صوبہ پنجاب میں بیس نشتوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات کے بعد پنجاب سے مسلم لیگ (ن) اور اتحادیوں کی حکومت کے خاتمے کی راہ تو ہموار ہو گئی ہے لیکن وفاق میں وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت بھی خطرے میں دکھائی دے رہی ہے
تجزیہ نگاروں کے مطابق حکومت کے اتحادیوں کی خاموشی اور عمران خان کی جانب سے کسی بڑے سرپرائز کے بعد شہباز شریف مشکل سے دوچار ہو سکتے ہیں
ضمنی انتخابات کے نتائج سامنے آنے کے بعد سے اب تک حکومت کی اتحادی جماعتیں خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں اور مشاورت کے لیے اپنے اپنے پارٹی اجلاس طلب کر لیے ہیں۔ تاہم حکومت کی اتحادی جماعتوں کے اندر سے عام انتخابات کے لیے آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما مصطفیٰ نواز کھوکھر نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ضمنی الیکشنز سے واضح ہو گیا کہ اتحادی حکومت عوام کی تائید کھو چکی ہے۔‘
مصطفیٰ نواز کھوکھر کو موجودہ حکومت میں وزیر مملکت کا عہدہ دیا گیا تھا، جو انہوں نے اسے قبول کرنے سے معذرت کر لی تھی
ان کا مزید کہنا تھا ’سیاسی جماعتیں ابھی تک ذہنی طور پر نوے کی دہائی میں پھنسی ہوئی ہیں۔ آبادی میں نوجوانوں کا تناسب، کرپشن کا تدارک، اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ دور حاضر سیاست کے لازمی جزو ہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ مہنگائی آسمانوں سے باتیں کر رہی ہو اور عوام ہمارے گلوں میں پھولوں کے ہار ڈالیں۔‘
اردو نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق ادارے نے موجودہ حکومت کی اہم اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں سے رابطے کی کوشش کی لیکن انھوں نے موجودہ صورت حال پر خاموش رہنا ہی مناسب سمجھا ہے
رپورٹ کے مطابق صرف جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ترجمان اسلم غوری نے جواب دیا اور صرف اتنا کہا ’جمیعت علمائے اسلام پاکستان ایک جماعت ہے اور فیصلے بھی جماعت ہی کرتی ہے۔‘
صورتحال پر تجزیہ نگار افتخار احمد کا کہنا ہے ’پنجاب کے ضمنی انتخابات کے بعد اتحادی شاک میں ہیں۔ ان کو امید نہیں تھی کہ تحریک انصاف اتنی بڑی کامیابی لے کر ساری سیاسی صورتحال ہی تبدیل کر دے گی۔ اب تو وفاقی حکومت بھی خطرے میں ہے۔ اگر آج عمران خان شہباز شریف کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ دیں تو وہ اعتماد کا ووٹ نہیں لے سکیں گے۔ عمران خان اگر ایوان میں واپس آ جائیں تو وہ وزیر اعظم بھی بن سکتے ہیں۔ یہ وہ صورتحال ہے، جس کے اس وقت واضح امکانات ہیں۔‘
انھوں نے کہا ’اس وقت مسلم لیگ (ن) اور اتحادیوں کے پاس سوائے اسمبلیاں تحلیل کرنے کے کوئی راستہ نہیں بچا، تاہم اتحادی مسلم لیگ کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ کیا فیصلہ کرتی ہے‘
افتخار احمد نے کہا کہ اگر عمران خان دوبارہ وزیراعظم بن جاتے ہیں تو بے یقینی اور ملکی معاملات کے حوالے سے مزید مشکلات ہوں گی کیونکہ اگر انہوں نے نومبر میں ہونے والی تقرری وقت سے پہلے کی، تو بھی ادارے کی جانب سے ردعمل اور بد دلی سامنے آئے گی۔ عمران خان نے ای وی ایم اور اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ کی بحال کرنے کی کوشش کی، تب بھی عملی طور پر ان پر عمل مشکل ہو جائے گا اور انتخابات کا انعقاد مشکل ہو جائے گا۔‘
دوسری جانب تجزیہ نگار رسول بخش رئیس کہتے ہیں ”حکومت کے اتحادی صرف مسلم لیگ ن ہی کی طرف نہیں بلکہ پیپلز پارٹی کی طرف بھی دیکھ رہے ہیں کیونکہ موجودہ صورت حال میں اگر فوری طور پر انتخابات کی طرف جائیں گے تو سندھ بھی پیپلز پارٹی کے ہاتھ سے نکل سکتا ہے جو پیپلز پارٹی افورڈ نہیں کر سکتی۔ اگر اتحادی جماعتیں فوری طور پر انتخابات میں نہیں جاتیں تو عمران خان اگلے ایک سال ان کے خلاف انتخابی مہم چلائیں گے اور یہ دفاعی پوزیشن پر رہیں گے“
انھوں نے کہا کہ ’یہ پہلی دفعہ ہو رہا ہے کہ جس پارٹی کا وزیراعظم ہے، اس کی باقی کسی صوبے میں حکومت نہیں ہے۔ ایسے میں وہ راولپنڈی، مری اور اٹک بھی نہیں جا سکتے تو ان کے پاس انتخابات میں جانے کے علاوہ کوئی راستہ بچا نہیں ہے۔‘
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’صدر عارف علوی شہباز شریف کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ سکتے ہیں لیکن وہ ایسی صورت میں کہیں گے جب حکومتی اتحادیوں کی جانب سے اشارے ملنا شروع ہو جائیں گے کہ وہ اب مزید اس اتحاد میں شامل نہیں رہنا چاہتے۔‘
پاکستان تحریک انصاف کی اسمبلیوں میں واپسی کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ یہ سوال اپنی جگہ موجود ضرور ہے لیکن موجودہ حالات میں ممکن نہیں کہ تحریک انصاف انتخابات میں جانے کے علاوہ کوئی فیصلہ کرے۔