کشمیر کی معدوم ہوتی پن چکیاں اور انہیں چلانے والے ’گھراتی‘

وادی کشمیر میں پن چکی کی ایک اپنی تاریخ ہے۔ آج کے جدید دور میں بھی وادی کے مختلف علاقوں میں پانی سے چلنے والی پن چکیاں قائم ہیں اور آج بھی آٹا پیسنے کا ذریعہ ہیں

اسے کشمیری میں آبہ گَرٹَہ، گھرے یا گرٹھ، پشتو میں جرندہ، اردو اور ہندکو میں جندر کہتے ہیں

کشمیر میں یہ بات مشہور ہے کہ لذیذ اور خوش ذائقہ اور صاف و شفاف روٹی کھانی ہے تو پن چکی سے آٹا پسوانا لازمی ہے۔ یہ ایک ایسا ڈھانچہ ہے، جو ایک بہتے پانی سے میکانیکی عمل کے ذریعے استعمال میں لایا جاتا ہے

آج کے جدید دور میں آٹا یا دوسری چیزوں کو پیسنے کے لیے عام طور پر بجلی یا ڈیزل سے مشینوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود کشمیر کے کئی علاقوں میں پن چکی کا استعمال ہوتا ہے۔ لوگ چاول، مکئی، گندم، سوکھی ہوئی مرچ اسی پن چکی کے ذریعہ سے پسوا کر لے جاتے ہیں

لیکن کشمیر کی روایتی پانی سے چلنے والی اناج کی یہ چکیاں اب اپنی بقا کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں

تیز رفتار وقت کے ساتھ ساتھ جہاں نئی ٹیکنالوجی کا خوب استعمال ہو رہا ہے، وہیں وادی کی نئی نسل کے لئے قدیم ثقافت کی یہ علامت محض کتابوں کے اوراق تک ہی محدود رہنے کا خدشہ ہے

پانی سے چلنے والی روایتی فلور ملز (جندر، پن چکی) جو کبھی مقبوضہ کشمیر، آزاد کشمیر اور خیبر پختونخوا میں میٹھے پانی کی ندیوں کے ساتھ واقع تھیں، اب الیکٹرک ملوں کے آنے اور طلب اور خام مال کی کمی کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں

یہ چکی پانی کے تیز بہاؤ اور پریشر سے چلتی ہے۔ پن چکی کو عموماً ایسی نہروں اور نالوں کے قریب نصب کیا جاتا ہے، جہاں پانی کی مقدار بھی زیادہ ہو اور بہاؤ بھی تیز ہو کیونکہ لکڑی کا پہیہ، وزنی اور بھاری چکی کا پتھر پانی کے تیز بہاؤ سے ہی چل سکتا ہے۔ پن چکی قلیل رقم اور چھوٹی اراضی پر بھی قائم کی جا سکتی ہے

انہیں موجودہ دور میں کچھ بوڑھے افراد چلاتے ہیں، جنہیں ’گھراتی‘ کہا جاتا ہے۔ خدشہ ہے کہ ان کے بعد یہ رواج اور ان چکیوں کا وجود معدوم ہو جائیں گے

ان میں سے کچھ قدیم ملیں مقبوضہ جنوبی کشمیر کے ایک چھوٹے سے گاؤں داڈی پورہ میں دیکھی جا سکتی ہیں، جو اننت ناگ ضلع سے تقریباً چالیس کلومیٹر دور ہے

اس علاقے میں میٹھے پانی کی ندیاں بہتی ہیں، جو دیودار کے گھنے جنگل سے گھرا ہوا ہے۔ آٹے کی چکیاں ان ندیوں کے ساتھ بنی ہوئی ہیں

پورا گاؤں انہیں استعمال کرتا ہے۔ یہ ایسے مواد سے بنائی گئی ہیں، جو مقامی طور پر آسانی سے قابل رسائی ہے

چکی ندی میں پانی کے بہاؤ سے توانائی پیدا کرتی ہے۔ لکڑی کی ٹربائن پانی کی طاقت سے توانائی پیدا کرتی ہے اور پہیے کو موڑ دیتی ہے

اناج کو چمنی کی شکل کے کنٹینر کے اندر رکھا جاتا ہے، اس میں نیچے کا کٹ آؤٹ ہوتا ہے، جسے ضرورت کے مطابق ایڈجسٹ کیا جا سکتا ہے

روٹر، جسے چکی بھی کہا جاتا ہے، ایک بڑے پتھر کی تراش خراش سے بنا ہوتا ہے

ایک لیور کے ارد گرد، یہ بہت تیزی سے چلتا ہے۔ یہ لکڑی کی ٹربائن سے منسلک ہوتا ہے، جو پانی کے زور پر گھومتی ہے

اس عمل میں قدرتی وسائل ضائع نہیں ہوتے کیونکہ اناج کو پیسنے کے لیے استعمال ہونے والا پانی چکی سے نکلنے کے بعد دوبارہ ندی میں چلا جاتا ہے

یہاں چکی کے مالکان (گھراتی) میں سے ایک، نذیر احمد بتاتے ہیں ”بجلی کی طرف جانے کے باوجود آج بھی اصل پانی کی آٹا مل استعمال کی جاتی ہے کیونکہ ان ملوں میں گندم کی زمین کو معیاری زمین سے زیادہ صحت مند دیکھا جاتا ہے“

ان کے مطابق عام طور پر تیس کلو گندم کو پیسنے میں ایک گھنٹہ لگتا ہے اور مزدوری اناج کی مجموعی قیمت کا تقریباً دس فی صد ہے

نذیر احمد کہتے ہیں ”اناج کی مجموعی قیمت سے ہم تقریباً دس فی صد لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر ہمارے پاس پچاس کلو گندم یا مکئی پیسنے کے لیے ہے تو ہم اس میں سے چار سے پانچ کلو رکھیں گے“

شاعر و ادیب خورشید خاموش کہتے ہیں کہ ان کے علاقے میں آج بھی پن چکی سے آٹا پیسنا پسند کیا جاتا ہے۔ شمالی کشمیر اور وسطی ضلع بڈگام کے ٹنگمرگ، بیروہ، ماگام، پٹن، نارہ بل اور دیگر علاقوں میں بھی کئی سال پرانی پن چکیاں آج بھی موجود ہیں۔جہاں سے لوگ چاول، مکئی یا دوسری چیزوں سے آٹا بنوا کر روٹی بنانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ترقی کے اس دور میں جہاں تیز رفتار سے چلنے والی چکیاں اور فلور ملیں قائم کر دی گئی ہیں لیکن اس پن چکی کی سست رفتاری سے پسے ہوئے آٹے کی اہمیت بدستور قائم ہے

پن چکیاں دور جدید میں معدوم کیوں ہو رہی ہیں؟

کشمیر کے ماضی کو دیکھا جائے تو پانی سے چلنے والی چکیاں یعنی ”گرٹھ” وادی کی ثقافت کا اہم حصہ رہی ہیں اور اب تیز رفتار وقت کے ساتھ ساتھ پن چکیاں اب وادی کے چند علاقوں میں ہی دیکھی جا سکتی ہیں۔ وادی کے بیشتر مقامات پر پانی سے چلنے والی چکیاں دور حاضر میں اپنی ویرانیاں اپنے آپ بیان کر رہی ہیں کیونکہ تیز رفتار وقت، بڑھتی ہوئی آبادی اور نئی ٹیکنالوجی کی مار پن چکی پر بھاری پڑ رہی ہے

ضلع اننت ناگ کے کوکرناگ کے اکثر علاقوں میں آج بھی پانی سے چلنے والی چکیاں پائی جاتی ہیں، تاہم بدقسمتی سے پن چکی اپنی آخری سانسیں گن رہی ہیں

پرانے زمانے میں وادی میں پانی سے چلنے والی چکیوں کا خوب استعمال ہوا کرتا تھا، تاہم دور جدید میں اُن چکیوں کی جگہ اب مختلف مشینوں اور کارخانوں نے لے لی ہے

مقامی لوگوں کے مطابق ایک دہائی قبل پن چکیوں پر جا کر لوگ مکی، چاول اور کھانے پینے کی اشیاء پسواتے تھے اور ان چکیوں کے آٹے میں لذت اور بے حد مٹھاس ہوتی ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اب ان چکیوں کا وجود ختم ہوتا جا رہا ہے کیونکہ بڑھتی آبادی کی وجہ سے زمین سکڑ گئی، جس کی وجہ سے کھیتی کے لیے استعمال میں لانے والی اراضی کم ہوئی ہے

مقامی لوگوں کے مطابق دور جدید میں کم اراضی پر کھیتی، نئی ٹیکنالوجی کے ایجاد اور نئی نسل کو اس ورثہ کی طرف توجہ نہ دینا مختلف وجوہات ہیں، جن سے پن چکیاں آخری دہلیز پر پہنچ چکی ہیں

وادی کشمیر میں سنہ 2014 کے تباہ کن سیلاب نے ان چکیوں کا وجود ہی مٹا دیا، حالانکہ اُس تباہ کن سیلاب کے بعد اگرچہ کئی افراد نے پھر سے چکیوں کا ڈھانچہ کھڑا کیا تاہم کام کم ہونے کے سبب بیشتر چکیاں بے کار پڑی رہتی ہیں

دوسری جانب خیبر پختونخوا کے بھی کئی علاقوں میں ایک صدی پہلے پانی سے چلنے والی چکیوں کا رواج عام تھا اور مشین کا تصور بھی نہیں تھا۔ گندم، مکئی کے دانے پیسنے کے لئے ضلع دیر کے مختلف مقامات پر سینکڑوں کی تعداد میں پن چکیاں تھیں۔ ندی نالوں کے پانی کو واٹر چینل کے ذریعے اونچے مقام سے چھوٹ کر تیز بہاؤ کی صورت چکیوں کو چلانے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا، تاہم وقت گزرنے اور بارشوں میں کمی کی وجہ سے یہ ندیاں بھی کمزور پڑتی چلی گئیں جبکہ آبادی بڑھ جانے کی وجہ سے بھی ماحول پر اثرات پڑے

یہ پں چکیاں خیبر پختونخوا کے کئی اضلاع میں عام ہوا کرتی تھیں۔ ایسے جندر ضلع دیر، ضلع ہزارہ کے مختلف علاقوں، سوات، چترال وغیرہ میں بھی عام تھے۔

چترال میں نہ صرف ایسی پن چکیاں تھیں، بلکہ وہاں تو بعض مقامات پر پانی کے تیز بہاؤ سے استفادہ کرتے ہوئے مقامی سطح پر چھوٹے چھوٹے جنریٹرز لگا کر پورے پورے گاؤں کو رات کے وقت دو دو بلب جلا کر گھروں میں روشنی کرنے کا اہتمام بھی کیا تھا، جس کے لئے انتہائی معقول پیسے (90ء کی دہائی میں صرف دوسو روپے فی گھر) وصول کئے جاتے تھے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close