پی ٹی آئی کے 125 میں سے 11 استعفوں کی قبولیت پر حکمراں اتحاد کی عجیب منطق

ویب ڈیسک

پاکستان میں حکمراں اتحاد میں شامل سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے پاکستان تحریک انصاف کے گیارہ اراکین قومی اسمبلی کے استعفے منظور کرنے کی عجیب منطق بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان نشستوں پر پی ٹی آئی کی کم ووٹوں سے جیت ہے، جو کہ ضمنی انتخاب میں شکست میں تبدیل ہو سکتی ہے

اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے پی ٹی آئی کے گیارہ ارکین قومی اسمبلی کے منظور کیے جانے والے استعفوں کے بعد ملکی سیاست میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے

گیارہ استعفوں سے متعلق مختلف آرا سامنے آ رہی ہیں۔ سوشل میڈیا سمیت سماجی رابطوں کے مختلف پلیٹ فارمز پر سوالات کیے جا رہے ہیں کہ ایک سو پچیس ارکان میں سے صرف ان گیارہ ارکان کے ہی استعفے پہلے کیوں منظور کیے گئے ہیں؟ حکومت کی ان گیارہ اراکین کے استعفوں کی منظوری کے پیچھے آخر کیا حکمت عملی ہے؟

وزیر اعلیٰ پنجاب سے متعلق سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد یہ بھی تاثر دیا گیا کہ اب وفاق میں بھی تحریک عدم اعتماد لانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں، جس کے بعد تاثر دیا گیا کہ گیارہ استعفوں کے پیچھے حکومت کی ایک حکمت عملی ہے

کیا حکومت نے ان اراکین قومی اسمبلی کے استعفے منظور کیے تھے، جو ووٹوں کے کم فرق سے جیت کر ایوان میں پہنچے تھے اور اب حکمراں اتحاد ان حلقوں پر اپنے مشترکہ امیدوار جتوا کر وفاق میں اپنی حکومت کے خلاف ممکنہ تحریک عدم اعتماد سے بچا سکتی ہے؟

سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کہتے ہیں وہ بطور قائم مقام اسپیکر پارٹی کے ایک سو پچیس ارکان کے استعفے پہلے ہی منظور کر چکے ہیں

قاسم سوری نے اپنے ٹوئٹ میں کہا ہے ”پی ٹی آئی کے 125 اراکین قومی اسمبلی کے استعفے میں بطور اسپیکر پہلے ہی منظور کرچکا ہوں، امپورٹڈ حکومت کے پاس پی ٹی آئی کے گیارہ اراکین قومی اسمبلی کے استعفوں کو دوسری مرتبہ قبول کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ یہ سب ڈرامے اپنی ڈوبی ہوئی ساکھ بچانے کی کوشش ہے“

28 جولائی 2022 کو قومی اسمبلی سیکریٹیریٹ نے اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کی جانب سے علی محمد خان، فرخ حبیب، شیریں مزاری، فضل خان، شوکت علی، فخر زمان ،اعجاز شاہ، جمیل احمد خان، اکرم چیمہ، شکور شاد اور شاندانہ گلزار کے استعفے منظور کیے جانے کا اعلامیہ جاری کیا تھا

قومی اسمبلی سیکریٹیریٹ کے مطابق قاسم سوری کی جانب سے استعفوں کی منظوری میں ’قانونی سقم‘ تھا، جس کے باعث منظور کیے گئے استعفے الیکشن کمیشن کو نہیں بھجوائے گئے تھے

راجہ پرویز اشرف کے اسپیکر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد استعفے ڈی سیل کروائے اور تمام ارکان کو استعفوں کی منظوری کے لیے 10 جون تک کی مہلت دی

تحریک انصاف کے ارکان کی اسپیکر کے سامنے عدم حاضری کے بعد سپیکر نے گیارہ ارکان کے استعفے منظور کیے ہیں

قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کے مطابق یہ اسپیکر کی صوابدید ہے کہ وہ کس کے استعفے منظور کرتے ہیں اور کس کے نہیں

پیپلز پارٹی کے ترجمان فیصل کریم کنڈی کا کہنا ہے ”استعفے مرحلہ وار منظور کیے جائیں گے لیکن باقی استعفے فی‌الحال منظور نہیں کیے جائیں گے۔ ان حلقوں پر انتخابات کروانے کے بعد باقی استعفے منظور کیے جائیں گے“

مخصوص افراد کے ہی استعفے منظور کرنے سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا ”مختلف سیاسی جماعتوں کی تجاویز کے بعد ان حلقوں کو منتخب کیا گیا، جہاں پی ٹی آئی کے اراکین کا مخالف پارٹی سے جیتنے کا مارجن کم تھا“

انہوں نے مزید بتایا کہ پیپلز پارٹی نے کراچی کے تین حلقوں کے اراکین کے استعفے منظور کرنے کی تجویز دی تھی، جن میں حلقہ نمبر237 کراچی ملیر دو، 239 کراچی کورنگی ایک، 246 کراچی ساؤتھ ایک شامل ہیں

مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا ”اس وقت مخصوص استعفے منظور کرنے کی ایک وجہ اراکین کا مخالف پارٹی سے کم مارجن پر جیتنا بھی ہے لیکن صرف اسی وجہ سے استعفے منظور کرنا نہیں ہے، اس میں اتحادی جماعتوں کے ساتھ بگڑتے تعلقات بھی ہو سکتے ہیں، جو کے آگے چل کر ممکنہ تحریک عدم اعتماد کی صورت بھی اختیار کر سکتے تھے“

عوامی نیشنل پارٹی کے ترجمان زاہد خان کہتے ہیں ”گیارہ استعفوں کی منظوری ایک بہتر حکمت عملی ہے، اب حکومتی اتحاد میں شامل تمام جماعتوں کو مشترکہ امیدوار کھڑے کرنے چاہییں اور ان کی کامیابی کے لیے بھرپور کوشش کرنی چاہیے“

ان کا کہنا تھا ”اگر حکومتی اتحاد ایک سو پچیس میں سے آدھی نشستیں بھی جیت لے تو یہ اتحاد کی بہت بڑی کامیابی ہوگی اور اگر کل وفاق میں ممکنہ طور پر کوئی تحریک عدم اعتماد لائی بھی جاتی ہے تو اس کو با آسانی ناکام بنایا جا سکتا ہے۔ حکومت بلیک میلنگ سے بھی بچ جائے گی“

ان کا مزید کہنا تھا ”حکومت کو استعفوں کی منظوری کا یہ فیصلہ پہلے کرنا چاہیے تھا۔ حکومت نے فیصلے میں تاخیر ضرور کی ہے لیکن اب بھی کوشش کرنی چاہیے کہ خالی ہونے والی نشستوں سے آدھی نشستیں حکومت اپنے نام کرے“

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار نصرت جاوید کے مطابق یہ عمل ’احمقانہ‘ ہے۔ یہ فیصلہ معتصبانہ لگتا ہے، جسے عدالت میں چیلنج بھی کیا جا سکتا ہے

انہوں نے کہا ”پی ٹی آئی کی قومی اسمبلی میں واپس آنے اور تحریک عدم اعتماد لانے سے متعلق خبریں سننے کے بعد شاید یہ کیا گیا ہو لیکن یہ عمل میرے سمجھ میں نہیں آ رہا“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close