حالیہ بارشوں کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاریوں کی وجہ سے نہ صرف بلوچستان میں آٹھ کے قریب چھوٹے ڈیم نقصانات سے دوچار ہوئے بلکہ ملک کے کئی حصوں میں سڑکیں، پل، انڈر پاسز، فلائی اوورز اور دیگر پراجیکٹس بھی کسی حد تک متاثر ہوئے ہوئے
اس حوالے سے کئی ناقدین کا خیال ہے کہ اس طرح کے میگا پراجیکٹس بناتے وقت عوامی مفاد کو پیش نظر نہیں رکھا جاتا
پلاننگ کمیشن کے سابق سیکریٹری فضل اللہ قریشی کہتے ہیں ”یہ پراجیکٹس کچھ لابیوں اور افراد کے مفاد میں بنائے جاتے ہیں۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال (ن لیگ کی طرف سے لاہور میں شروع کیا گیا) اورنج لائن کا منصوبہ ہے، جو تقریباً ڈھائی ارب ڈالر کا منصوبہ ہے، جس میں ہمیں ہر سال تقریباً پچاس ارب روپے چین کا قرض اتارنے کے لیے ادا کرنا ہے۔ بالکل اسی طرح میٹرو بس، اورنج لائن اور دوسرے پراجیکٹس نون لیگ نے شروع کیے لیکن ان پر سبسڈیز عوام کی جیب سے جا رہی ہے‘‘
فضل اللہ قریشی کا کہنا ہے ”میاں نواز شریف کو موٹروے بنانے کا شوق تھا لیکن ملک میں موٹروے بنانے پر جتنا پیسہ لگایا گیا اگر اس کا ایک مناسب حصہ بھی ریلوے پر لگا دیا جاتا تو ریلوے منافع بخش بھی ہوتا اور عوام کو بھی سہولیات میسر ہوتیں۔ موٹروے سے صرف ملک کی ٹرانسپورٹ لابی کو فائدہ ہوا۔ ایک ٹرین میں نوے کی دہائی میں سو کنٹینرز جاتے تھے۔ چودہ ٹرینیں دو ہزار کے قریب کنٹینرز لے کر جاتی تھیں۔ اب چودہ سو ٹرکس یہ کام کرتے ہیں، جس کی وجہ سے تیل کی درآمد بڑھی اور حکومتی اخراجات بھی‘‘
دوسری جانب ملک میں نکاسی آب اور سیوریج کا نظام انتہائی خستہ حال ہے۔ اس حوالے سے فضل اللہ قریشی کا کہنا ہے ”اس کی ایک وجہ ملک میں انتہائی کمزور بلدیاتی نظام ہے۔ گٹر لائن ڈالنا، پینے کا صاف پانی فراہم کرنا یا علاقوں میں سڑکیں بنانا یہ سارے پراجیکٹس بلدیاتی ادارے کرتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں بلدیاتی ادارے انتہائی کمزور ہیں اور ان کے پاس اختیارات نہ ہونے کے برابر ہیں‘‘
دوسری جانب اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار عامر حسین، جنہوں نے ورلڈ بینک اور مختلف عالمی اداروں کے پراجیکٹس پر کام کیا ہے، کہتے ہیں ”میگا پراجیکٹس میں عالمی مالیاتی اداروں اور بہت سارے کنسلٹنٹس کے مفادات بھی ہوتے“
عامر حسین کا کہنا ہے ”اس لیے وہ باقاعدہ ایک اسٹریٹجی بنا کر اس طرح کے پراجیکٹس ترقی پذیر ممالک کی اشرافیہ کو بیچتے ہیں۔ اشرافیہ کو اس میں کمیشن ملتا ہے جب کہ ماہرین کو بھاری بھرکم تنخواہ اور مراعات۔۔ سیاست دان ایسے پراجیکٹس کو سیاسی مفادات کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں، جن میں ن لیگ سر فہرست ہے‘‘
عامر حسین کہتے ہیں ”اس سے عالمی مالیاتی اداروں کا مقصد بھی پورا ہوتا ہے، کیونکہ اس کے ذریعے وہ غریب ممالک پر قرضہ لادتے ہیں اور ان کو ایسے پراجیکٹس دیتے ہیں جن کی کوئی کمرشل حیثیت بھی نہیں ہوتی اور وہ حکومت کو کسی طرح کا مؤثر ریونیو بھی نہیں دے پاتے‘‘
کئی ناقدین کا خیال ہے کہ یہ پراجیکٹس قرض لے کر بنائے جاتے ہیں اور عوام کے لیے عذاب بن جاتے ہیں۔ عامر حسین کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتیں خصوصی پاکستان مسلم لیگ ان پروجیکٹس سے آنے والے قرضوں کے طوفان کے بارے میں نہیں بتاتی
انہوں نے مزید کہا ”اس کے لیے ٹیکسوں کا بوجھ ڈالا جاتا ہے۔ مہنگائی کو بڑھایا جاتا ہے۔ جیسا کہ ابھی بھی یہ ہو رہا ہے، جس سے عام آدمی کی زندگی مشکل ہوجاتی ہے۔‘‘
پاکستان میں انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ کے حوالے سے پاکستان مسلم لیگ نون ہمیشہ ہدف تنقید رہی ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے بھی 2018ع کے انتخابات سے پہلے نون لیگ کو ڈویلپمنٹ کے حوالے سے سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا
ترقیاتی امور کے کئی ماہرین بھی اس حوالے سے نون لیگ پر تنقید کرتے ہیں۔ کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ 1990 سے لے کر اب تک سیف سٹی پراجیکٹس، میٹرو و اورنج لائنز، موٹر ویز اور مختلف سڑکوں کی تعمیر میں چودہ سو ارب روپے سے زیادہ پیسہ خرچ ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ ہر برس پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ اسکیم میں بھی ایک خطیر رقم سڑکوں انڈر پاسز اور فلائی اوورز وغیرہ کی تعمیر کے لیے مختص کی جاتی ہے لیکن اس کے باوجود ملک میں ہر سال ہزاروں افراد خوفناک حادثات یا قدرتی آفات میں ہلاک ہو جاتے ہیں
کئی حلقوں میں یہ تاثر بھی ہے کہ جہاں موٹر ویز اور کچھ سڑکوں کی تعمیر پر بے تحاشہ پیسہ خرچ کیا گیا ہے، وہی اندرون شہر کی سڑکوں کو لاوارث چھوڑ دیا گیا ہے
پاکستان مسلم لیگ ن ان الزامات کو مسترد کرتی ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ میگا پراجیکٹس بناتے وقت عوامی مفاد کو ہمیشہ پیش نظر رکھا گیا۔ پاکستان مسلم لیگ سندھ کے صدر شاہ محمد شاہ کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ نون نے جتنے بھی پراجیکٹس بنائے اس سے ایک عام آدمی کو فائدہ ہوا۔