آذربائیجان کو ’آگ کی سرزمین‘ کیوں کہا جاتا ہے؟

عبدالخالق بٹ

شکم کی آگ لیے پھر رہی ہے شہر بہ شہر،

سگِ زمانہ ہیں، ہم کیا ہماری ہجرت کیا۔۔

شعر افتخار عارف کا ہے، اور اُن کے منفرد اسلوب کا ترجمان ہے۔ اس شعر میں ہماری دلچسپی لفظ ’آگ‘ سے ہے۔ ’ہوا، پانی اور مٹی‘ کے ساتھ ’آگ‘ کا شمار اُن چار عناصر میں کیا گیا ہے، جو تشکیلِ اجسام کا باعث ہیں

اردو اور ہندی میں یکساں استعمال ہونے والے لفظ ’آگ‘ کی اصل سنسکرت کا ’اگنی‘ ہے۔ یہی اگنی معمولی تغیّر کے بعد پنجابی میں ’اگ‘ اور اردو و ہندی میں ’آگ‘ ہے

سنسکرت کا ’اگنی‘ لاطینی زبان میں ‘ignis’ کی صورت میں موجود ہے، تاہم اس کے تلفظ میں ’g‘ خاموش ہے، نتیجتاً اس ’ignis‘ کا تلفظ ’اینیس‘ کیا جاتا ہے

سنسکرت ہی میں ’آگ‘ کو ’اگنی‘ کے علاوہ اور بھی درجنوں ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ ان بہت سے ناموں میں سے ایک ’ہوت آش / हुताश’‘ بھی ہے۔ اگر غور کریں تو اس ’ہوت آش‘ کو فارسی کے ’آتش‘ سے قریب پائیں گے

اگر ’ہوت آش‘ فارسی کے ’آتش‘ کی اصل ہو تو حیرت کی بات نہیں کہ سنسکرت اور قدیم فارسی ماجائی بہنیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان زبانوں کے سینکڑوں بلکہ ہزاروں الفاظ میں غیر معمولی مناسبت و مشابہت پائی جاتی ہے

اس سے پہلے کہ فارسی ’آتش‘ پر بات ہو، یہ سمجھ لیں کہ فارسی میں آگ کو ’آذر‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس لفظ کو آپ کاکیشیائی مُلک ’آذربائیجان‘ کے نام میں بھی دیکھ سکتے ہیں، جس کے معنی ’آگ کی سرزمین‘ کے ہیں

’آذربائیجان‘ کو یہ نام دو وجوہ کی بنیاد پر ملا ہے۔ اول یہ کہ اس خطے میں ایک سے زیادہ مقامات ایسے ہیں، جہاں سینکڑوں برسوں سے مستقل آگ روشن ہے۔ دوم یہ کہ ایران و توران میں آتش پرستی کو مذہب کا درجہ دینے والے ’زُرتُشت‘ کا تعلق بھی اسی سرزمین سے تھا۔ اُسی کے زیر اثر یہاں جا بجا آتش کدے قائم ہوئے۔ غالباً انہی آتش کدوں کی بدولت اس سرزمین کو ’آذربائیجان‘ پکارا گیا

آپ کو یہ جان کر یقیناً حیرت ہوگی کہ لفظ ’آتش‘ اور ’آذر‘ نہ صرف ہم معنی الفاظ ہیں، بلکہ یہ دونوں اصلاً ایک ہی لفظ کی دو مختلف صورتیں ہیں

’لغت نامہ دہخدا‘ کے مؤلف علی اکبر دہخدا کے مطابق، قدیم ژند زبان میں آگ کو ’آترس‘ جب کہ قدیم اوستائی زبان میں ’آتر‘ کہا جاتا تھا۔ یہی ’آترس‘ ایک طرف ’آتش‘ ہوا تو دوسری طرف ’آترس‘ سے ’آتر‘ اور پھر ’آتر‘ سے ’آذر‘ بن کر سُلگ اٹھا

فارسی اور عربی کی رعایت سے اردو میں ’آذر‘ اور ’آزر‘ دو مختلف الفاظ رائج ہیں۔ صوتی اعتبار سے یکساں معلوم ہونے والے یہ الفاظ معنوی اعتبار سے ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں

واضح رہے کہ پہلا لفظ ’ذال‘ کے ساتھ ’آذر‘ جب کہ دوسرا لفظ ’زے‘ کے ساتھ ’آزر‘ ہے

مؤرخین کے مطابق ’آزر‘ جناب ابراہیم کے والد یا چچا کا نام تھا، جو ایک بُت تراش تھے۔ فارسی اور اس کی رعایت سے اردو ادب میں ’آزر‘ کا نام اسی معنی و مفہوم میں بطور تلمیح استعمال ہوتا آیا ہے۔ اس کو شاعر ’ظفر سنبھلی‘ کے ہاں بھی دیکھ سکتے ہیں:
بت تراشے ہزار آزر نے،
بت کو غم آشنا کیا نہ گیا۔۔

اس حقیقت کے باوجود کہ ’آذر‘ اور ’آزر‘ دو الگ الفاظ ہیں، عام طور پر ان دونوں الفاظ کے املا میں تمیز روا نہیں رکھی جاتی۔ نتیجتاً جہاں ’آزر‘ لکھنا ہو، وہاں بھی غلط طور پر ’آذر‘ لکھ دیا جاتا

پہلے بھی لکھ آئے ہیں کہ الفاظ کا ایک زبان سے دوسری زبان میں آنا اور اس میں گُھل مل جانا زبانوں کی زندگی کی علامت ہے۔ ایسے الفاظ اگر عربی زبان میں آئیں تو ’مُعَرَّب‘، فارسی زبان میں داخل ہوں تو ’مُفَرَّس‘ جب کہ ہندی زبان کا حصہ بن جانے پر ’مُہَنَّد‘ کہلاتے ہیں

یوں تو ذخیرہ الفاظ کے اعتبار سے عربی دنیا کی سب سے ثروت مند زبان ہے، تاہم الفاظ سے مالا مال اس زبان میں عہدِ قدیم ہی سے دیگر زبانوں کے الفاظ کو مرحبا کہا جاتا رہا ہے

عربی میں داخل ہو کر مُعَرَّب بن جانے والے ایسے ہی بہت سے الفاظ میں سے ایک لفظ ’ورق‘ ہے

عربی زبان میں پتے کے معنی میں استعمال ہونے والا ’ورق‘، اپنی جمع ’اوراق‘ اور واحد ’ورقہ‘ کے ساتھ دسیوں تراکیب میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً اگر پتے دار درخت کو ’وَرَّقَتِ الشَجِرَۃُ‘ کہا جاتا ہے، تو قحط سالی کا زمانہ ’عام اوراق‘ کہلاتا ہے

آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ عربی کے اس ’ورق‘ کی اصل فارسی کا ’برگ‘ ہے۔ ہُوا فقط اتنا ہے کہ فارس سے سرزمین عرب پہنچنے پر ’برگ‘ کے اول و آخر حروف بالترتیب ’واؤ‘ اور ’ق‘ سے بدل گئےاور یوں اس ’برگ‘ نے ’ورق‘ کا روپ دھار لیا۔ اب اس ’برگ‘ کو اقبال آصف کے شعر میں ملاحظہ کریں:
برگ ٹھہرے نہ جب ثمر ٹھہرے،
ایسے موسم پہ کیا نظر ٹھہرے۔۔

اردو میں رائج فارسی الفاظ میں سے ایک ’ستون‘ بھی ہے۔ ستون پہلوی لفظ ہے، جس کی اوستائی صورت ’ستونہ‘ ہے۔ فارسی ہی میں ’ستون‘ کو ’استون‘ بھی لکھا جاتا ہے۔ یہی ’استون‘ جب عربی میں پہنچا تو ’اسطوانہ‘ کہلایا اور عمود و قائمہ کے معنی میں استعمال ہوا

اس ’اسطوانہ‘ کو مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے تاریخی ستونوں کے ناموں میں دیکھا جا سکتا ہے، جو اسطوانہ مُصحف، اسطوانہ توبہ، اسطوانہ المحرس اور اسطوانہ الوفود وغیرہ کہلاتے ہیں

عربی زبان ہی میں ہر اُس جسم کو بھی اسطوانہ کہا جاتا ہے، جو لمبائی، چوڑائی اور گہرائی رکھتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ انگریزی کا سلنڈر (Cylinder) عربی میں ’اسطوانہ‘ پکارا جاتا ہے۔

بشکریہ: اردو نیوز

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close