بلوچستان کی ریڈ زون قرار دی جانے والی شاہراہ زرغون روڈ کوئٹہ پر گورنر ہاؤس سے متصل چوک پر لاپتہ افراد کے لواحقین دھرنا دیے ہوئے ہیں
دھرنا مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ زیارت واقعے کے حوالے سے جوڈیشل کمیشن قائم کرکے لاپتہ افراد کے لواحقین کو یقین دہانی کرائی جائے کہ آج کے بعد کسی کو جعلی مقابلے میں نہیں مارا جائے گا
یاد رہے کہ زیارت میں چند روز قبل کرنل لئیق کو مسلح افراد نے کزن سمیت اغوا کرلیا تھا، ان کی لاش مانگی ڈیم کےعلاقے سے ملی تھی۔ اس اغوا کی ذمہ داری کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی تھی۔
بعد ازاں سیکیورٹی فورسز نے سرچ آپریشن کے دوران ’نو دہشت گردوں‘ کو مارنے کا بیان جاری کیا تھا
مارے جانے والے افراد کی لاشیں جب کوئٹہ منتقل کی گئیں تو ان میں سے پانچ افراد کو شناخت کرلیا گیا۔ جن کے حوالے سے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نے دعویٰ کیا کہ ’یہ پانچوں افراد پہلے سے لاپتہ تھے‘
لاپتہ افراد کے حالیہ دھرنے اور ان کے مطالبات کے حوالے سے حکومت بلوچستان کی ترجمان فرح عظیم شاہ کا کہنا ہے ”مظاہرین سے ہمارے وزرا کے رابطے ہیں۔ ایک بار مذاکرات بھی ہوئے ہیں۔ لاپتہ افراد کا مسئلہ حساس ہے، اس کے بہت سے پہلو ہیں جنہیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ حکومت اس مسئلے کو سنجیدگی سے دیکھ رہی ہے“
ترجمان بلوچستان حکومت نے کہا ”بلوچستان سونے کی چڑیا ہے۔ جس پر بہت سے لوگوں کی نظریں ہیں، یہاں پر بیرونی سازشیں بھی کارفرما ہیں، یہاں پر کچھ لوگ ایسے بھی جو راستے سے بھٹک گئے ہیں“
فرح عظیم شاہ کا کہنا تھا ”جو مجرم ہیں ان کو عدالتوں میں پیش کرکے سزا دی جائے تاکہ ان کے لواحقین بھی مطمئن ہوسکیں“
زیارت میں کرنل لئیق کے اغوا کے بعد سکیورٹی فورسز کے آپریشن کے حوالے سے انہوں نے بتایا ”ریاست بغیر دیکھے کوئی کارروائی نہیں کرتی۔ اس واقعے کے بعد سکیورٹی فورسز نے پورے علاقے کو گھیرے میں لے کر کارروائی کی۔ جو اس واقعے کے ذمہ دار تھے، ان کے خلاف کارروائی ہوئی۔ سوشل میڈیا پر چل رہا تھا کہ یہ فیک آپریشن ہے، یہ درست نہیں ہے“
دوسری جانب دھرنا دینے والے افراد کا کہنا ہے کہ زیارت واقعہ کے بعد ان کی تشویش میں اضافہ ہوا ہے کہ لاپتہ افراد کو اب مقابلے میں مارا جا رہا ہے
ان کا کہنا تھا کہ اس وجہ سے وہ زیارت واقعے کے حوالے سے جوڈیشل کمیشن کا مطالبہ کرتے ہیں اور دوسرے لاپتہ افراد کو اس طرح کے مقابلوں میں مارے جانے کو روکنے کا مطالبہ کرتے ہیں
دھرنے میں شریک ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا کہنا تھا ”ہمارے مطالبات یہ ہیں کہ زیارت واقعے کی جوڈیشل کمیشن کے ذریعے تحقیقات کرائی جائیں اور کمیشن چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ کی سربراہی میں قائم کیا جائے“
ماہ رنگ بلوچ نے کہا ”ہمارے پاس ڈپٹی کمشنر کوئٹہ آئے تھے، ان کے بعد صوبائی وزرا لالہ رشید اور نصیب اللہ مری، اٹارنی جنرل مذاکرات کرنے آئے تھے۔ ہم نے ان کو بتایا کہ مظاہرین وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو کی یقین دہانی کے بغیر دھرنا ختم نہیں کریں گے اور جوڈیشل کمیشن قیام کے آرڈر ہونے تک ہم بیٹھے رہیں گے“
ماہ رنگ نے بتایا کہ مذاکرات کاروں کا کہنا تھا کہ ’ہم آپ کے مطالبات آگے تک پہنچا دیں گے، اس کے بعد جو فیصلہ آتا ہے، اس سے آگاہ کریں گے‘
انہوں نے بتایا کہ ہم چاہتے ہیں کہ زیارت واقعہ کی تحقیقات کے علاوہ تمام لاپتہ افراد کو منظر عام پر لایا جائے۔ ان کے لواحقین کو یقین دہانی کرائے جائے کہ کوئی بھی لاپتہ شخص جعلی انکاؤنٹر میں مارا نہیں جائے گا
دھرنے میں شریک کرن نے کہا ”جب مجھے بتایا گیا کہ زیارت سے نو افراد کی لاشیں کوئٹہ منتقل کی گئی ہیں، جن میں لاپتہ افراد بھی شامل ہیں تو میں یہ سن کر جس طرح کوئٹہ آئی، اس خوف اور غم کا کوئی اندازہ نہیں کرسکتا ہے“
انہوں نے بتایا ”میں لاپتہ کفایت اللہ لانگو کی بیوی ہوں۔ میرے شوہر کو 11 فروری کو منگیچر سے گھر سے لاپتہ کیا گیا۔ میں اس وقت سے ہر در پر دستک دے رہی ہوں لیکن کہیں سے کوئی شنوائی نہیں ہورہی ہے۔ کمیشن میں کیس بھی دائر کیا ہے“
وہ کہتی ہیں ”میں خوف اور کئی خدشات کے ساتھ کوئٹہ آئی اور یہاں پہنچ کر اکیلی سول ہسپتال کے مردہ خانے گئی، میرے ہاتھ کانپ رہے تھے کہ شاید میرا شوہر بھی ان میں شامل ہے“
انہوں نے بتایا ”جو کیفیت اس وقت میری تھی اس کا بیان کرنا بھی مشکل ہے۔ جب میں نے لاشوں کو دیکھا تو ان میں میرے شوہر نہیں تھے۔ میں نے اس بات پر شکر کیا کہ میرے شوہر ابھی تک زندہ ہیں“
کرن نے کہا ”لیکن اب مجھے ڈر لگ رہا ہے کہ ہمارے ساتھ کچھ ایسا نہ ہوجائے کہ ہم بے بس ہوکر رہ جائیں۔ دوبارہ کوئی ایسی لاش میری شوہر کی نہ ہو۔۔ اس لیے میں یہاں دھرنے میں شریک ہوں تاکہ ہمارے چاہنے والے جو لاپتہ ہیں، ان کی بھی ایسی لاشیں نہ ملیں۔ جب سے میں نے ان لاشوں کو دیکھا ہے راتوں کی نیند اڑ گئی ہے“
ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کہ ہمارے مطالبات پر عمل کیا جائے اور ہمارے چاہنے والوں کو بازیاب کرایا جائے
یاد رہے کہ اس سے قبل لاپتہ افراد کے لواحقین نے ریلی نکالی تو انہیں ریڈ زون جانے سے روکا گیا اور اس دوران آنسو گیس اور شیلنگ بھی کی گئی، جس سے ماما قدیر سمیت خواتین اور بچوں کی حالت غیر ہوگئی تاہم مظاہرین رکاوٹیں ہٹا کر ریڈ زون کے قریب پہنچنے میں کامیاب رہے
اس سے قبل مشیر داخلہ میر ضیا لانگو نے 19 جولائی کو رات گئے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا ”زیارت واقعہ میں مارے جانے والے دہشت گرد تھے“
انہوں نے کہا کہ ”ریاست پاکستان کا ہمیشہ سے یہی موقف رہا ہے کہ مسنگ پرسنز دراصل پہاڑوں میں ریاست کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں، جس کی تصدیق ان کے کارروائیوں سے ہوتی ہے۔ گوادر، کراچی سٹاک ایکسچینج اور نوشکی، پنجگور میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں بھی وہ لوگ ملوث تھے جن کے نام مسنگ پرسن کے لسٹ میں موجود تھے“