کے بعد نجی کمپنی کو اونے پونے داموں دے دی جائیں گی
حکومت کی جانب سے کیے گئے معاہدوں کے مطابق ان بسوں کو چلانے والی نجی کمپنی کو 18 میٹر لمبی بس 288 روپے اور 12 میٹر لمبی بس 144 روپے میں دی جائے گی
اس وقت بی آر ٹی پشاور کے زیر استعمال 158 بسیں ہیں جو بارہ سال کا یہ معاہدہ مکمل ہونے کے بعد صرف بتیس ہزار روپے میں نجی کمپنی کو دی جائیں گی
اتنی کم رقم دیکھ کر سوشل میڈیا صارفین اس معاملے پر طرح طرح کے تبصرے کر رہے ہیں اور کوئی اس پر یقین کرنے کو تیار نہیں۔ہر شخص یہ جاننا چاہتا ہے کہ اتنی اچھی بسیں نجی کمپنی کو اس قدر سستے داموں کیوں دے دی جائیں گی؟
کیا واقعی یہ بسیں بارہ سال کی مدت مکمل ہونے پر اتنی سستی قیمت پر نجی کمپنی کو دے دی جائیں گی اور پاکستان میں چلنے والی دیگر میٹرو بسیں فراہم کرنے والی کمپنوں کے ساتھ بھی کیا ایسے ہی معاہدے موجود ہیں؟
اگر پشاور میں چلنے والی بی آر ٹی بسوں کے معاہدے پر نظر ڈالی جائے تو معاملہ واضح ہو جاتا ہے، جس کے تحت کمپنی کے ساتھ دو سال پہلے بارہ سال کے لیے معاہدہ کیا گیا ہے
اس معاہدے میں جہاں دیگر متعدد شقیں ہیں وہاں ایک شق یہ ہے کہ جب یہ بارہ سالہ معاہدہ مکمل ہو جائے گا تو اس وقت یہ بسیں اس کمپنی کو دے دی جائیں گی۔ اس کے لیے علامتی قیمت مقرر کی گئی ہے جو 288 روپے اور 144 روپے ہے
اس معاہدے کے تحت کمپنی نے رضا مندی ظاہر کی ہے کہ وہ یہ بسیں بارہ سال مکمل ہونے کے بعد خریدیں گے۔ بی آر ٹی کا معاہدہ ڈائیوو کمپنی کے ساتھ کیا گیا ہے جو یہ آپریشن جاری رکھے ہوئے ہیں
اس حوالے سے پشاور میں ٹرانس پشاور کی ترجمان صدف کامل کا کہنا ہے ”یہ ایک بین الاقوامی طریقہ کار ہے اور دنیا بھر میں جتنی بھی میٹرو بسیں ہیں ان کی عمر مکمل ہونے پر یہ بسیں اسی ٹھیکیدار یا کمپنی کو دے دی جاتی ہیں جس کے ساتھ معاہدہ کیا جاتا ہے“
انہوں نے بتایا ”ان بسوں کی عام طور پر عمر بارہ سال تک ہوتی ہے اور اس کے بعد ان بسوں کا چلنا نقصان دہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں جتنی بھی میٹرو بس سروس ہیں ان سب کی کمپنیوں کے ساتھ معاہدے کیے جا چکے ہیں اور یہ بسیں مالکانہ حقوق پر عمر یا معاہدہ مکمل ہونے پر اس کمپنی کو دے دی جائیں گی“
صدف کامل کہتی ہیں ”یہ معاہدہ اس طرح ہوتا ہے کہ کمپنی یا کنٹریکٹر کو فی کلومیٹر ادائیگی کی جاتی ہے اور یہ کمپنی ان بسوں کی مرمت اور ان کے چلانے کے اخراجات برداشت کرتی ہے“
صدف کامل نے بتایا ”یہاں دو طرح کے معاہدے ہوتے ہیں ایک کے تحت بسوں کی خریداری کی بنیادی ادائیگی حکومت کرتی ہے اور دوسری صورت میں بسوں کی ابتدائی ادائیگی ان کا آپریشن چلانے والی کمپنی کرتی ہے۔ یہاں فرق یہ ہوتا ہے کہ اگر حکومت ادائیگی کرتی ہے تو فی کلومیٹر قیمت کم ہو جاتی ہے“
”مثال کے طور پر پاکستان کے مختلف شہروں میں جو میٹرو بس سروس چل رہی ہیں، ان میں معاہدوں کے تحت جن بسوں کی ابتدائی ادائیگی کمپنی نے کی ہے، انہیں حکومت کی جانب سے بس کی قیمت میں 234 روپے فی کلومیٹر ادا کیے جا رہی ہے، جبکہ پشاور میں بی آر ٹی نے جو معاہدہ کیا ہے اس کے تحت کمپنی کو 187 روپے فی کلومیٹر ادا کیے جا رہے ہیں“
ان کا کہنا ہے ”بنیادی طور پر جو فرق آ رہا ہے وہ 47 روپے فی کلومیٹر کا آ رہا ہے۔ اگر ہم ایک بس کے سالانہ سفر کو دیکھیں تو ایک بس لگ بھگ 70000 کلومیٹر چلتی ہے۔ اگر اب 70000 کو 47 سے ضرب دیں تو بارہ سال کی کم سے کم رقم چار کروڑ روپے بن جاتی ہے تو بس کی قیمت اس رعایت سے مکمل ہو جاتی ہے“
صدف کامل کے مطابق جو بسیں بی آر ٹی کے لیے خریدی گئی ہیں ان کی اصل قیمت ڈیڑھ سے ڈھائی کروڑ روپے تک بتائی گئی ہے اور یہ فرق بسوں کی لمبائی کے حوالے سے ہے
پاکستان میں میٹرو بس سروس کے معاہدے
ذرائع ابلاغ اور پھر سوشل میڈیا پر یہ خبر ایسی وائرل ہوئی کہ ہر کوئی یہ سمجھ بیٹھا جیسے حکومت یہ بسیں کوڑیوں کے مول دے رہی ہے۔ یہ کوئی غلط بھی نہیں ہے لیکن ان کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں کے تحت جو رعایت کمپنی نے اس سروس کو چلانے میں دی ہے اس رعایت سے ہی آخر میں یہ بسیں کمپنی کو مل جائیں گی
لاہور میٹرو بس سروس، راولپنڈی اسلام آباد میٹرو بس سروس، ملتان اور کراچی میں چلنے والی بس سروس کے معاہدے بھی ایسے ہی ہیں، لیکن بی آر ٹی پشاور اس لحاظ سے بہتر ہے کہ وہ دیگر شہروں کی میٹرو کے مقابلے میں بارہ سال تک کمپنی کو کم ادائیگی کرے گا
مزید یہ کہ خیبر پختونخوا میں بی آر ٹی کے لیے کم از کم علامتی رقم رکھی تو گئی ہے، دیگر شہروں میں میٹرو بس سروس کے لیے یہ علامتی رقم بھی نہیں ہے
لاہور میٹرو بس سروس، راولپنڈی اسلام آباد میٹرو بس سروس، ملتان اور کراچی میٹرو بس سروس کے معاہدوں میں بس اتنا ہی لکھا گیا ہے کہ اس معاہدے کی مدت مکمل ہونے کے بعد یہ بسیں کمپنی کو مالکانہ حقوق پر دے دی جائیں گی یعنی بلکل مفت۔۔۔