جیسے جیسے حادثے کا مقام قریب آ رہا تھا پیدل چلنا مشکل ہوتا گیا اور کچھ دیر بعد ہی دھویں، آگ اور وہاں بکھرے انسانی اعضا کے درمیان تھا۔ امدادی کارکنوں سے زیادہ جرائم سے نمٹنے کے لیے تربیت یافتہ پولیس اہلکار وہاں مسافروں کا سامان اور ان کی باقیات کو جمع کرنے کی کوشش میں تھے۔
یہ مناظر آج سے بارہ برس پہلے اسلام آباد میں مارگلہ کی پہاڑیوں میں گرنے والے ایئر بلیو کے مسافر طیارے کے حادثے کی جگہ کے تھے
وہاں اس وقت جیسے تیسے کر کے شام ہونے سے پہلے پہلے امدادی کارروائیاں مکمل کرنے کا اعلان تو کر دیا گیا تھا لیکن اس حادثے میں جان سے جانے والوں میں سے کئی کے پیارے اس طیارے کے ملبے میں لگی آگ کی تپش سے آج تک جھلس رہے ہیں
کراچی سے اسلام آباد آنے والی ایئر بلیو کی پرواز ED202 پر عملے کے 6 ارکان سمیت 152 افراد سوار تھے۔ ان میں 29 سالہ حیدر ذوالفقار ان 19 مسافروں میں سے ایک تھے، جن کی میت کی شناخت آج تک نہیں ہو سکی
اردو نیوز کی رپورٹ کے مطابق حیدر ذوالفقار کے بھائی قیصر ذوالفقار کا کہنا ہے کہ ’آج بھی ویسے ہی تڑپ رہے جسے ابھی ابھی جہاز کے گرنے کی اطلاع ملی ہے۔ میرے بھائی اسلام آباد میں ایک ملازمت کرتے تھے اور حادثے سے دو دن پہلے ہم خاندان کے ساتھ ان کا رشتہ طے کرنے کراچی گئے تھے۔‘
منگنی کے اگلے روز حیدر ذوالفقار نے صبح کی فلائٹ لی تاکہ دفتر پہنچ سکے جبکہ ان کی والدہ اور انہوں نے شام کی فلائٹ سے واپس آنا تھا
قیصر ذوالفقار کے مطابق ’آج بھی زخم ایسے ہی تازہ ہیں جیسے اس دن تھے۔ ایک ہفتے کے انتظار کے بعد معلوم ہوا کہ انسانی باقیات میں سے کسی سے بھی ان کے بھائی کے ڈی این اے کا سیمپل نہیں مل سکا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’قیامت تو پہلے ہی تھی لیکن اس نے سب کو اندر سے جنجھوڑ کر رکھ دیا اور اس کرب سے اب تک گزر رہے ہیں۔‘
ان کا بیٹے کی موت کے دکھ سے دل پہلے چور چور تھا اور اس پر جوان بھائی کی موت اور میت کے نہ ملنے کو آج تک الفاظ میں بیان کرنے کی ہمت ان میں نہیں ہے
وہ وقت کسی اذیت سے کم نہیں تھا جب وہ روز اس امید کہ ساتھ جاتے تھے کہ کم از کم ان کے بھائی کے اعضا کی شناخت ہو جائے تاکہ آخری رسومات ادا کر کے دل کو سکون مل سکے جو آج بارہ برس بعد بھی نہیں مل سکا ہے
قیصر ذوالفقار کے مطابق ’اس وقت باقیات کو اسلام آباد کے ایک ایسے کولڈ سٹور میں رکھا گیا تھا جہاں سبزیوں اور پھلوں کو محفوظ کیا جاتا تھا اور انتظامی نااہلی کی وجہ سے وہ باقیات گھلنا سڑنا شروع ہو گئیں اور متاثرین کا دباؤ دیکھتے ہوئے انتطامیہ نے ان باقیات کی تدفین کا اعلان کر دیا۔‘
اسی فلائٹ پر کرنل ریٹائرڈ شمیم شیخ کے تیس برس کے بیٹے حسن عدیل سوار تھے۔ انہوں نے بتاتا کہ اس صدمے کو بیان کرنا آج بھی ان کے لیے مشکل ہے کیونکہ جوان بیٹے کی موت کا زخم ساری زندگی ان کے دل پر رہے گا
انہوں نے بتاتا کہ ’لواحقین پہلے سے صدمے سے گزر رہے تھے لیکن اس حادثے کے بعد ہونے والے معاملات نے زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے نمک چھڑکنے کے مترادف تھا۔۔۔ جہاں ایک طرف مسافروں کی شناخت کے ایک تکلیف دہ عمل سے گزرنا پڑا وہیں ایئر لائن کی جانب سے انشورنس کی رقم حاصل کرنے کے لیے طویل انتظار کرنا پڑا۔‘
انہوں نے کہا ’حادثے کے بعد مسافروں کے خاندانوں سے ملنے کے بعد ہر ایک کا غم اور مشکل ایک جیسی تھی جس کی وجہ سے ہم نے لواحقین کی ایک ایسوسی ایشن بھی بنائی
ان کا کہنا تھا کہ ان کی زندگی کا ایک بڑا مشن ہے کہ ایسے واقعات دوبارہ رونما نہ ہوں تاکہ کسی اور کی اولاد یا پیارا کسی کی لاپرواہی سے فضائی حادثے کا شکار نہ ہو
انہوں نے کہا کہ اس وقت ہمیں بتایا گیا تھا کہ انیس مسافروں کی شناخت نہیں ہو سکی لیکن حکام آج تک اس بات کا جواب دینے سے قاصر ہیں کہ ایچ 11 قبرستان میں نامعلوم مسافروں کی 72 قبریں کیوں بنائی گئی ہیں؟
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں زیادہ تر حادثات فلائٹ کی بین الاقوامی حفاظتی معیار پر پوری طرح سے عمل درآمد نہ کرنے کی وجہ سے رونما ہوتے ہیں
کرنل ریٹائرڈ شمیم شیخ کے مطابق ملک میں فضائی حادثات کی نگرانی والے ادارہ ایئر ایکسیڈنٹ انویسٹی گیشن بورڈ جب تک مکمل طور پر خودمختار نہں ہوتا اس وقت تک حادثات کے پیچھے ان افراد کی نشاندہی کرنا مشکل ہو گا جن کی کوتاہی کی وجہ سے حادثات رونما ہوتے ہیں
ایئر ایکسیڈنٹ انویسٹیگیشن بورڈ کے سابق صدر ایئر کموڈور محمد عثمان نے بتایا کہ انٹرنیشنل سول ایوی ایشن آرگنائزیشن کے معیار کے مطابق پاکستان میں تحقیقاتی بورڈ کو مکمل خودمختار ہونا چاہیے لیکن بدقسمتی سے یہ اب بھی سول ایوی ایشن ڈویژن کے ماتحت ہے جس کی وجہ سے کسی حادثے میں تحقیقات میں بعض قسم کے دباؤ کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے
انھوں نے کہا کہ ’پاکستان میں فلائٹ سیفٹی کے حوالے سے اب بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے جس میں کچھ ذمہ داریاں سول ایوی ایشن اتھارٹی کی ہیں اور کچھ ایئر لائنز کی ہوتی ہیں لیکن اکثر ایسا دیکھا گیا ہے کہ حفاظتی معیار کے حوالے سے کئی معاملات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔‘
’ہمارے ہاں اصل مسئلہ یہ ہے کہ کسی بھی حادثے کی صورت متعلقہ ادارے اور ایئر لائنز متحرک ہو جاتی ہیں لیکن یہ سلسلہ دو سے تین سال کا ہی ہوتا ہے اور اس کے بعد کسی نئے حادثے کے نتیجے میں یہ سائیکل دوبارہ شروع ہو جاتا ہے۔‘
ایئربلیو حادثے کی فوری تحقیقات کا اعلان تو کر دیا گیا تھا لیکن کوئی بھی واضح رپورٹ دس برس تک منظر عام پر نہیں آ سکی، لیکن 2020 میں اس وقت کے وفاقی وزیر برائے ہوا بازی غلام سرور خان نے کراچی میں مسافر طیارے کے حادثے کی ابتدائی رپورٹ کے ساتھ ایئر بلیو حادثے کے بارے میں بتایا کہ یہ پائلٹس کی غلطی کی وجہ سے پیش آیا تھا
بارہ برس قبل ایئر بلیو کے حادثے کی جگہ سے واپسی پر چند مقامی افراد اپنی مدد آپ کے تحت ایک درخت سے اٹکی انسانی باقیات کو ایک میلے کچیلے کپڑے میں لپیٹ کر وہاں سے کافی دور کھڑی ایمبولینس کی طرف لے کر جا رہے تھے اور اسی دوران چند سرکاری امدادی کارکن بھی آ گئے لیکن ان کے جسم پر ریسکیو کی جیکٹ کے علاوہ کچھ نہیں تھا اور جب ان سے پوچھا کہ باقیات کو اسے کندے پر رکھ کر کیوں لے جا رہے ہیں تو انھوں کا سادہ سا جواب تھا اوپر امدادی کارروائیوں کے لیے سامان پورا نہیں پہنچ رہا تو ہمارا پاس کہاں سے آئے گا۔ل
یاد رہے کہ اس حادثے کے ٹھیک چھ برس بعد 2016ع میں حویلیاں میں حادثے کی کوریج کے دوران بھی ایسی ہی صورتحال دیکھنے کو ملی، جب حادثے کے کئی گھنٹوں بعد بھی امدادی کارکن موبائل فون کی ٹارچ کی مدد سے انسانی باقیات تلاش کرنے کی کوشش میں مصروف تھے اور بعد میں 2020 میں کراچی میں پی آئی اے کے جہاز کے حادثے کے بعد غیر منظم ریسکیو آپریشن شروع ہوا
فلائٹ سیفٹی کو یقینی بنانے کے ساتھ ماہرین کے مطابق کسی بھی حادثے کی صورت میں منظم انداز میں ریسکیو آپریشن لواحقین کو پیاروں کے بچھڑنے کے بعد شروع ہونے والی مشکلات سے بچا سکتا ہے تو دوسری طرف پاکستان میں فضائی حادثات کے حوالے سے کئی سوالات اب بھی حل طلب ہیں اور شاید اس وقت تک لواحقین کے ذہنوں میں فضا میں تیل، دھویں اور انسانی اعضا کے جلنے کی بو محسوس ہوتی رہے گی۔