مظہر حسین کا تعلق پنجاب کے ضلع راجن پور کی یونین کونسل محمد پور دیوان سے ہے۔ ان کا کہنا ہے ”بارشیں ہوں یا نہ ہوں دونوں حالات میں ہمارے لیے مصیبت ہی مصیبت ہے۔ ہر دو، تین سال بعد ہمارے راجن پور کے علاقے سیلابی پانی سے متاثر ہوتے ہیں۔ اس سال تو لگتا ہے کہ راجن پور میں دوبارہ سنہ 2010 والا سیلاب آ گیا ہے۔ ہماری تو پوری یونین کونسل ہی متاثر ہے“
مظہر حسین نے بتایا ”ہم لوگ گذشتہ سات دنوں سے عملاً اپنے گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔ ہمارے چاروں اطراف پانی کھڑا ہے۔ علاقے میں اشیا خورد و نوش کی قلت پیدا ہو چکی ہے۔ ہمارے علاقے کے دیہاڑی دار مزدوروں کے گھروں میں راشن نہیں ہے“
ان کا کہنا تھا ”علاقہ بھی نہیں چھوڑ سکتے کہ کھیتی باڑی سے تو کسی سال ہمیں کچھ ملتا ہے اور کچھ نہیں۔ اس سال میری گیارہ ایکڑ پر لگی کپاس کی فصل تباہ و برباد ہو چکی ہے۔ باقی لوگوں کی فصلیں بھی ختم ہو چکی ہیں۔ ہماری کل دولت مال مویشی ہیں۔ اگر ہم علاقہ چھوڑیں تو مال مویشی کہاں لے کر جائیں؟“
واضح رہے کہ صوبہ خیبرپختونخواہ سے لے کر پنجاب، سندھ اور بلوچستان تک کے علاقے جو کوہِ سلیمان اور دریائے سندھ کے درمیان واقع ہیں، خشک علاقے کہلاتے ہیں اور راجن اور اس سے ملحقہ اضلاع بھی ان میں شامل ہیں
یہ بنیادی طور پر بارانی خطہ ہے،جہاں عموماً پانی کا زیادہ تر انحصار کوہ سلیمان کے پہاڑوں پر ہونے والی بارشوں پر ہوتا ہے، بارشیں نہ ہوں تو یہ خطہ اکثر خشک سالی سے جوجھتا رہتا ہے
تاہم اس مون سون میں ملک بھر کی طرح یہاں بھی معمول سے زیادہ بارشیں ہوئی ہیں، لیکن بدقسمتی سے یہ بارشیں بھی اپنے ساتھ سیلاب ہی لے کر آئی ہیں
راجن پور سے صحافی الیاس گبول کے مطابق مقامی انتظامیہ نے انہیں بتایا ہے کہ حالیہ بارشوں سے اکیس دیہات متاثر ہوئے ہیں۔ ستائیس ہزار ایکڑ سے زائد فصلیں تباہ ہوئی ہیں۔ 148 کلو میٹر کی سینتیس مختلف روڈ اور ایک ہزار سے زائد عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے۔ سیلابی صورتحال کے باعث ابھی بھی کئی علاقوں میں لوگ پھنسے ہوئے ہیں
اگرچہ ڈیرہ غازی خان سے اب تک کسی بڑے سیلابی ریلے کی اطلاع تو نہیں ہے، لیکن صحافی عابد یحیٰی بابر کا کہنا تھا کہ انتظامیہ کے مطابق حالیہ بارشوں میں نالوں میں طغیانی سے چار افراد ہلاک ہو چکے ہیں
تاہم صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان جو کہ گذشتہ سالوں میں کوہ سلیمان کے سیلابی پانی سے انتہائی متاثرہ علاقہ سمجھا جاتا تھا اب وہاں پر گذشتہ چند سالوں کے مقابلے میں نقصان بہت کم ہے
ملک بھر میں اس وقت اوسط سے تقریباً 192 فیصد زیادہ بارشوں سے نقصانات کی صورتحال گھمبیر ہے
قدرتی آفات سے نمٹنے والے ادارے این ڈی ایم اے کے مطابق ملک بھر میں سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ بلوچستان ہے، جہاں پر 14 جون سے اب تک ایک سو بیس لوگ ہلاک ہو چکے ہیں
محکمہ موسمیات لاہور کے ڈائریکٹر چوہدری محمد اسلم کہتے ہیں ”کوہ سلیمان کے پہاڑوں کے دامن میں بسنے والے پہلے ہی شدید موسمی تبدیلی کا شکار ہیں۔ اس علاقے میں پہلے ہی کم بارشیں ہوتی تھیں۔ حالیہ سالوں میں دیکھا گیا ہے کہ اب وہاں پر خشک سالی کا دورانیہ بڑھ چکا ہے۔ سالوں سے ان لوگوں کی پانی کی ضرورت کوہ سلیمان کے پہاڑوں پر ہونے والی بارشوں سے پوری ہوتی تھی۔ مگر کوہِ سلیمان کا پہاڑ بھی موسمی تبدیلی کا شکار ہو چکا ہے۔ اب اگر کوہ سلیمان پر بارش نہ ہو تو متاثرین میں کوہ سلیمان کے دامن میں بسنے والے لوگ ہوتے ہیں۔ بارش ہو تو بھی یہ لوگ متاثر ہو رہے ہوتے ہیں“
محکمہ زراعت کے ادارہ برائے خشک علاقہ جات کے ڈائریکٹر ڈاکٹر نعمان لطیف کا کہنا ہے ”کوہ سلیمان کے دامن میں بسنے والے خشک علاقہ جات میں اوسط بارش کی شرح صرف دو سو سے تین سو ملی میٹر رہی ہے۔ ان لوگوں کے لیے تو کوہ سلیمان اور سیلاب کا پانی رحمت ہوتا ہے مگر حالیہ بارشیں بہت شدید ہیں جو نقصان کا باعث بن رہی ہیں“
ڈیرہ غازی خان سے صحافی عابد یحییٰ بابر کہتے ہیں ”کوہ سلیمان کے دامن میں بسنے والے علاقوں میں نہ تو کوئی مناسب فصل ہوتی ہے اور نہ اکثریت علاقوں میں زیر زمین پانی اس قابل نہیں ہے کہ اس کو زراعت اور پینے کے لیے استعمال کیا جائے۔ مقامی لوگ پانی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے مختلف طریقے اختیار کرتے ہیں۔ جس میں مقامی طور پر لوگوں نے بڑے بڑے تالاب بنا رکھے ہیں۔ جس میں سیلاب کے پانی کا ذخیرہ کیا جاتا ہے۔ انگریز کے دور میں کوہ سلیمان کے قریب علاقوں میں بند بنانے کا طریقہ تھا۔ جس میں بارشوں سے پہلے انگریز دور کے سرکاری اہلکار بند باندھتے تھے۔ ہر زمیندار اپنی زمین کو سیراب کر کے پانی کو دوسرے کی زمین پر راستہ دے دیتا تھا۔ جس سے پانی استعمال ہو جاتا تھا۔ اب اس علاقے کے اندر لوگوں کی اکثریت زیر زمین پانی حاصل کرنے کے لیے بورنگ کروا چکی ہے اور اس کے ساتھ سولر پینل لگوا دیے گئے ہیں۔ اب ان لوگوں کو کوہِ سلیمان کے پانی کی ضرورت نہیں رہی۔ وہ اس کو روک نہیں رہے اور یہ نیچے کی طرف جا کر تباہی مچاتا ہے“
ڈاکٹر نعمان لطیف کہتے ہیں ”پاکستان میں خشک سمجھا جانے والا علاقہ 45 فیصد ہے۔ جہاں پر پانی کی قلت کے باعث مناسب اور نفع بخش اجناس کاشت نہیں ہوتیں۔ ان لوگوں کا بڑا ذریعہ معاش مال مویشی ہوتے ہیں۔ گذشتہ عرصے میں دیکھا ہے کہ مال مویشیوں کے لیے بھی پانی مہیا کرنے میں مسائل کا سامنا ہے۔ ان لوگوں کے لیے سیلابی پانی ہی اصل میں پانی کا بڑا ذریعہ ہے۔ موجودہ بارشیں تو ہیں ہی اوسط سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ مگر دیکھا جا رہا ہے کہ اب اگر کوہ سیلمان کے پہاڑوں اور اردگرد کے علاقوں پر اوسط بارشیں بھی ہو جائیں یا اوسط سے تھوڑا بھی زیادہ ہو جائیں تو ان علاقوں میں سیلابی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس سیلابی پانی کے گزرنے کے راستوں پر تجاوزات ہیں۔ کچھ لوگ قابض ہو چکے ہیں۔ سالوں پرانے راستوں پر روڈ، پل بن رہے ہیں۔ جن میں اس بات کا اندازہ نہیں لگایا جارہا ہے کہ کتنا پانی گزرنے کی گنجائش چھوڑی جائے۔جب پہاڑوں سے تیز رفتار پانی اپنے ساتھ ملبہ لے کر نکلتا ہے تو اپنے راستے میں ہر چیز کو ساتھ لے لیتا ہے۔ اگر اس کے راستے میں رکاوٹیں ہوں تو وہ ان کو بھی اپنا حصہ بنا کر سب کچھ تباہ و برباد کردیتا ہے“
ڈاکٹر نعمان لطیف کہتے ہیں ”محتاط ترین اندازے کے مطابق ہر سال اگر اوسط یا اس کے آگے پیچھے بارشیں ہوں تو کوہ سلیمان کا پاکستان کے سب سے بڑے ڈیم تربیلہ سے گنجائش سے زیادہ پانی دریائے سندھ میں جا کر گرتا ہے“
ڈاکٹر نعمان لطیف کا کہنا ہے ”پرانے وقتوں میں یہ پانی بند وغیرہ قائم کرنے کی وجہ سے استعمال ہوتا تھا۔ مگر اب کم ہو رہا ہے۔ اس وقت تو اس پانی سے تکلیف موجود ہے اور نقصان بھی ہو رہا ہے۔ مگر یہ پانی جہاں جہاں سے گزرے گا وہاں وہاں آنے والے دونوں میں مقامی لوگوں کے لیے خوشحالی لائے گا۔ اس علاقے کا زیر زمین پانی بہتر ہو گا۔ زمنیں سیراب ہوں گیں۔ پانی اتر جانے کے بعد لوگ اپنی زمینوں پر مختلف فصلیں کاشت کریں گے“
ڈاکٹر نعمان لطیف کہتے ہیں ”اگر منصوبہ بندی کر لی جائے تو یہ پانی مستقبل میں علاقے کے لیے بہتری کا سبب بن سکتا ہے۔ ان علاقوں میں پرانے واٹر چینل تو موجود ہیں مگر نئے نہیں قائم ہوئے۔ وہ واٹر چینل بھی بوسیدہ ہو چکے ہیں“
ان کا کہنا تھا ”کوہ سلیمان کے دامن میں واقع ان علاقوں کے سیلابی پانی کا رخ دریائے سندھ کی طرف ہے۔ اکثر علاقوں میں کوئی نکاسی آب کے نالے بھی نہیں ہیں اور کچھ ختم ہو چکے ہیں۔ مگر اس سب کے باوجود پانی کے استعمال کا ماسوائے ڈیرہ اسماعیل خان کے کسی اور مقام پر کوئی طریقہ اختیار نہیں کیا گیا ہے“
ان کا کہنا تھا ”حالیہ سالوں میں گومل ڈیم بنایا گیا ہے۔ اس ڈیم میں پانی کا ایک بڑا ذریعہ کوہ سلیمان کا پانی ہے۔ اس ڈیم کا بنیادی مقصد ہی سیلاب کی صورتحال کو کنٹرول کرنا اور آب پاشی کے لیے پانی مہیا کرنا تھا۔ اس ڈیم کی تعمیر سے پہلے ڈیرہ اسماعیل خان اور اس سے ملحقہ علاقوں میں ویسی صورتحال پیش آ جاتی تھی جیسے اب تونسہ، ڈیرہ غازی خان اور اس وقت راجن پور میں ہے مگر اب وہاں پر اس طرح کی صورتحال کم ہی پیش آتی ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان اور ملحقہ علاقوں میں بڑا رقبہ سیراب ہو رہا ہے۔ ان علاقوں میں اگر مزید چھوٹے ڈیم بنا دیے جائیں تو پھر ان علاقوں میں سیلاب کی صورتحال بہت کم پیش آئے گئی۔ تربیلا ڈیم جتنا یا اس سے زیادہ پانی دستیاب ہوگا“
ڈاکٹر نعمان لطیف کہتے ہیں ”اگر تجاوزات کا خاتمہ ہو اور انفراسٹرکچر کی تعمیر کے دوران قدرتی سیلابی نالوں کا خیال رکھا جائے تو یہ پانی جو ہر تھوڑے عرصے بعد تباہی لاتا ہے۔ یہ ہی پانی رحمت بن کر پورے علاقے میں خوشحالی لا سکتا ہے۔ بہت بڑا خشک رقبہ قابل استعمال بنا کر ملک کی بڑھتی ہوئی خوراک کی ضرورت کو پورا کیا جا سکتا ہے۔“