ماحولیاتی تبدیلی نے جہاں پورے بلوچستان کو اپنی لپیٹ میں لیا وہیں ضلع مستونگ کا علاقہ مرو بھی اس تبدیلی سے شدید متاثر ہوا ہے
مستونگ میں زیر زمین پانی کا لیول چھ سو فٹ تک گر جانے سے باغات خشک ہو رہے ہیں اور ان کی پیداواری صلاحیت متاثر ہو رہی ہے۔
مرو کے مقامی زمیندار نوید کرد کے باغ میں پہلے پانی کی فراہمی کے لیے ایک بورنگ تھا، جن کو بڑھا کر وہ تین بورنگ تک کر چکے ہیں، لیکن پھر بھی درختوں کو پانی مکمل طور پر نہیں مل پا رہا ہے
1988ع میں جب اس علاقے میں بجلی کی سہولت میسر ہوئی تو زیر زمین پانی کا ٹیبل لگ بھگ چالیس پچاس فٹ کے قریب تھا، لیکن اب زیر زمین پانی کا لیول چھ سو فٹ تک جا پہنچا ہے
جب یہاں کے زمینداروں نے زمینداری شروع کی تو ایک ٹیوب ویل سے ہزار درختوں کو پانی دیا جا سکتا تھا، لیکن اب ایسا ممکن نہیں
واضح رہے کہ عالمی ادارہ جرمن واچ کی رپورٹ ’گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس 2021‘ کے مطابق ماحولیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک کی ’ٹاپ 10‘ فہرست میں پاکستان کا آٹھواں نمبر ہے
پانی کی کمی کے باعث گذشتہ دو سالوں میں نوید کرد کے باغ کی پیداواری صلاحیت پر بہت زیادہ منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اور وہ آلوچے کی فصل کم ہونے پر پریشان ہیں
نوید بتاتے ہیں ”اس سال فصل کم ہوئی ہے۔ پچھلے سال ایک باغ سے دس ہزار کاٹن نکلتے تھے، اس سال دو ہزار کاٹن بھی بمشکل نکل پا رہے ہیں“
نوید کرد کے مطابق: ”میرے باغ سے (آلوچوں کی) ایک سو گاڑیاں بھر کر نکلا کرتی تھیں لیکن گذشتہ تین سالوں میں ٹڈی دل اور ژالہ باری نے باغات کو اس حد تک نقصان پہنچایا کہ ان تین سالوں کے دوران میرے باغ سے ایک گاڑی بھی لوڈ نہیں کی جاسکی“
دوسری جانب مرو میں ڈیم نہ ہونے کی وجہ سے بارشوں کا پانی بھی ضائع ہو رہا ہے۔ نوید کہتے ہیں ”اگر بلوچستان حکومت ڈیم بنانا چاہے تو ہم اہل علاقہ مفت زمین فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں“
دوسری جانب محکمہ زراعت کے ڈاکٹر قاسم کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں پانی کے ذرائع صرف زیر زمین پانی کی سطح ہے، جو کہ بارشوں کی وجہ سے ریچارج ہوتی ہے
ان کا مزید کہنا تھا ”ماحولیاتی تبدیلی کے باعث بلوچستان کو بارشوں کی کمی کا سامنا ہے۔ اگر بارشیں ہو بھی جائیں تو اس کی شدت اتنی تیز ہوتی ہے کہ پانی ریچارج ہونے کے بجائے سیلاب کی شکل اختیار کرتے ہوئے بہہ جاتا ہے“
ڈاکٹر قاسم بتاتے ہیں کہ محکمہ زراعت موجودہ پانی کے ذخائر کو درست طریقے سے استعمال کرنے کے لیے اقدامات اٹھا رہا ہے، جن میں پکے تالاب و نالیاں، ڈرپ ایریگیشن نظام، ٹنل فارمنگ اور حکومت بلوچستان کا ایک سو ڈیمز کا منصوبہ شامل ہے
وہ کہتے ہیں ”دستیاب پانی کا صحیح استعمال کیا جائے تو ہم کافی حد تک پیداوار میں بہتری لا سکتے ہیں“
ڈاکٹر قاسم کا کہنا تھا ”پائلٹ پراجیکٹ کے تحت پورے بلوچستان میں ہر زمیندار صرف ایک ایکٹر پر کاشت کے نئے جدید طریقوں کو اپنائے تو اس سے زمیندار خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کتنا فائدہ حاصل ہو سکتا ہے“
ٹنل فارمنگ کاشت کاری کا جدید طریقہ ہے، جس میں کم پیسہ خرچ کرکے زیادہ پیداوار حاصل کی جاسکتی ہے، جس کے لیے زیادہ زمین کی ضرورت بھی نہیں پڑتی۔ دنیا بھر میں ٹنل فارمنگ کا طریقہ کار اپنایا جا رہا ہے
پانی کی کمی کا سامنا کرنے والے علاقوں میں ڈریپ ایریگیشن کا طریقہ کار کافی موثر ثابت ہو رہا ہے، جس کے تحت کم پانی سے زیادہ رقبے کو سیراب کیا جا سکتا ہے
اس کی ایک مثال کوئٹہ میں واقع ایگریکلچر ریسرچ انسٹیٹیوٹ کا سبزیوں کا سیکشن ہے، جہاں پر سبزیوں کو ڈرپ ایریگیشن کے ذریعے پانی دیا جاتا ہے
ڈاکٹر قاسم کہتے ہیں ”ڈرپ ایریگیشن سے ہم 60 فیصد تک پانی بچا پاتے ہیں۔ زمینداروں کو چاہیے کہ وہ ڈرپ ایریگیشن کے ذریعے اپنی فصل کو پانی دیں“
یاد رہے کہ پانی کی کمی کو دور کرنے کے لیے وفاقی حکومت نے 2009ع میں بلوچستان بھر میں ایک سو ڈیموں کی تعمیر کے منصوبے آغاز کیا تھا، جسے پانچ فیز میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے فیز میں بیس اور دوسرے فیز میں چوبیس ڈیم تعمیر کیے جا چکے ہیں، جبکہ منصوبے کے تیسرے فیز پر کام جاری ہے۔