امریکی صدارتی انتخابات کے ابتدائی نتائج سامنے آ چکے ہیں اور امریکی عوام نے جو بائیڈن کو اپنا نیا صدر منتخب کر لیا ہے۔ تاہم ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے یہ کہانی ان کی انتخابی شکست پر ختم نہیں ہوگی بلکہ انہیں مستقبل قریب میں بڑی قانونی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے
اس ضمن میں ماہرین کا کہنا ہے کہ صدر کے عہدے پر رہتے ہوئے ان کے خلاف سرکاری اقدامات پر مقدمہ نہیں چلایا جاسکتا، تاہم ان کے دور میں مبینہ گھپلوں کی تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ انھیں صدارتی عہدے سے سبکدوش ہونے کے بعد مجرمانہ کارروائی کے علاوہ مشکل مالی صورتحال کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے
پیس یونیورسٹی میں آئین اور قانون کے پروفیسر بینیٹ گرشمین کا کہنا ہے کہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ پر فوجداری مقدمات چلائے جائیں، صدر ٹرمپ پر بینک فراڈ، ٹیکس فراڈ، منی لانڈرنگ اور انتخابی بےضابطگیوں جیسے معاملات میں فرد جرم عائد کی جاسکتی ہے
تاہم معاملہ صرف اس تک محدود نہیں ہے۔ امریکی میڈیا کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کو بھاری مالی خسارے کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ان میں بڑے پیمانے پر ذاتی قرضے اور ان کے کاروبار سے متعلق مشکلات شامل ہیں
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق اگلے چار سالوں میں ٹرمپ کو تیس کروڑ ڈالر سے زیادہ کے قرضے ادا کرنے ہیں، ایک ایسے وقت میں جب ان کی ذاتی سرمایہ کاری زیادہ اچھی حالت میں نہیں ہے۔
ہوسکتا ہے کہ ٹرمپ کے صدر نہ ہونے کی صورت میں قرض کی ادائیگی کے حوالے سے قرض دہندگان زیادہ نرمی کا مظاہرہ نہ کریں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کی صدارت ان کی قانونی اور مالی پریشانیوں میں انھیں تحفظ فراہم کر رہی تھی اور جب یہ سب نہیں ہوگا تو پھر ان کے مشکل دن آ سکتے ہیں
صدر ٹرمپ یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ وہ اپنے دشمنوں کی سازشوں کا شکار ہوگئے ہیں۔ ان پر یہ غلط الزامات لگائے گئے ہیں کہ انہوں نے صدر بننے سے پہلے اور عہدے پر رہتے ہوئے بھی جرائم کیے ہیں
اسی کے ساتھ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کی انتظامیہ اور اس سال کے شروع میں مواخذے کے الزامات سے محکمہ انصاف کی تحقیقات کے بعد انہیں بری کردیا گیا تھا۔
تاہم یہ تمام تحقیقات اور کارروائی صدر کو فرد جرم سے موصول ہونے والے تحفظ کے دوران ہوئی تھی محکمہ انصاف بار بار یہ کہتا رہا ہے کہ صدر کے عہدے پر رہتے ہوئے ان کے خلاف مجرمانہ قانونی کارروائی نہیں ہوسکتی ۔
پروفیسر بینیٹ کا کہنا ہے کہ ان تحقیقات کو ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف قانونی کارروائی کی بنیاد بنایا جاسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم پہلے ہی جانتے ہیں کہ ان پر ووٹروں کی دھوکہ دہی کا الزام عائد کیا جاسکتا ہے کیونکہ امریکی اٹارنی برائے مین ہٹن نے ٹرمپ کو مائیکل کوہن کے ساتھ سازش میں معاون کہا تھا
انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے سابق وکیل مائیکل کوہن کے خلاف تحقیقات کی بھی یاد دلائی، یاد رہے کہ سال 2018ع میں مائیکل کوہین کو انتخابی دھاندلیوں کے الزام میں قصور وار پایا گیا تھا۔ ان پر 2016ع کے انتخابات میں پورن اداکارہ اسٹورما ڈینیئلز کو رقم کی ادائیگی کا الزام عائد کیا گیا تھا، جنہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ افیئر کا دعویٰ کیا تھا
مائیکل کوہن کی تفتیش کے دوران باضابطہ طور پر بتایا گیا کہ صدارتی الیکشن کا ایک امیدوار مبینہ طور پر مجرمانہ سرگرمی سے جڑا ہوا ہے
امریکی میڈیا نے اس امیدوار کو ڈونلڈ ٹرمپ کے نام سے جوڑا تھا۔ یہ خبر امریکی میڈیا میں کافی عرصے تک چھائی رہی تھی
بینیٹ گرشمن کا کہنا ہے کہ مبینہ مولر رپورٹ کے نتائج کے پیش نظر انہیں انصاف میں خلل ڈالنے کے الزامات کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
2019ع میں خصوصی مشیر رابرٹ مولر نے 2016ع کے صدارتی انتخابات میں روس کی مداخلت سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ پیش کی تھی۔ اس رپورٹ میں ٹرمپ کو کلین چٹ دی گئی تھی اور بتایا گیا تھا کہ ٹرمپ کی پروپیگنڈا ٹیم اور روس کے درمیان کسی بھی طرح کے روابط کے پختہ ثبوت نہیں ہیں۔ تاہم اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے تحقیقات میں رکاوٹ ڈالنے کی کوششیں کیں۔ ٹرمپ نے مولر کو ان کے عہدے سے ہٹانے کی بھی کوشش کی۔
مولر نے اس وقت کہا تھا کہ امریکی پارلیمنٹ کو فیصلہ کرنا چاہیے کہ انصاف میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے وہ ڈونلڈ ٹرمپ کا مواخذہ کرے گی یا نہیں، کیونکہ عام طور پر عدالت کے ذریعہ صدر کے خلاف قانونی چارہ جوئی نہیں کی جاسکتی ہے
اس وقت پارلیمنٹ نے ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی تحریک نہیں چلائی تھی لیکن مہینوں بعد ان کے خلاف ایک الگ کیس میں مواخذہ کا عمل کرایا گیا تھا۔
ٹرمپ پر یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی پر اپنے سیاسی حریف جو بائیڈن کے خلاف تحقیقات شروع کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ تاہم ٹرمپ نے ہمیشہ اس کی تردید کی ہے۔
ان کے خلاف دسمبر 2019ع میں ڈیموکریٹ اکثریتی ایوان نمائندگان میں مواخذے کی تحریک چلائی گئی، لیکن فروری 2020ع میں ریپبلکن اکثریت والے سینیٹ نے انہیں بری کر دیا
بحیثیت صدر ڈونلڈ ٹرمپ وفاقی قانون کی خلاف ورزی کے معاملے میں خود کو معاف کر سکتے ہیں، لیکن امریکہ کی تاریخ میں ایسی صورتحال کبھی پیدا نہیں ہوئی، تاہم یہ ضرور دیکھا گیا ہے کہ صدر کو ہٹانے کے بعد فوجداری مقدمات چلنے کا امکان موجود ہو لیکن اگلے صدر نے اسے معاف کردیا ہو۔
1974 میں یہ اس وقت ہوا جب واٹر گیٹ اسکینڈل کے بعد سابق امریکی صدر رچرڈ نکسن نے استعفیٰ دے دیا تھا۔ ان کی حکومت میں اس وقت کے نائب صدر ، جیرالڈ فورڈ صدر بنے اور انہیں مکمل معافی دے دی تھی
ایک قدامت پسند سیاسی تحقیقی مرکز ، امریکن انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ کے ماہر نارمن اورنسٹین کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ پر وفاقی الزامات عائد کیے جانے کا امکان بہت کم ہے اب الیکشن ہارنے کی صورت میں وہ خود کو معافی نہیں دے پائیں گے۔
ایسی صورتحال میں ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک تصوراتی صورتحال میں یہ ممکن ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ 20 جنوری 2021ع کو اپنی مدت پوری ہونے سے پہلے ہی استعفی دے دیں اور موجودہ نائب صدر مائک پینس کو صدر بنائیں۔ اس کے بعد مائک پینس انہیں وفاقی جرائم پر معافی دے سکتے ہیں۔
بینیٹ گرشمن نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ امریکی میڈیا میں قیاس آرائیاں جاری ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو وفاقی الزامات کے علاوہ مجرمانہ الزامات کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ان پر صدر بننے سے قبل منقولہ جائیداد کے کاروبار میں گڑ بڑی کرنےکا الزام ہے۔ مقامی معاملات کی طرح وفاقی معاملات میں معافی نہیں دی جا سکتی۔ ڈونلڈ ٹرمپ ان الزامات سے انکار کرتے تھے اور انھوں نے ان مقدمات پر کبھی بھی مفاہمت نہ کرنے کی بات کہی تھی
اس سلسلے میں 6 اگست کو ایک انٹرویو میں جو بائیڈن نے کہا تھا کہ اگر وہ صدر بن جاتے ہیں تو وہ نہ تو ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مجرمانہ کارروائی کی مخالفت کریں گے اور نہ ہی حوصلہ افزائی کریں گے۔ وہ اس فیصلے کو مکمل طور پر محکمہ انصاف پر چھوڑ دیں گے۔
بینیٹ گیرشمین نے وضاحت کی ہے کہ مقدمے کی سماعت شروع ہونے میں مہینوں سے سالوں کا وقت لگ سکتا ہے
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کے تحت مجرم قرار پاتے تو انہیں کئی سال جیل کی سزا ہو سکتی ہے
نارمن اورنسٹین کو لگتا ہے کہ نیویارک کے پراسیکیوٹر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف اپنی تحقیقات جاری رکھیں گے۔ اس وقت ٹرمپ کی پوزیشن کمزور ہے اور وہ یہ بات جانتے ہیں۔