آپ کو یاد ہوگا شروع شروع میں جب اسمارٹ فون بازار میں آیا تھا تو اسے استعمال کرنا کافی مشکل لگتا تھا، اسی لیے کچھ لوگوں نے اسے مسترد کر دیا ،یہ لوگ اُن دنوں بہت فخریہ انداز میں کہتے تھے کہ بھئی ہمارے پاس تو سادہ سا فون ہے ، جس میں ’send‘ اور ’end‘ کے علاوہ کوئی بٹن نہیں دبانا پڑتا۔ یہ زیادہ تر ادھیڑ عمر کے لوگ تھے، جنہیں تبدیلی پسند نہیں تھی۔ اسی لیے وہ کچھ عرصے تک سادے فون کے ساتھ چپکے رہے اور اپنی اِس شوخی پر اتراتے رہے مگر پھرکچھ عرصے کے اندر ہی سمارٹ فون ٹیکنالوجی کا ایسا سیلاب آیا کہ انہیں اُس کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے۔
دراصل یہ بات ٹیکنالوجی کی نہیں مائنڈ سیٹ کی ہے، کچھ لوگ حالتِ انکار میں رہتے ہیں اور حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے جبکہ کچھ لوگ بہت جلد نئی حقیقت کو تسلیم کرکے خود کو اُس کے مطابق ڈھال لیتے ہیں۔ حالتِ انکار میں رہنے والے لوگوں کی اپنی ایک الگ دنیا ہوتی ہے، جو اُس دنیا سے یکسر مختلف ہوتی ہے، جہاں عوام کی اکثریت رہتی ہے، اِس لیے انہیں درست طور پر اندازہ ہی نہیں ہو پاتا کہ اصل دنیا میں لوگ کیا سوچتے ہیں اور کیسے رہتے ہیں!
اسمارٹ فون کا انکار کرنے والے یہی لوگ تھے، جنہیں کئی سال تک یہ پتا ہی نہیں چلا کہ اُن کے اِرد گرد کی دنیا بدل چکی ہے۔ اِس قسم کے لوگ طویل عرصے تک کہتے رہے کہ سوشل میڈیا فقط بڑے شہروں کے پوش علاقوں تک محدود ہے، لہٰذا اس سے متاثر ہونے کی ضرورت نہیں، اصل عوام وہ ہیں جو اِن پوش علاقوں کے باہر رہتے ہیں۔ یہی وہ لوگ تھے جو اپنے مخالف کو فیسبک کا لیڈر ہونے کا طعنہ دیتے تھے، انہیں ادراک ہی نہیں ہو پایا کہ دنیا میں ٹیکنالوجی انقلاب برپا کرچکی ہے۔ اب ٹانگے والے سے لے کر کمپنی کے سی ای او تک، ہر شخص کے ہاتھ میں فون ہے اور اُس میں فیسبک، ٹویٹر، انسٹا گرام، اسنیپ چیٹ، یو ٹیوب اور ٹک ٹاک سب انسٹال ہے۔ دن کے چوبیس گھنٹوں میں سے بیس گھنٹے وہ اِن ایپس پر لگائی جانے والی جھوٹی سچی پوسٹس دیکھتا ہے، اُن سے متاثر ہوتا ہےاور اپنی رائے قائم کرتا ہے۔
یہ انسانی نفسیات ہے کہ اگر آپ کسی انسان کے سامنے ایک ہی بات بار بار دہرائیں گے تو وہ اسے سچ سمجھنے لگے گا، خاص طور سے اُس وقت جب اُس بات کو اسی شدت کے ساتھ رد کرنے والا کوئی دوسرا شخص موجود نہیں ہوگا۔ حالتِ انکار میں رہنے والے خود ساختہ سیانے چونکہ سوشل میڈیا پر یقین ہی نہیں رکھتے تھے اِس لئے بجائے اِس کے کہ وہ اِس میڈیا کی طاقت سے فائدہ اٹھاتے، اُلٹا انہوں نے اِس کا استعمال کرنے والوں کامذاق اڑایا۔
آپ اِس بات سےاندازہ لگائیں کہ کچھ عرصہ پہلے ’کریلے گوشت فیم وزیر‘ نے ایک ٹی وی پروگرام میں اپنے مخالف کا تمسخر اڑاتے ہوئے کہا کہ وہ تو پوڈ کاسٹ کرتا پھرتا ہے!گویا اپنے مخالف کی صلاحیت سے سیکھنے کی بجائے موصوف نےاپنے تئیں اُس کا ریکارڈ لگانےکی کوشش کی اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔۔ وہ بندہ پوڈ کاسٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے لاکھوں لوگوں تک بلا روک ٹوک اپنا پیغام پہنچاتا رہا اور یہ موصوف لوگوں کو کریلے گوشت کھانے کے طعنے دیتے رہے۔
ایک عوامی نمائندہ گزشتہ دنوں ایک سرکاری افسر سے ملنے آیا، ملاقات کے دوران اُس نے افسر سے کہا کہ وہ اسے اپنا فون نمبر لکھ کر دے کیونکہ ’میرا فون میرے گن مین کے پاس ہوتا ہے، جو باہر بیٹھا ہے، مجھے نمبر سیو کرنا نہیں آتا۔‘ جس نمائندے کا یہ حال ہو، اسے کون عوامی نمائندہ کہے گا۔
یہ وہ ذہنیت ہے، جو اب تک نوّے کی دہائی میں زندہ ہے۔ اِن لوگوں کو اندازہ ہی نہیں کہ جو بچہ آج اٹھارہ سال کا ہے، وہ کیسے سوچتا ہے، اُس کا ذہن کِن باتوں سے متاثر ہوتا ہے اور وہ فرسودہ طور طریقوں کو کس کراہت کے ساتھ برداشت کرتا ہے۔ یہ اٹھارہ سے اکیس برس تک کے بچے بچیاں ہر سال لاکھوں کی تعداد میں ووٹروں کی شکل میں بڑھ رہے ہیں، انہیں ایک پوسٹر پر خاندان کے چار افراد کی تصویر قطعاً مرعوب نہیں کرتی اور نہ ہی یہ روایتی قسم کی نعرے بازی سے متاثر ہوتے ہیں۔ مگر پوڈ کاسٹ کا مذاق اڑانے والے اِن باتوں کو کیا جانیں۔۔ وہ ابھی تک اسی طریقہ کار سے ہی باہر نہیں آئے جب گھر گھر جا کر لوگوں کو ووٹ کی پرچی بنا کر دی جاتی تھی اور ہاتھ میں بھونپو پکڑ کر جلسے کا اعلان کیا جاتا تھا۔ انہیں اندازہ ہی نہیں ہے کہ عوام، خاص طور سے نوجوانوں اور خواتین، کے سوچنے سمجھنے کا انداز اب یکسر بدل چکا ہے۔ ہم 2022 میں پہنچ چکے ہیں۔ آج دنیا کی بہترین دلیل بھی کسی کو موروثی سیاست کے حق میں قائل نہیں کر سکتی لیکن اب کسی کا شوق ہی پورا نہ ہو رہا ہو تو بندہ کیا کرے!
دنیا میں لوگ بیانیے کے زور پر خود کُش بمبار تیار کر لیتے ہیں، انہیں یہ یقین دلا دیا جاتا ہے کہ وہ ایک عظیم مقصد کے لیے جان قربان کریں گے، جس کے بدلے میں انہیں جنت ملے گی اور اگر کوئی بے گناہ شخص دھماکے میں مارا گیا تو فکر کی بات نہیں، اسے بھی جنت مل جائے گی۔ لوگ اِن باتوں پر یقین کرکے اپنی اور دوسروں کی جان لے لیتے ہیں اور یہ محض اُس بیانئے کی طاقت کے زور پر ہوتا ہے، جو اُن کے ذہنوں میں راسخ کردیا جاتا ہے۔ گویا اگر آپ اپنا مقدمہ موثر انداز میں لوگوں تک پہنچا دیں تو پھر اِس بات کی اہمیت نہیں رہتی کہ آپ سچ بول رہے ہیں یا جھوٹ، آپ کے دور میں ترقی ہوئی یا نہیں، مہنگائی کم ہوئی یا زیادہ۔۔ پھر فقط یہ بات اہمیت رکھتی ہے کہ لوگوں نے آپ کا بیانیہ درست تسلیم کیا یا نہیں۔
جن لوگوں کا خیال ہے کہ مہنگائی نے عوام کا موڈ بے حد خراب کر رکھا تھا وہ بات اپنی جگہ درست ہوگی لیکن میری رائے میں اگر آپ لوگوں کو سونے کا نوالہ بھی دیتے تو نتیجہ یہی نکلنا تھا کیونکہ اُن کے سامنے ایک ہی بیانیہ تھا، جس کے بارے میں انہوں نے فیصلہ کرنا تھا کہ وہ درست ہے یا نہیں اور وہ فیصلہ انہوں نے کر دیا
بیانئے کی طاقت کا اندازہ آپ اِس بات سے لگا لیں کہ ایک بندے نے محض باتیں کرکے انٹارکٹکا میں رہنے والے کو اے سی بیچ دیا ہے۔ اب اڑائیں مذاق پوڈ کاسٹ کا اور کھاتے رہیں بیٹھ کے کریلے گوشت!
بشکریہ: روزنامہ جنگ