تائیوان کے معاملے پر امریکی اور چینی رہنماؤں کے مابین دو گھنٹے تک جاری رہنے والی کال کے دوران ایک دوسرے کو خبردار کیا گیا ہے۔
صدر جو بائیڈن نے اپنے چینی ہم منصب شی جن پنگ کو بتایا کہ امریکہ اس جزیرے کی حیثیت کو تبدیل کرنے کے کسی بھی یکطرفہ اقدام کی سختی سے مخالفت کرتا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ تائیوان کے بارے میں امریکی پالیسی تبدیل نہیں ہوئی ہے۔
بیجنگ کا کہنا ہے کہ صدر شی نے امریکی صدر کو ‘ون چائنا پالیسی‘ کی پاسداری کرنے کو کہا اور انھیں متنبہ کیا کہ ‘جو آگ سے کھیل رہے ہیں وہ جل جائیں گے
غیرملکی میڈیا کے مطابق چینی صدرشی جن پنگ نے امریکی ہم منصب جو بائیڈن سے ٹیلی فونک گفتگو میں تائیوان کے حوالے سے کہا کہ امریکا ون چائنا پالیسی کا احترام کرے۔ آگ سے کھیلنے والے جل جائیں گے۔ تائیوان کے معاملے پر دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی پائی جاتی ہے۔
محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ پلوسی نے کسی دورے کا اعلان نہیں کیا لیکن چین نے خبردار کیا ہے کہ اگر وہ اس دورے پر پیشرفت کرتی ہیں تو اس کے ‘سنگین نتائج‘ ہوں گے تاہم وائٹ ہاؤس نے ایسے کسی بھی دورے کے خلاف چینی بیان بازی کو ‘واضح طور پر غیر ضروری اور کسی کو فائدہ نہ پہنچانے والی‘ قرار دیا۔
نینسی پلوسی، جو نائب صدر کے بعد صدارت کی دوڑ میں ہیں، سنہ 1997 کے بعد تائیوان کا دورہ کرنے والی اعلیٰ ترین امریکی سیاست دان ہوں گی
بائیڈن انتظامیہ کے ایک سینئر اہلکار کا کہنا تھا کہ جمعرات کی فون کال کے دوران صدر بائیڈن اور صدر شی نے ممکنہ طور پر آمنے سامنے ملاقات کے بارے میں بھی تبادلہ خیال کیا۔
جب بائیڈن امریکہ کے نائب صدر تھے تو اس وقت سنہ 2015 میں انھوں نے چینی رہنما شی کے دورہ امریکہ کے دوران ان کی میزبانی کی تھی لیکن بائیڈن کے دور صدارت کے دوران دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات نہیں ہوئی
چین تائیوان کو ایک الگ ہونے والے صوبے کے طور پر دیکھتا ہے جسے وہ ہر صورت اپنے ملک کا حصہ بنانا چاہتا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے اس نے طاقت استعمال کے امکان کو مسترد نہیں کیا۔
ون چائنا پالیسی کے تحت واشنگٹن تائی پے کو سفارتی طور پر تسلیم نہیں کرتا لیکن امریکہ جمہوری طور پر خود مختار جزیرے کو ہتھیار فروخت کرتا ہے تاکہ وہ اپنا دفاع کر سکے
وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ تائیوان کے علاوہ دونوں رہنماؤں نے موسمیاتی تبدیلی اور ہیلتھ سکیورٹی سمیت دیگر مسائل پر بات چیت کی۔
بائیڈن انتظامیہ اس بات پر غور کر رہی ہے کہ آیا چینی درآمدات پر ٹرمپ کے دور کے ٹیرف کو ختم کیا جائے یا نہیں۔ ان کی دلیل ہے کہ اس طرح کے اقدام سے امریکہ میں افراط زر میں اضافہ ہو سکتا ہے تاہم ایک سینئر امریکی اہلکار کے مطابق امریکی صدر نے جمعرات کو شی سے اس معاملے پر بات نہیں کی۔
بی بی سی کی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی نامہ نگار باربرا پلیٹ عشر کی رپورٹ کے مطابق تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جو بائیڈن اور شی جن پنگ دونوں ایک تنازعے سے بچنا چاہتے ہیں لیکن دونوں میں سے کسی نے بھی اپنے مسابقتی بیانیے کو تبدیل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی اور جمعرات کی کال کے بعد دیے گئے ان کے متضاد بیانات سے یہ چیز ایک بار پھر سے واضح ہوئی ہے۔
ایک طویل عرصے کے بعد بیجنگ نے کہا ہے کہ ان کے بہت سے مفادات ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہیں لیکن اس نے بگڑتے ہوئے تعلقات کے لیے امریکہ کو مورد الزام ٹھہرایا اور بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے چین کو ایک ‘بنیادی حریف‘ سمجھنے پر تنقید کا نشانہ بنایا