امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے ایمن الظواہری تک کیسے پہنچی؟

ویب ڈیسک

دو دہائیوں سے امریکہ کو مطلوب القاعدہ رہنما ایمن الظواہری کے لیے ان کا روزمرہ کا معمول ہی جان لیوا ثابت ہوا، جب 31 جولائی کی صبح ایک امریکی میزائل نے انہیں ان کی بالکونی میں ہلاک کر دیا

صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیداروں کے انٹرویوز پر مبنی امریکی میڈیا میں چھپنے والی رپورٹس کے مطابق القاعدہ کے 71 سالہ رہنما اپنے معمول کے مطابق اتوار کی صبح چھ بج کر پندرہ منٹ پر کابل کے محلے شیرپور میں اپنے تین منزلہ مکان کی بالکونی میں نمودار ہوئے، جو ان کے آخری لمحات ثابت ہوئے

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق وہ عام طور پر طلوع آفتاب کے بعد یہاں آتے، مگر ہمیشہ اکیلے ہوتے تھے۔ امریکی انٹیلیجنس نے ان کے اسی معمول کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آپریشن کی منصوبہ بندی کی تاکہ نشانہ درست رہے اور کوئی اور جانی نقصان بھی نہ ہو

القاعدہ کے بانی اسامہ بن لادن کے بعد تنظیم کے سربراہ بننے والے ایمن الظواہری کو نائن الیون حملوں کا ماسٹر مائنڈ سمجھا جاتا تھا۔ وہ 2001ع میں امریکی افواج کے ساتھ شدید فائرنگ کے دوران اسامہ بن لادن کے ساتھ مشرقی افغانستان کے پہاڑی سرحدی علاقے میں روپوش ہو گئے تھے

امریکہ کو کئی دہائیوں سے ان کی تلاش تھی اور ان کے سر پر ڈھائی کروڑ ڈالر کا انعام مقرر تھا

امریکی انٹیلیجنس ایجنسی کئی سالوں تک ایک ایسے نیٹ ورک کا سراغ لگاتی رہی، جو الظواہری کی مدد کرتا رہا۔ وہ وقفے وقفے سے اپنے پیروکاروں کے لیے مغرب مخالف وڈیو پیغام جاری کرتے رہے، تاہم وہ زیادہ تر امریکی انٹیلی جنس کی نظروں سے اوجھل رہنے میں کامیاب رہے

مگر اگست 2021 میں اس وقت سب بدل گیا، جب امریکہ کے افغانستان سے انخلا نے الظواہری کو بظاہر اپنے خاندان کے ساتھ دوبارہ ملنے کا موقع دیا

واشنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق رواں سال کے شروع میں انٹیلیجنس اہلکاروں نے کابل میں رہائش پذیر الظواہری کے اہل خانہ کی شناخت کی۔ تاہم یہ واضح نہیں تھا کہ الظواہری پہلے ہی اس گھر میں موجود تھے یا بعد میں آئے

لیکن حکام نے ’انٹیلیجنس کے متعدد ذرائع‘ استعمال کرتے ہوئے مکان میں موجود ایک معمر شخص کی تصدیق اور شناخت پر توجہ مرکوز کرنا شروع کر دی

الظواہری کو ڈھونڈ کر قتل کرنا امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے لیے ایک آپریشنل ضروریات سے بڑھ کر تھا۔ سی آئی اے کے سات اہلکاروں سمیت نو افراد 2009 میں اس وقت ہلاک ہوگئے تھے، جب الظواہری کے بارے میں معلومات رکھنے کا دعویٰ کرنے والے ایک شخص نے افغانستان کے شہر خوست میں امریکی اڈے پر جا کر خودکش بم دھماکہ کیا

سی آئی کے لیے الظواہری کا پتہ لگانا اور انہیں نشانہ بنایا اسی کا بدلہ تھا

منصوبہ بندی

امریکی اخبار کے مطابق قومی سلامتی کے دو اعلیٰ عہدیداروں کو پہلی بار اپریل کے آغاز میں اس انٹیلیجنس کے بارے میں بتایا گیا تھا۔ اس کے فوراً بعد قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے صدر کو آگاہ کیا کہ ممکنہ طور پر الظواہری کا پتہ لگا لیا گیا ہے

مئی اور جون کے دوران حکومت کے چند عہدیداروں نے اس انٹیلی جنس کی جانچ پڑتال کی اور اس بات کی تسلی کر لی کہ مکان میں مقیم معمر شخص کوئی اور نہیں الظواہری ہی تھے

جولائی کے اوائل تک انٹیلی جنس حکام کو تقریباً یقین ہوگیا کہ انہوں نے گھر میں الظواہری کی ہی شناخت کی ہے اور پھر ان کے قتل کی منصوبہ بندی کی تاکہ صدر بائیڈن کو آپشن دیے جا سکیں

امریکی انتظامیہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر حملے کی منصوبہ بندی کے حوالے سے اخبار کو بتایا کہ الظواہری کو ’کئی بار، مخصوص وقت کے لیے‘ اس مکان کی بالکونی میں دیکھا گیا

یکم جولائی کو وائٹ ہاؤس میں قومی سلامتی کے معاونین نے صدر بائیڈن کو مجوزہ حملے کے بارے میں آگاہ کیا

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق قومی سلامتی کے اہلکاروں نے الظواہری کے مکان کا ماڈل صدر جو بائیڈن کو دکھایا اور انہیں بتایا کہ بالکونی میں تھوڑی دیر کے لیے بیٹھنا الظواہری کا معمول ہے

عہدیداروں کے مطابق صدر نے اجلاس میں موجود سی آئی اے کے ڈائریکٹر، نیشنل انٹیلی جنس کی ڈائریکٹر اور نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم سینٹر کی ڈائریکٹر سے سوال جواب کیے اور ان سے معلوم کیا کہ وہ اس نتیجے پر کیسے پہنچے کہ وہاں الظواہری ہی ہیں

بائیڈن نے حکام پر زور دیا کہ وہ دو سال سے طالبان کی قید میں موجود امریکی شہری مارک فریریکس اور ملک میں موجود ان افغانوں کو ایسے کسی حملے سے لاحق خطرات پر غور کریں، جنہوں نے جنگ میں امریکہ کی مدد کی

اجلاس میں امریکی وکلا نے بھی حملے کی قانونی حیثیت پر غور کیا اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ الظواہری قانونی طور پر ہدف ہیں

25 جولائی کو جب بائیڈن کرونا وائرس کی وجہ سے وائٹ ہاؤس میں قرنطینہ میں تھے تو انہیں ان کی ٹیم نے حتمی بریفنگ دی، جس میں شریک سکیورٹی اہلکاروں نے بائیڈن کو حملہ کرنے کا مشورہ دیا۔ صدر بائیڈن نے موقع ملتے ہی حملے کی منظوری دے دی

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق حکام نے ہیل فائر میزائل استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسے ’نپے تلے‘ حملے کا نام دیا گیا تاکہ دونوں میزائل عین اس وقت مکان کی صرف بالکونی کو تباہ کریں جب الظواہری وہاں موجود ہوں اور عمارت کے کسی دوسرے حصے میں موجود لوگوں کو بچایا جا سکے

ایسا اس لیے بھی کیا گیا کیونکہ اگست 2021 میں امریکی انخلا کے دوران کابل ہوائی اڈے پر داعش کے حملے میں تیرہ امریکی فوجیوں کی موت کے بعد کابل میں داعش کے ایک مشتبہ کارکن کی گاڑی پر امریکی فضائی حملے میں ایک ہی خاندان کے کئی افراد کی موت کے بعد امریکہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا

31 جولائی کی صبح چھ بجے کے بعد ایمن الظواہری اکیلے بالکونی میں آئے تو آسمان میں سی آئی اے کے ایک ڈرون نے دو ہیل فائر میزائل داغ دیے، جو ان کی موت کا سبب بنے

واشنگٹن پوسٹ کے مطابق انٹیلی جنس تجزیہ کاروں نے انٹیلی جنس کے مختلف ذرائع کا جائزہ لیا، جن میں غالبا فضائی نگرانی بھی شامل تھی اور اس بات کا تعین کیا گیا کہ حملے میں صرف الظواہری ہی مارے گئے ہیں۔ انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیدار نے بتایا کہ ان کا خاندان مکان کے اندر محفوظ رہا اور باہر کسی عام شہری کو نقصان نہیں پہنچا

جائے وقوعہ سے چند بلاک دور رہائشیوں اور دکانداروں نے منگل کی صبح دو دن قبل ایک طاقتور دھماکے کی آواز سننے کے بارے میں بتایا

اخبار کے مطابق ایک ریٹائرڈ فوجی افسر حق اصغر نے بتایا کہ دھماکے کی آواز سن کر بچے وہاں سے بھاگ گئے

ان کا کہنا تھا کہ شیرپور کے محلے پر طالبان کا سختی سے کنٹرول ہے اور کسی بھی مکان یا دکان کے مالک کو تفصیلی دستاویزات اور معلومات فراہم کرنی پڑتی ہیں

انہوں نے کہا: ’وہ یقینی طور پر اجنبیوں کو یہاں آباد نہیں ہونے دیتے۔‘

انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیدار نے بتایا کہ حملے کے بعد حقانی نیٹ ورک کے ارکان نے تیزی سے الظواہری کی موجودگی چھپانے کی کوشش کی اور وہاں اور آس پاس کے علاقے تک رسائی کو کئی گھنٹوں تک محدود رکھا

انہوں نے الظواہری کی اہلیہ، ان کی بیٹی اور ان کے بچوں کو دوسرے مقام پر منتقل کر دیا

وہ مکان جہاں کبھی القاعدہ کے سربراہ رہتے تھے اب خالی ہے

ڈورن حملہ کہاں سے ہوا؟

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق انخلا کے بعد، امریکہ کے پاس خطے میں خفیہ معلومات جمع کرنے اور دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملوں کے لیے اڈے کم رہ گئے ہیں

اس لیے یہ واضح نہیں ہوسکا کہ میزائلوں کو لے جانے والا ڈرون کہاں سے اڑا، کس کس ملک کے اوپر سے گزرا اور وہ اس پرواز سے آگاہ تھے یا نہیں

پاکستانی اخبار ایکسپریس ٹریبیون کے مطابق قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ القاعدہ کے سربراہ کو مارنے میں پاکستان کا کردار ہو سکتا ہے

افغان دارالحکومت میں سی آئی اے کے حملے سے اڑتالیس گھنٹے قبل آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور امریکہ کی مرکزی کمان کے کمانڈر کے درمیان ہونے والی ٹیلی فونک گفتگو سے یہ قیاس آرائیاں شروع ہوئیں

معاملے سے واقف ایک سرکاری ذرائع نے پاکستانی اخبار سے بات کرتے ہوئے کہا: ’ایمن الظواہری کا قتل افغانستان کا اندرونی معاملہ ہے۔ پاکستان کی طرف سے کسی بھی قسم کا کوئی کردار ادا نہیں کیا گیا‘

ذرائع نے افواہوں کو سختی سے مسترد کیا۔ انہوں نے کہا: ’امریکہ کے پاس خطے میں بہت سے آپشنز ہیں۔ تاہم ڈرون پاکستان سے یا اس کی فضائی حدود سے نہیں اڑا۔‘

تاہم پاکستانی دفترخارجہ کے ترجمان عاصم افتخار احمد نے کہا ہے کہ پاکستان بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق انسداد دہشت گردی کے لیے پرعزم ہے

امریکہ کی طرف سے افغانستان میں کارروائی کے بعد ایک بیان میں ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ انہوں نے سرکاری بیانات اور ذرائع ابلاغ کی اطلاعات کو دیکھا ہے۔ بقول عاصم افتخار: ’پاکستان ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں اور کردار سے پوری دنیا آگاہ ہے۔‘

پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہونگے؟

پاکستان میں یہ سوالات اٹھے کہ ڈرون کہاں سے اڑا؟ پاکستان کا کس قدر کردار ہے؟ اور کیا ہم معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے دوبارہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں شامل ہوگئے ہیں؟

افغانستان کے لیے بڑا سوال یہ پیدا ہوا ہے کہ دوحہ معاہدے میں افغان طالبان نے لکھ کر دیا تھا کہ غیر ملکی دہشتگرد گروپوں کو پناہ نہیں دی جائے گی لیکن کابل میں ایمن الظواہری جس گھر میں مارے گئے وہ سراج الدین حقانی کے قریبی ساتھی کا گھر تھا۔ تو کیا دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی ہوئی؟ افغانستان میں کوئی امریکی انٹیلیجنس نیٹ ورک نہ ہونے کے باوجود اس قدر درست انٹیلی جنس کیسے اکٹھی کی گئی؟ ہم ان سوالات کے جواب کھوجنے کی کوشش کریں گے

ایمن الظواہری اتوار کی صبح سوا 6 بجے کابل میں ڈرون حملے میں مارے گئے اور پیر کی صبح امریکی صدر نے ویڈیو خطاب میں اس کا اعلان کیا۔ امریکی صدر نے یہ اعلان کرتے ہوئے کسی ملک کی مدد شامل ہونے کا براہِ راست ذکر نہیں کیا لیکن انہوں نے اتحادیوں کا شکریہ ضرور ادا کیا۔

امریکی صدر کے مشیر قومی سلامتی جیک سلیوان نے اے بی سی ٹی وی کے پروگرام گڈ مارننگ امریکا میں کہا کہ جب یہ حملہ کیا گیا تو افغانستان میں ہمارا کوئی فرد یونیفارم میں نہیں تھا۔ اس معاملے پر امریکا افغان طالبان کے ساتھ براہِ راست بات کر رہا ہے۔ میں سب کچھ نہیں بتاؤں گا، لیکن افغان طالبان اس بات کو بخوبی سمجھ گئے ہیں کہ امریکا اپنے مفادات کا تحفظ کرسکتا ہے

امریکی صدر اور ان کے مشیر قومی سلامتی کے بیان کے بعد پاکستان کے دفترِ خارجہ کا بیان زیادہ اہمیت کا حامل ہے جس میں الظواہری کا نام تک نہیں لیا گیا اور دہشتگردی کے خلاف ملک کی قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے دہشتگردی کے خلاف ہر ایکشن کی حمایت ظاہر کی گئی

امریکی ڈرون حملے کا وقت بھی بہت اہم ہے۔ پاکستان پورے ایک سال سے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف کارروائی کے لیے افغان طالبان کو کہتا رہا لیکن کوئی عمل نہ ہوا۔ پچھلے ماہ پاکستان نے بااثر علما کا ایک وفد کابل بھیجا جس نے ٹی ٹی پی کی قیادت سے مذاکرات کیے لیکن کوئی نتیجہ نہ نکلا الٹا ٹی ٹی پی نے اپنے مطالبات کی فہرست تھما دی

کہا جاتا ہے کہ امریکا اپریل سے ہی الظواہری کے ٹھکانے سے آگاہ تھا اور کئی بار کی بریفنگز اور منصوبہ بندی کی منظوری کے بعد یہ حملہ کیا گیا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ الظواہری کو جب اس گھر میں خاندان سمیت منتقل کیا گیا تو سراج الدین حقانی اور ملا یعقوب کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا اور یہی دو رہنما الظواہری سے ملے تھے

اب افغان طالبان کے ذرائع سے یہ اطلاع بھی سامنے آرہی ہے کہ حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان کی قیادت کے درمیان اس ڈرون حملے کے بعد اختلافات پیدا ہوگئے ہیں اور حقانی نیٹ ورک کا خیال ہے کہ الظواہری سے متعلق معلومات ملا یعقوب نے دورہ قطر کے دوران شیئر کیں۔ اس بات کو یہ خیال بھی تقویت دیتا ہے کہ امریکا نے الظواہری پر ڈھائی کروڑ ڈالر کا انعام رکھا ہوا تھا اور الظواہری کی ہلاکت کے اگلے دن امریکا نے افغانستان کو چار کروڑ ڈالر منتقل کیے

پاکستان پہلے ہی ایک سال سے ٹی ٹی پی کے حملوں کا شکار ہے اور افغان طالبان کے آنے سے حملوں کی شدت اور رفتار بڑھی ہے۔ اب یہ ڈرون حملہ نہ صرف افغانستان پر حکومت کرنے والے طالبان اور حقانی نیٹ ورک میں تلخیاں پیدا کرسکتا ہے بلکہ پاکستان کے موجودہ افغان قیادت سے تعلقات بھی خراب ہو سکتے ہیں۔ اگرچہ پاکستان کا محتاط ردِعمل کسی بدگمانی سے بچنے کے لیے ہے لیکن امریکی ڈرون کہاں سے اڑا اور کون کی فضائی حدود چیرتا ہوا کابل کے دل تک پہنچا؟ یہ سوال دونوں ملکوں کے درمیان تلخی ضرور پیدا کرے گا

امریکی ڈرون پاکستان کی سرزمین سے نہیں اڑا، یہ بات دعوے کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کیونکہ افغانستان سے امریکی انخلا کے وقت یہ سوال اٹھا تھا کہ انسدادِ دہشتگردی کے لیے اڈے تلاش کیے جائیں لیکن پاکستان نے اڈے دینے سے انکار کردیا تھا اور یہی انکار پاکستان کی معاشی مشکلات کا سبب بنا

پاکستان کو تمام مطالبات پورے کرنے کے باوجود ایف اے ٹی ایف سے نہ نکالا گیا اور نہ ہی ہمیں آئی ایم ایف پروگرام کے لیے کوئی مدد ملی۔ الٹا رکاوٹیں ہی پیدا کی گئیں۔ سی پیک کے قرضوں کی واپسی کا بندوبست کیا ہے اور کیسے ہے؟ اس سوال کو بنیاد بناکر آئی ایم ایف پروگرام کو مؤخر کیا جاتا رہا۔ یہ وہی سوال ہے جو امریکی پالیسی ساز اٹھاتے رہے اور کہتے رہے کہ امریکی رقم سے چین کو ادائیگی نہیں کرنے دیں گے

اس ڈرون حملے کے بعد یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ شاید اب پاکستان کو مالی مدد مل جائے لیکن یہ ڈرون حملہ مالی مدد کے لیے ہوگا یہ بہت چھوٹی بات معلوام ہوتی ہے۔ پاکستان کی معاشی مشکلات اپنی جگہ لیکن افغانستان سے پاکستان کو جو توقعات تھیں وہ پوری نہیں ہوئیں اس لیے پاکستان کو اپنی راہ بدلنی پڑی ہے۔ یہ ضرور ہے کہ پاکستان نے اس حملے کے لیے فضائی حدود استعمال کرنے دی لیکن یہ تو 2003ء کا معاہدہ تھا کہ پاکستان افغانستان جانے اور وہاں سے واپسی کے لیے امریکا کو فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دے گا، اس لحاظ سے دیکھا جائے تو پالیسی میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں ہوئی

اگر کہیں پالیس میں تبدیلی آئی ہے تو وہ امریکا میں آئی ہے جو افغانستان سے انخلا کے بعد سے پاکستان کو اہمیت نہیں دے رہا تھا۔ مئی کے آغاز پر پاکستان کے ایک طاقتور انٹیلی جنس ادارے کے سربراہ نے واشنگٹن کا دورہ کیا تھا اور اپنے ہم منصب کے ساتھ ملاقات کے علاوہ امریکا کے مشیر برائے قومی سلامتی جیک سلیوان سے بھی ملے تھے۔ پالیسی میں یہ تبدیلی تب آئی تھی۔ پاکستان امریکی بے رخی کا شکار ضرور ہوا لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان امریکا کا اہم غیر نیٹو اتحادی ہے اور یہ حیثیت اب بھی برقرار ہے

ایمن الظواہری کی ہلاکت ایسی کامیابی ہے جس کا امریکی صدر جو بائیڈن کو عرصے سے انتظار تھا۔ پچھلے سال افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے موقع پر صدر بائیڈن نے ’اوور دی ہورائزن‘ حکمتِ عملی کا اعلان کیا تھا۔ الظواہری کی ہلاکت اس اسٹریٹیجی کی کامیابی دکھانے کے لیے بہت کافی ہے اسی لیے جیک سلیوان نے کہا کہ جب الظواہری کی ہلاکت کا کامیاب آپریشن کیا گیا تو کوئی بھی امریکی یونیفارم میں افغانستان میں موجود نہیں تھا۔ 20 سال امریکی فوجیں افغانستان میں موجود رہیں اور الظواہری کو ہلاک نہ کرسکیں اور انخلا کا ایک سال مکمل ہونے سے پہلے ہی الظواہری مارا گیا، یہ بائیڈن کے لیے بڑی کامیابی ہے

اس کامیابی کے باوجود امریکی حکام خطے میں اڈوں کے بغیر بائیڈن کی پالیسی کی مکمل کامیابی کا یقین نہیں رکھتے۔ امریکی فوجی اور انٹیلی جنس حکام اب بھی کہتے ہیں کہ افغانستان پر نظر رکھنے کے لیے انسانی انٹیلی جنس نیٹ ورک کے بغیر یہ پالیسی نہیں چل سکتی۔ خطے میں اڈوں کی ضرورت پر یقین رکھنے والے حکام کا کہنا ہے کہ الظواہری بہترین انٹیلیجنس اور خطے کے ممالک کی طرف سے فضائی حدود کے استعمال کی اجازت کے نتیجے میں مارا گیا۔ اگر کل فضائی حدود کے استعمال کی اجازت نہ ملے یا انٹیلیجنس ناقص ہو تو نئی کارروائی کیسے ممکن ہوگی؟

الظواہری کی ہلاکت کے بعد دوحہ معاہدے اور اس پر عمل درآمد کے حوالے سے بھی سوال اٹھے ہیں۔ دوحہ معاہدے میں لکھا گیا تھا کہ القاعدہ اور دیگر جنگی گروپ تب تک افغانستان میں رہ سکتے ہیں جب تک وہ افغان زمین کو تربیت، فنڈ جمع کرنے اور منصوبہ بندی کے لیے استعمال نہ کریں۔ اب نئی امریکی انٹیلی جنس رپورٹ کہتی ہے کہ داعش خراسان 6 ماہ کی تیاری کے ساتھ امریکا کے اندر حملے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق القاعدہ کے 500 جنگجو افغانستان میں موجود ہیں اور طالبان نے ان کے ساتھ تعلقات نہیں توڑے

ایمن الظواہری کی ہلاکت اور امریکی ڈرون حملے نے خطے میں ایک نئے کھیل کو جنم دیا ہے۔ طالبان اس حملے پر مکمل خاموش ہیں اور انہوں نے صرف یہ کہا ہے کہ یہ حملہ دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ دوسری جانب امریکی صدر نے بھی افغان طالبان سے متعلق کچھ نہیں کہا۔ یہ خطرناک کھیل ہے اور ایک بات صاف ہے کہ آنے والے دنوں میں پاک-افغان تعلقات اچھے نہیں رہیں گے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close