ڈالر 224 روپے کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گیا، ’فچ‘ نے بھی ریٹنگ منفی کر دی

ویب ڈیسک

سیاسی بےیقینی کے ماحول میں جہاں پاکستان میں روپے کی قدر میں کمی اور اسٹاک مارکیٹ میں گراوٹ نظر آ رہی ہے وہاں عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی فچ نے بھی پاکستان کی ریٹنگ مستحکم سے منفی کر دی ہے

منگل کو دنیا کی بڑی ریٹنگ ایجنسی کا فیصلہ سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اور جلد الیکشن سے آئی ایم ایف پروگرام کے حوالے سے پالیسی بھی خطرے کا شکار ہے اور ڈالر کے ذخائر بھی دباؤ میں ہیں۔‘

منگل کے روز پاکستانی کرنسی کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں زبردست اضافے کا رجحان نظر آیا۔ ڈالر ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا، فاریکس ڈیلرز کے مطابق ڈالر کی قدر میں پانچ روپے کا اضافہ ہوا اور ملک میں ڈالر 222 روپے کا ہو گیا ہے

معاشی ماہرین کا کہنا ہے ڈالر کی قدر میں اضافے کی اہم وجہ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی ہے۔ امپورٹ بل میں ریکارڈ اضافے اور اخراجات میں کمی نہ کرنے کی وجہ سے روپیہ دباؤ میں ہے

آئی ایم ایف سے قسط ملنے کے اعلان پر وقتی طور پر روپے کی قدر میں بہتری ہوئی تھی تاہم یہ زیادہ دیر نہ چل سکی

ہنگامی بنیادوں پر مضبوط معاشی پالیسی نہ دی گئی تو آنے والے دنوں میں حالات مزید خراب ہو جائیں گے۔ گذشتہ روز ایک ڈالر کہ قیمت 215.19 پر بند ہوئی تھی

معاشی تجزیہ کار خرم حسین کا کہنا ہے کہ ’مارکیٹ میں ڈالر کی قلت ہو گئی ہے اور سیاسی عدم استحکام بھی شدید ہو چکا ہے۔ ان دونوں عوامل نے ملا کر روپے پر بہت پریشر ڈال دیا ہے جس کی وجہ سے پاکستانی کرنسی کی قیمت میں مسلسل کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔‘

فچ کی ریٹنگ منفی کرنے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس سے پاکستان کے تاثر پر فرق پڑے گا اور دنیا پاکستان کی معیشت کو اسی تناظر میں دیکھے گی

فنچ نے ریٹنگ کیوں منفی کی؟

اپنی ویب سائٹ پر امریکی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی نے پاکستان کی ریٹنگ میں گراوٹ کی سات سے زائد وجوہات دی ہیں۔ سب سے اہم وجوہات میں سیاسی خدشات، زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی اور مالیاتی خسارہ شامل ہیں

فچ کے مطابق سال 2022 کے اوائل سے پاکستان کی مالی پوزیشن کے حالات میں بگاڑ نظر آ رہا ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کے سٹاف لیول معاہدے کے باوجود اس کے نفاذ اور مسلسل رسائی کے لیے کافی خطرات نظر آ رہے ہیں۔
سخت اقتصادی اور سیاسی ماحول میں جون 2023 میں پروگرام کی میعاد ختم ہونے کے بعد فنانسنگ ایک مسئلہ ہوگا

ایجنسی کے مطابق نئے سرے سے سیاسی اتار چڑھاؤ کو خاص طور پر سست ترقی اور بلند افراط زر کے موجودہ ماحول میں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور یہ ملک کی مالی اور بیرونی ایڈجسٹمنٹ کو نقصان پہنچا سکتا ہے، جیسا کہ 2022 اور 2018 کے اوائل میں ہوا

ویب سائٹ کے مطابق سابق وزیراعظم عمران خان جنہیں 10 اپریل کو عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے معزول کر دیا گیا تھا، نے حکومت سے قبل از وقت انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا ہے اور ملک بھر کے شہروں میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے کر رہے ہیں

نئی حکومت کو پارٹیوں کے ایک متضاد اتحاد کی حمایت حاصل ہے جس کی پارلیمنٹ میں صرف ایک چھوٹی اکثریت ہے۔ باقاعدہ انتخابات اکتوبر 2023 میں ہونے والے ہیں، جس سے آئی ایم ایف پروگرام کے اختتام کے بعد پالیسی میں عدم استحکام کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے

زرمبادلہ ذخائر پر دباؤ

فچ کے مطابق پاکستان کے زرِمبادلہ کے زخائر دباؤ میں ہیں۔ محدود بیرونی فنڈنگ ​​اور بڑے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے نے زرمبادلہ کے ذخائر کو ختم کر دیا ہے کیونکہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے کرنسی کی قدر میں کمی کو کم کرنے کے لیے ذخائر کا استعمال کیا ہے

پاکستان کے ڈالر کے ذخائر جون 2022 تک تقریباً دس ارب ڈالر یعنی موجودہ بیرونی ادائیگیوں کے صرف ایک ماہ سے زیادہ رہ گئے ہیں، جو پی ٹی آئی کی حکومت میں ایک سال پہلے تقریباً سولہ ارب ڈالر سے کچھ کم تھے

فچ نے کہا کہ ان کا تخمینہ ہے کہ جون 2022 کو ختم ہونے والے مالی سال میں کرنٹ اکاونٹ خسارہ سترہ ارب ڈالر تک پہنچ گیا جس کی وجہ تیل کی عالمی قیمتوں میں اضافہ اور درآمدات میں اضافہ ہے

مالیاتی سختی، بلند شرح سود، توانائی کی کھپت کو محدود کرنے کے اقدامات اور درآمدات مالی سال 2023 میں خسارے کو دس ارب ڈالر تک محدود رہنے کی ہماری پیشن گوئی کو تقویت دیتی ہیں

فچ کے مطابق مالی سال 2023 میں پاکستان کا قرض تقریباً اکیس ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی

میٹس گوبل کے ڈائریکٹر سعد بن نصیر نے کہا کہ ضمنی انتخابات کے بعد پنجاب اور مرکز میں حکومت کی تبدیلی کے خوف کی وجہ سے مالیاتی منڈیاں افراتفری کا شکار ہیں اور ڈالر خرید رہے ہیں

ان کا کہنا تھا کہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ، دوست ممالک اور دوطرفہ ذرائع سے رقم کے حصول کے حوالے سے تحفظات کی وجہ سے درآمد کنندگان کی مانگ میں بھی اضافہ ہوا ہے

سعد بن نصیر نے ان تمام عوامل کے علاوہ امریکی ریٹنگ ایجنسی ’فچ ‘ کی جانب سے پاکستان کی ریٹنگ مستحکم سے منفی کیے جانے کو بھی مارکیٹ میں افراتفری کی وجہ قرار دیا

چئیرمین فاریکس ایسوسی ایشن ملک بوستان نے کہا کہ ملک میں سیاسی حالات کو جواز بنا کر بینک ڈالر کی قیمت میں سٹہ بازی کررہے ہیں جس کا اسٹیٹ بینک کو نوٹس لینا چاہیے

انہوں نے کہا کہ مارکیٹ میں غیر ضروری طور پر ڈالر کی قیمت کو بڑھنے سے روکنا چاہیے، بینکس کی اجاراہ داری کے خاتمے کے لیے فوری طور پر ڈالر کی فاروڈ بکنگ پر پابندی عائد کی جائے تاکہ مارکیٹ میں پینک والی صورتحال کو روکا جا سکے

سرمایہ کاری فرم الفا بیٹا کور کے چیف ایگزیکٹو آفیسر خرم شہزاد نے بھی روپے کی تیزی سے گراوٹ کی وجہ فچ کی جانب سے ریٹنگ میں کمی اور عالمی رجحان کو قرار دیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close