بلوچستان میں ڈیموں کی صورتحال کیا ہے؟

ویب ڈیسک

بلوچستان کے ضلع گوادر کے علاقے پسنی کے ماہی گیر اسماعیل کا کہنا ہے ”موجودہ بارشوں سے 2005ع کی یاد آ گئی ہے۔ جب اچانک شادی کور ڈیم ٹوٹ گیا اور پورے کا پورا علاقہ ڈیم کے پانی کے نیچے آ گیا، کسی کے پاس خود کو بچانے کا کوئی موقع نہیں تھا۔ پانی اپنے ساتھ سب کچھ بہا کر لے گیا تھا، جس میں میرے والد بھی شامل تھے“

اسماعیل کہتے ہیں ”اب ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں دوبارہ ویسا ہی حادثہ پیش نہ آ جائے“

بلوچستان میں محکمہ موسمیات کے مطابق اس وقت اوسط سے تقریباً پانچ سو فیصد زیادہ بارشیں ہو رہی ہیں

ان بارشوں کی وجہ سے بلوچستان اپنی تاریخ کے ایک اور بدترین سیلابی ریلوں کی زد میں ہے، جس سے بہت بڑے پیمانے پر جانی اور مالی نقصان ہو رہا ہے

حکومتی اعلانات اور اطلاعات کے برعکس مقامی ذرائع کئی گنا زیادہ جانی اور مالی نقصان کی اطلاعات دے رہے ہیں

گزشتہ روز ملیر کراچی سے امدادی سامان لے کر جانے والے رضاکاروں نے سنگت میگ کو بتایا ”بیلہ کے نزدیک میڈیکل کیمپ میں دوائیاں عطیہ کرنے پہنچے تو وہاں تازہ صورتحال کے بارے میں مقامی لوگوں سے بات ہوئی۔ ایک شخص نے بتایا کہ آج شام تک 230 لاشیں ملی ہیں جبکہ لوگوں کی بڑی تعداد کا کچھ پتہ نہیں چل سکا ہے، جن میں ہندو بھیل برادری کے لوگ بھی شامل ہیں“

دوسری جانب قدرتی آفات سے نمٹنے والے ادارے پی ڈی ایم اے کے مطابق 14 جون سے لے کر 31 جولائی تک بلوچستان میں دس چھوٹے ڈیم اور حفاظتی بندوں کو نقصان پہنچا ہے

شاید یہی وجہ ہے کہ بند اور ڈیموں کو نقصان پہچنے کے بعد سے کراچی کو پانی کی سپلائی کے لیے قائم کردہ حب ڈیم کے حوالے سے سوشل میڈیا پر مختلف غیر تصدیق شدہ اطلاعات بھی گردش کر رہی ہیں

واپڈا نے اپنے ایک بیان میں حب ڈیم کے حوالے سے ان اطلاعات کی سختی سے تردید کی ہے

حب ڈیم کی صورتحال کے حوالے سے واپڈا ساؤتھ کے جنرل مینجر پراجیکٹس عامر مغل کے مطابق حب کے ڈیم پانی ذخیرہ کرنے کی انتہائی سطح 339 فٹ ہے

ڈیم میں 17 جولائی سے پانی اپنی انتہائی سطح پر موجود ہے، اضافی پانی کو سپل وے کے ذریعے محفوظ طریقے سے زیریں جانب خارج کیا جا رہا ہے

عامر مغل کے مطابق ’حب ڈیم 1981 میں مکمل ہوا تھا اور تب سے اب تک یہ نو مرتبہ مکمل طور پر بھر چکا ہے۔‘

اس سے قبل حب ڈیم دو سال پہلے یعنی 2020ع میں بھی مکمل طور پر بھر گیا تھا اور اس وقت بھی اضافی پانی کو محفوظ طریقے سے حب ندی میں خارج کیا گیا تھا

میرانی ڈیم کو بلوچستان کا سب سے بڑا ڈیم کہا جاتا ہے۔ اس ڈیم میں بھی پانی اپنی انتہائی سطح تک پہنچ چکا ہے۔ اس طرح دیگر ڈیموں اور حفاظتی بندوں کے بارے میں بھی بتایا جارہا ہے کہ ان میں بھی پانی اپنی انتہائی سطح تک پہنچ چکا ہے

تاہم ارسا کے مطابق پاکستان کے دو بڑے ڈیموں تربیلہ اور منگلا میں اس وقت بھی پانی انتہائی سطح سے بیس فٹ کم ہے

سول انجینیئر اور ڈیموں کے ماہر سردار محمد طارق، جنہوں نے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر کئی ڈیموں کی تعمیر میں حصہ لیا، کا کہنا ہے کہ بظاہر یہ لگتا ہے کہ حب ڈیم میں پانی اپنی انتہائی سطح پر پہچنے کے باوجود ڈیم کو فی الحال کوئی خطرہ نہیں

اسی طرح بلوچستان کے دیگر دو، تین بڑے ڈیموں کو بھی خطرہ نہیں

تاہم ان کا کہنا تھا ’بلوچستان سے اس طرح کی اطلاعات کا سامنے آنا کہ متعدد چھوٹے ڈیموں اور حفاظتی بندوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے تشوشناک بات ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان کے کئی چھوٹے ڈیم اور حفاظتی بند غیر محفوظ ہیں۔‘

بلوچستان حکومت کی ترجمان فرح عظیم شاہ نے اس بات کی تردید کی ہے کہ ’بلوچستان کے کئی چھوٹے ڈیم غیر محفوظ ہیں۔‘

پی ڈی ایم اے بلوچستان کے مطابق کیچ ضلع میں سب سے زیادہ تین ڈیم یا حفاظتی بند کو نقصان پہنچا ہے

مستونگ، بارکھان، لورالائی، چمن، قلعہ سیف اللہ، پشین اور ڈیرہ بگٹی میں ایک ایک ڈیم یا بند حفاظتی بندوں کو نقصان پہنچا ہے

ان حفاظتی بندوں یا ڈیموں کو نقصان پہچنے سے کیا خطرات ہیں؟ اس کی تفصیل تو نہیں بتائی گئی تاہم پی ڈی ایم اے بلوچستان کی جانب سے اب تک ہونے والے نقصانات کی جاری کردہ تفصیلات کے مطابق بند یا ڈیم ٹوٹنے والے اضلاع میں معمولی نقصانات کی اطلاعات ہیں

سرکاری اداروں سے بلوچستان میں موجود ڈیموں کی تعداد کے بارے میں اطلاعات دستیاب نہیں ہو سکی ہیں

تاہم سردار محمد طارق نے بتایا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں جن سو ڈیموں کی تعمیر کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ اس کی کنسلٹنی کمیٹی میں وہ بھی شامل تھے۔ ان سو ڈیموں کی تعمیر کے لیے مطلوبہ وسائل مہیا نہیں ہوسکے تھے تاہم اس وقت بھی بلوچستان میں موجود چھوٹے بڑے ڈیموں کی تعداد تقریباً ایک سو ہے

سردار محمد طارق کہتے ہیں اس میں شک نہیں کہ ان ڈیموں کا ڈھانچہ، ڈیزائن اور اس کے بنیادی چیزوں پر سوال اٹھائے گئے ہیں، جن کے جوابات آنا لازمی ہیں

ان کا کہنا تھا ’شادی کور ڈیم ٹوٹنے کی سب سے بڑی وجہ اس کے مناسب سپیل وے کا نہ ہونا، کمزور ڈھانچہ اور ڈیزائن تھا۔ اس کا ڈیزائن اور ڈھانچے میں ایسے کسی حادثے، سیلاب، یا طوفانی بارش سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھئی گئی تھی‘

اسی طرح حالیہ ڈیموں یا حفاظتی بندوں کو نقصان پہچنے کی وجہ بھی غالباً ان کا ڈھانچہ اور اس بات کی منصوبہ بندی کا فقدان ہوگا کہ اگر کوئی صورتحال پیش آتی ہے تو حفاظتی اقدامات کیا ہوں گے

ہوسکتا ہے کہ ان ڈیموں کے سپیل وے کم ہوں اور ڈیم جب انتہائی سطح تک پہنچ گے ہوں تو اس میں سے پانی مناسب طور پر خارج نہ ہو رہا ہو

گلوبل واٹر پارٹنر شپ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر پرویز کے مطابق ڈیموں کی تعمیر میں مختلف آفات کا پانچ سو سالہ ڈیٹا دستیاب نہ ہو تو کم از کم دو سال کی آفات کے ڈیٹا کی روشنی میں ڈیزائن کیا جانا چاہیے

ان کا کہنا تھا کہ مجھے خدشہ ہے کہ بلوچستان کے سیاسی و سماجی حالات دیکھتے ہوئے میں یہ بات یقینی طور پر نہیں کہہ سکتا کہ واقعی ایسا ہو گا۔ بہرحال ان اطلاعات کا آنا کہ دس ڈیم ٹوٹ چکے ہیں یہ انتہائی تشوشناک صورتحال ہے

بلوچستان حکومت کی ترجمان فرح عظیم شاہ کا کہنا تھا کہ ’بلوچستان میں تمام بڑے ڈیم محفوظ ہیں۔ انہیں فی الحال کوئی خطرہ نہیں۔ جو چھوٹے ڈیم اور حفاظتی بند ٹوٹے ہیں ان پر کام جاری ہے۔ باقی موجود ڈیموں اور حفاظتی بندوں کے حوالے سے ایسی کوئی اطلاعات نہیں کہ وہ خطرے کا شکار ہیں‘

پانی اور ماحولیات کے ماہر ڈاکٹر حسن عباس کے مطابق بلوچستان کی حالیہ تباہی سے ثابت ہو چکا ہے کہ ڈیم مسئلے کا حل نہیں بلکہ یہ ٹائم بم کی طرح ہیں جو ہم تیار کرتے جا رہے ہیں۔ اس کی جگہ پر مناسب منصوبہ بندی اور عمل در آمد سے نقصانات پر قابو پایا جا سکتا ہے

ایسا کچھ نہیں ہوا جو ہم نہیں جانتے تھے
ڈاکٹر حسن عباس کہتے ہیں کہ ’دنیا نے بڑی ترقی کر لی ہے۔ محکمہ موسمیات کئی ہفتوں سے یہ پیشگوئی کر رہا تھا کہ مون سون کے دوران پاکستان میں اوسط سے زائد بارشیں ہوں گی۔ بلوچستان ایک ایسا علاقہ ہے جہاں پر اکثر و بشیتر سیلابی ریلے تباہی مچاتے رہتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میری رائے میں اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے چھوٹے یا بڑے ڈیم نہیں بلکہ سیلابی صورتحال سے نمٹنے کی تیاری لازم ہے۔ دنیا میں کئی ممالک ایسے ہیں جو اس صورتحال کا شکار ہیں۔ وہاں پر بھی موسمی تبدیلی کا مسئلہ ہے مگر وہاں پر ان حالات میں اتنا جانی و مالی نقصان نہیں ہوتا جتنا پاکستان میں ہو رہا ہے۔‘

ڈاکٹر حسن عباس کہتے ہیں ’بلوچستان میں سیلابی ریلوں کے نکاسی آب کے نالے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ایک ختم ہوتا ہے تو دوسرا شروع ہو جاتا ہے۔ یہ بہت گہرے بھی ہیں۔ سب سے پہلا کام تو یہ ہے کہ ان نالوں کی صفائی کی جائے تاکہ پانی ان میں سے بغیر کسی رکاوٹ گزر جائے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی انفراسٹرکچر سیلابی ریلوں کو روکنے کا سبب نہیں بن سکتا۔ اب اگر یہ سوچ کر ان نالوں پر کوئی انفراسٹرکچر بنایا گیا کہ پانی کو ان نالوں سے راستہ ملے گا تو یہ خام خیالی ہے۔ سیلابی ریلے کے راستے میں جو کچھ بھی آئے گا وہ اس کو اپنے ساتھ بہا کر لے جائے گا اور معاملہ مزید خطرناک ہو جائے گا۔

ڈاکٹر حسن عباس کہتے ہیں کہ دنیا میں بلوچستان جیسے علاقوں میں بڑا سادہ سا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے

’ایسے علاقوں کی نشاندہی کی جاتی ہے۔ خطرے کے علاقوں کو پہلا، دوسرا اور تیسرا نمبر دیا جاتا ہے۔ بلوچستان جیسے صوبے میں کبھی دو، تین سال بعد، کبھی پانچ چھ سال بعد اور کبھی دس پندرہ سال بعد اس طرح کی صورتحال پیدا ہوتی رہتی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ مقامی لوگوں کو محفوظ کرنے کا خود کار طریقہ کار ہوتا ہے۔ مقامی لوگوں کو سال میں ایک آدھ مرتبہ اس کی تربیت فراہم کردی جاتی ہے۔ ان کے محفوظ ٹھکانے ہوتے ہیں۔ جب ایسی صورتحال پیش آ جائے تو مقامی لوگوں کو اس خود کار نظام کے تحت اس محفوظ مقام پر منتقل کر دیا جاتا ہے۔

ڈاکٹر حسن عباس کا کہنا تھا کہ سیلاب یا سیلابی ریلے آتے رہیں گے لیکن بہت کم ایسا ہو گا کہ وہ اچانک آ جائیں۔ ایسا اس جدید دور میں ممکن نہیں۔ اگر ہماری تیاری ہے تو اس طرح کے حالات سے نمٹنا اب بہت آسان ہے

ڈاکٹر حسن عباس کا کہنا تھا اس طرح اگر جانی ومالی نقصان سے بچا جائے تو یہ سیلابی ریلے نقصان دہ نہیں بلکہ پانی کو استعمال کرنے کا انتہائی بہترین ذریعہ بن سکتے ہیں

ان کا کہنا تھا کہ ’ڈیم بنانا مسئلے کا حل نہیں بلکہ ڈیم چھوٹا ہو یا بڑا مسائل کا انبار لے کر آتا ہے۔ اس سے ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیاں تباہی مچاتی ہیں۔ اگر ڈیم ہی سیلاب سے نمٹنے کا حل ہوتے تو بلوچستان میں اس وقت کم از کم سو کے قریب چھوٹے ڈیم موجود ہیں۔ وہاں پر یہ صورتحال پیش نہ آتی۔‘

سردار محمد طارق اس بات سے متفق نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے لیے لازمی ہے کہ وہ پانی کے ذخائر میں اضافہ کرے لیکن اس میں حفاظتی اقدامات کے علاوہ دیگر طریقے اختیار کیے جاسکتے ہیں

پانی کو چینلائز کریں
سردار محمد طارق کہتے ہیں کہ پاکستان میں پانی کی کمی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں مگر اس مسئلے کے حل کے لیے آج تک کسی نے سنجیدہ کوششیں نہیں کی ہیں۔ پاکستان میں مون سون کے نوے دن پانی سر پلس رہتا ہے باقی دنوں ہم پانی کی قلت کا شکار رہتے ہیں۔ ہمارا زیر زمین پانی بھی متاثر ہو چکا ہے

ان کا کہنا تھا کہ ’ان نوے دونوں میں یہ جو کم یا زیادہ سیلاب کا پانی ہوتا ہے اس کو مناسب منصوبہ بندی کے تحت استعمال کیا جاسکتا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح برطانیہ، آئرلینڈ اور دیگر ممالک کرتے ہیں وہ اپنے پانی کی بوند بوند کا استعمال کر سکتے ہیں۔‘

سردار محمد طارق کا کہنا تھا کہ ’ہم اس سیلاب کے پانی کو استعمال کرنے کے لیے مختلف چینل قائم کر سکتے ہیں۔ اس کا رخ کم پانی والے علاقوں چولستان وغیرہ کی طرف کر سکتے ہیں۔ اس پانی کو محفوظ راستہ دے سکتے ہیں۔ اس پانی کی بوند بوند استعمال کر کے خوشحالی کی بنیاد رکھ سکتے ہیں‘

ان کا کہنا تھا ’میں سمجھتا ہوں کہ ذخائر بننے چاہیں۔ یہ ذخائر چھوٹے ہوں یا بڑے ان کو بنانے میں بہت محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے تو یہ دیکھا جانا چاہیے کہ یہ جو ذخائر بن رہے ہیں جہاں پر ان کو بنانا چاہیے وہ ان کے لیے مناسب مقام ہے بھی کہ نہیں۔‘

سردار محمد طارق کے مطابق ’اس کے ساتھ ڈیزائن اور اس کے حفاظتی اقدامات پر نظر رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ صرف ڈیم بنا لینا ہی کافی نہیں اس کی سالانہ مرمت اور اس کے دیکھ بھال کے لیے مناسب عملہ اور ہنر مند افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس کے لیے وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ بلوچستان میں قائم ڈیموں کی کوئی مناسب دیکھ بھال ہوتی ہوگی۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close