محمد رفیع بالی ووڈ کے نمبر ون گلوکار کیسے بنے؟

فاروق اعظم

ایسے لوگوں کی ایک طویل فہرست ہے، جو لاہور سے ممبئی فلم انڈسٹری گئے اور کامیابی نے ان کے قدم چومے۔ ایسا ہی ایک ستارہ محمد رفیع تھا، جو اپنی موت کے بیالیس برس گزرنے کے بعد آج بھی پوری آب و تاب سے روشن ہے

اگرچہ یہ کامیابی انہیں راتوں رات نہیں ملی بلکہ ممبئی کے افق پر نمبر ون پلے بیک سنگر کے طور پر نمایاں ہونے سے پہلے انہیں جد و جہد کی طویل سیاہ راتوں سے گزرنا پڑا

فلم موسیقی کی تاریخ میں 1944ء کا سال دو وجوہات کی بنا پر خصوصی اہمیت رکھتا ہے۔ پہلی یہ کہ موسیقار نوشاد علی کی فلم رتن ریلیز ہوئی۔ دوسری اور زیادہ اہم بات کہ محمد رفیع لاہور چھوڑ کر ممبئی چلے گئے

معروف شاعر جاوید اختر کے مطابق رفیع صاحب کا پہلا ٹھکانہ ”ممبئی کے گنجان آباد علاقے بھنڈی بازار میں دس بائی دس کا کمرہ تھا۔” کسے خبر تھی کہ وہاں ایسے سُر قید ہیں، جن کی گونج ہندوستان کے کونے کونے تک پہنچے گی

نوشاد اپنے انٹرویو میں ایک واقعہ سناتے ہیں کہ ایک دن وہ کاردار پروڈکشن ہاؤس سے نکلے تو ایک نوجوان نے ان کے ہاتھ میں ایک خط تھما دیا، جو وہ لکھنئو جا کر ان کے والد سے لکھوا لایا تھا۔ نوشاد صاحب کے بقول وہ انہوں نے خط پڑھا اور نوجوان کی طرف دیکھا تو وہ بہت سیدھے سادے انداز میں کہنے لگا ”مجھے موقع دیجیے!”

اس وقت ‘پہلے آپ کے نام‘ سے ایک فلم بن رہی تھی جس میں جی ایم درانی اور علاؤالدین (جو بعد میں پاکستان کے معروف کیریکٹر ایکٹر بنے) کے ساتھ محمد رفیع کو بھی ایک لائن گانے کا موقع ملا۔ وہ کورس تھا ہندوستان کے ہم ہیں، ہندوستان ہمارا۔

لیکن یہ خط اور رفیع کی محنت کوئی چمتکار نہ دکھا سکے۔ سرجیت سنگھ کے مرتب کردہ انسائیکلوپیڈیا آف ہندی فلم سونگز کے ریکارڈ کے مطابق اگلے سال رفیع صاحب کو محض دس گیت ملے، جن میں سے نصف کورس یا ڈوئیٹ تھے۔ یہاں تک کہ نوشاد کے ساتھ اگلا گیت ریکارڈ کروانے کے لیے انہیں دو برس انتظار کرنا پڑا

دوسری طرف طلعت محمود اور مکیش کو نسبتاً بہت جلد کامیابی ملی۔ طلعت محمود آل انڈیا ریڈیو لکھنئو میں میر، داغ اور جگر وغیرہ کی غزلیں گانے کے سبب پہلے ہی نام پیدا کر چکے تھے۔ ممبئی میں آتے ہی انہیں انل بسواس نے انتہائی خوبصورت گیت دیا اور وہ راتوں رات بطور پلے بیک سنگر جگہ بنانے میں کامیاب رہے۔ وہ گیت تھا، اے دل مجھے ایسی جگہ لے چل، جہاں کوئی نہ ہو

مکیش کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ انل بسواس نے انہیں ‘دل جلتا ہے تو جلنے دے‘ جیسا لاجواب گیت دیا، جس کی داد سہگل جیسے بڑے فنکار نے دی۔ انل بسواس اس عہد کا غیر معمولی نام ہے مگر رفیع ان کے ہاں بار نہ پا سکے

تب دلیپ کمار اور راج کپور نئے ہیروز کے طور پر کامیاب اننگز کھیل رہے تھے۔ آج نوشاد، دلیپ کمار اور رفیع کی مثلث کو علیحدہ کرنا ممکن نہیں لگتا مگر نوشاد اور دلیپ کمار کی پہلی مشترکہ فلم میلہ (1948ء) میں مرکزی آواز مکیش کی تھی

اس جوڑی کی دوسری فلم انداز (1949ء) میں بھی مکیش کی آواز استعمال کی گئی۔ دلیپ کمار سے ہٹ کر راج کپور کے بیشتر گیت بھی مکیش گا رہے تھے، جس میں گیان دت کی ‘سنہرے دن‘ اور روشن کی ‘باورے نین‘ جیسی کئی فلمیں شامل ہیں

پچاس کی دہائی نوجوان رفیع کے لیے اپنے دامن میں بے پناہ کامیابیاں لائی، جن کا آغاز دیدار (1951ء) سے ہوا۔ ہوئے ہم جن کے لیے رسوا، نصیب در پہ ترے، میری کہانی بھولنے والے اور میری کہانی بھولنے والا جیسے مقبول گیت اور وہ بھی ایک ساتھ ایک فلم میں۔ یہ ایک اور فیصلہ کن موڑ تھا

یہی وہ سال تھا، جب شنکر جیکشن نے مکیش کو راج کپور کے لیے آوارہ میں انتہائی عمدگی سے استعمال کیا۔ ‘آوارہ ہوں‘ کی گونج روس تک سنی گئی۔ مکیش راج کپور کی آواز بن گئے

اسی سال ‘ترانہ‘ ریلیز ہوئی، جس میں انل بسواس کی موسیقی اور طلعت کی پرسوز آواز نے سامعین پر سحر طاری کر دیا۔ سینے میں سلگتے ہیں ارماں، نین ملے نین ہوئے باورے اور ایک میں ہوں ایک میری بے بسی جیسے گیت کسی بھی طرح رفیع نوشاد کی دیدار سے کم نہ تھے۔ لیکن 1952ء کا سال کچھ اور نوید سنا رہا تھا

یہ وہ سال تھا، جب نوشاد آن اور بیجو باورا کی موسیقی ترتیب دے رہے تھے اور یہ ایسی فلمیں تھیں جن کے لیے مکیش یا طلعت کی آواز مناسب نہ تھی

’نوشاد نامہ‘ کے مصنف راجو بھارتن نے نوشاد سے پوچھا کہ آپ نے بیجو باورا میں طلعت کی جگہ محمد رفیع کو کیوں لیا تو نوشاد صاحب نے کہا، ”طلعت غزل کے فن میں ماہر ہے اور اس میں دوسری رائے نہیں۔ لیکن ان کی آواز کی ایک مخصوص رینج ہے۔ اگر میں طلعت یا مکیش کی آواز استعمال کروں تو مجھے ایک خاص دائرے کے اندر رہ کر دھن بنانا پڑتی ہے۔ اس کے مقابلے میں رفیع کی آواز کسی بھی طرح کا سنگیت بنانے کا کھلا موقع فراہم کرتی ہے۔”

یہی وہ چیز تھی، جس نے رفیع کو دیگر تمام مرد گلوکاروں سے ممتاز کیا۔ وہ نیم کلاسیکی گیت، غزل، قوالی، بھجن، رومانوی یا ہلکا پھلکا ہر طرح کا گانا بآسانی گا سکتے تھے

بیجو باورا کے ریلیز ہونے کی دیر تھی کہ محمد رفیع شہرت کے نئے آسمان پر پہنچ گئے۔ نو برس پہلے رفیع صاحب کو ایک گیت کے حساب سے دس روپے مل رہے تھے اور اب بیجوباورا کے بعد ایک گیت کا اتنا ہی معاوضہ لینے لگے جتنا لتا منگیشکر لے رہی تھیں یعنی پانچ سو روپے۔۔

یہاں سے رفیع ہر موسیقار کا پہلا انتخاب بن گئے۔ لاہور سے ممبئی جانے والے او پی نیئر کی موسیقی میں رفیع کی آواز کا ایک اور جوہر کھلا کہ وہ شوخ و شنگ گیت بھی اتنے ہی خوبصورت انداز میں گاتے ہیں، جتنے نیم کلاسیکی۔ اڑیں جب جب زلفیں تیری، مانگ کے ساتھ تمہارا، او لے کے پہلا پہلا پیار، اشاروں اشاروں میں دل لینے والے جیسے نیئر کے گیت اس سلسلے کی بہترین مثالیں ہیں

کامیابی کی کھوج میں رفیع صاحب نے کئی سال پروڈکشن کمپنیوں کے چکر کاٹے، میلوں پیدل چلے اور روکھا سوکھا کھا کر گزارہ کیا لیکن ہمت نہیں ہاری اور تاریخ رقم کی۔ وہ نہ صرف اپنے وقتوں میں بلکہ آج بھی مقبول ترین فنکاروں میں شمار ہوتے ہیں

سی این این اور آئی بی این کے اشتراک سے ہندی سینما کے سو سال پورے ہونے کے موقع پر جب 2013ء میں ”ہندی سینما کی عظیم ترین آواز” کے لیے سروے کیا گیا تو رفیع صاحب کو سب سے زیادہ ووٹ ملے۔ جبکہ اسی موقع پر بی بی سی ایشین نیٹ ورک کے سروے میں ان کا گیت ‘بہاروں پھول برساؤ‘ نمبر ون ٹھہرا۔ وقت کی گرد ان کی روشنی ماند نہیں کر سکی۔

بشکریہ: ڈی ڈبلیو

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close