ملیر!

محمد خان داؤد

1950ء کا ملیر… ملیر, جو اب بھی وہی ہے اور نہیں بھی!
ملیر جو ہمیشہ ایک سا ہے اور ہمیشہ بدلتا بھی رہا ہے۔ جب یہاں ائر پورٹ، ابھی نیا پرانا ائر پورٹ نہیں تھا.
جب اس جگہ سبز طوطوں کی لیغار رہتی تھی.. یہاں سبزہ ہوتا تھا اور اس سبزے میں سبز طوطے ایسے مدغم ہو جا تے تھے، کہ معلوم ہی نہیں پڑتا تھا، کہ یہ جو مکئی کے سروں پر کچے سبز بھٹے لہرا رہے ہیں یہ بھٹے ہیں یہ طوطے!؟
پر جب یہ قطار در قطار ان مکئی کے سبز سروں سے اُڑتے تھے اور دیر تک مکئی کے سبز سر ہلتے رہتے تھے، تب پتہ چلتا تھا کہ یہ طوطے ہی تھے۔ان سبزوں پر کوئی ایک دو طوطے نہیں ہوتے تھے… اتنے، کہ جب اُڑنے لگتے تو نیلا آکاش سبز ہوجاتا تھا.. اور جب مکئی پر بیٹھتے تھے، تو وہ سبز پیلے مکئی کے کچے پکے بھٹے ان طوطوں سے بھر جا تے تھے اور مکئی کے سبز اور پیلے سر بس ہرے ہی ہرے نظر آتے تھے۔
وہ حسین مناظر، جن کے لیے بڑی بوڑھیاں بچوں کو پہیلیاں بُجھواتی تھیں…
ﮨﺮﯼ ﺗﮭﯽ، ﻣﻦ ﺑﮭﺮﯼ ﺗﮭﯽ،
ﺭﺍﺟﮧ ﺟﯽ ﮐﮯ ﺑﺎﻍ ﻣﯿﮟ
ﺩﻭﺷﺎﻟﮧ ﺍﻭﮌﮬﮯ ﮐﮭﮍﯼ ﺗﮭﯽ…
ان پہیلیوں کے وہ حسین منظر کیا ہوئے.. خود پہیلیاں بن گئے شاید…
اب وہاں پر کیا ہے؟
پرانا ائر پورٹ، نئے ائر پورٹ کے پاؤں تلے دب گیا، اب پرانے ائیر پورٹ پر تو خاکروبوں کی جیمس کالونی ہے اور نیا ائر پورٹ، ائر پورٹ کم، کسی رئیس کی محل نما حویلی معلوم ہوتا ہے…

جس طرف بھی نظر دوڑائیں، عمارتوں کا ایک جنگل دکھائی پڑتا ہے… اس جنگل میں سیمنٹ کے سفید سفید درخت، جن پر کسی ملٹی نیشنل فوڈ چین کا نام لکھا ہوا ہے، تو کسی عمارت کی جبیں پر کسی مہہ جبیں کی مسکراتی تصویر کولا پینے کی دعوت دے رہی ہے… فطرت کی جگہ مصنوعيت نے لے لی ہے.

جہاں سبزہ ہوتا تھا،جہاں پانی کے ذخائر ہوا کرتے تھے، جہاں وائیڈ لائیف انسانی زندگی کو تحفظ دیتی نظر آتی تھی، جہاں جاتے ہی ایک اور دنیا کا گمان گزرتا تھا.. جہاں آنکھوں کے سامنے پُھررر کرتے تیتر گزر جا تے تھے، جہاں چلتے ہوئے اچانک کہیں خرگوش پیروں سے لپٹ جا تے تھے۔ جہاں جنگلی مرغابیاں اپنے بہت سے بچوں کے ساتھ بڑی شان سے گھوما کرتی تھیں۔جہاں چلتے چلتے سروں پر مینائیں آکر بیٹھ جا تی تھیں، جہاں سبزہ ایسے بچھا ہوا نظر آتا تھا کہ جیسے پاؤں تلے ہرا آکاش سما گیا ہو… پر اب وہاں کچھ نہیں… اب وہاں بحریہ کا آسیب رہتا ہے۔ جو ندی نالوں کا نگل گیا۔ جو ہرے بھرے درختوں کو نگل گیا۔ جو لہر لہر بہتی ندیوں کو ملیا میٹ کر گیا۔ جو چراگاہوں کے ناس کر گیا. جو بارش کے بعد جمع پانی کے چھوٹے دریاؤں کو پی گیا۔ جو ہریالی کو بھاری بلڈوزروں کے ٹائروں تلے روند گیا۔ اب وہاں کراچی کی سب سے بڑی مسجد ہے، مومن بھی خوش مُلا بھی خوش!
اب وہاں ملٹی نیشنل فوڈ چین کے ریسٹورنٹ ہیں، ڈیٹ پر جانے والی بچیاں بھی خوش اور گورے سینوں پر بہت سی منتوں کے بعد ایک بوسہ لینے والے بھی خوش!
اب وہاں عالی شان پارک ہیں، وہاں پر جانے والے بھی خوش اور وہاں سے لوٹ آنے والے بھی خوش!
اب وہاں پر بہت مہنگے اسپتال ہیں، بلڈ پریشر چیک کرانے والے بھی خوش اور بلیڈ پریشر چیک کرنے والی بھی خوش!
اب وہاں سینٹرلی ایئرکنڈیشنڈ ہسپتال میں خنکیاں بھی ہیں، گوری میمیں بھی خوش اور ان گوری میموں کو دیکھ کر ڈاکٹر بھی خوش!
اب وہاں پر کھلی اور طویل سڑکیں ہیں، ان طویل سڑکوں پر لانگ ڈرائیو پر جانے والے بھی خوش اور ساتھ میں بیٹھی انگریزی گیتوں پر جھوم کر دل بہلانے والی بچی بھی خوش!
اُدھر فطرت تاراج ہوئی، اِدھر ایک بسا بسایا شہر ویران ہوا چاہتا ہے، جو روشنیوں کے نام سے منسوب ہے، لیکن کوئی دن جاتا ہے کہ اندھیرے کے سمندر سے اٹھنے والی سونامی اسے گمنامی کی تاریکی میں ڈبو دے گی… کہ اسے ملنے والی روشنیاں اب ایک نئے شہر کے نصیب میں لکھ دی جائیں گی…
ٹینکروں کے پاس خالی بالٹیاں لے کر کھڑے عام عامیوں کی قطاریں لمبی، اور لمبی ہوتی جائیں گی..
یہاں وہی سرکاری دفاتر ہونگے، وہی اونگھتے اہلکار
وہی تالے لگے مقبوضہ مندر یونگے، وہی اُجاڑ اُجاڑ چرچ!
وہی لوگ ہونگے، وہی لوگوں کے نصیب!
چھوٹے گھر بھی وہی، ٹوٹی سڑکیں بھی وہی!
پرانے قبرستان بھی وہی، ان قبروں کی یادگاریں بھی وہی!
سوچتا ہوں تو ایک ہول سا اٹھتا ہے کہ وہ ملیر کتنا مختلف تھا، جب ملیر کے سینے پر بحریہ کا عذاب نہیں اترا تھا۔ اب تو جگہ جگہ کرینیں، بلڈوزر اور دلال نظر آتے ہیں۔ جب ملیر کے لوگ اتنے بھوکے نہ تھے۔اور نہ ہی اپنی ماں جیسی زمینیں بیچتے تھے۔جب بحریہ کا یہ عمارتوں کا جلوس بھی نہیں ہوا کرتا تھا۔
جب ملیر میں یہ عذاب نہ تھا
جب ملیر، ملیر تھا
سبز مکئی کا ملیر!
سنہرے بھٹوں کا ملیر!
سبز طوطوں کی تواروں سے چہکتا ملیر!
پانیوں سے بھری ندی نالوں کا ملیر!
کھیتوں، کھلیانوں کا ملیر!
دودھ سے بھرے مٹکوں کا ملیر!
اپنا اپنا سا ملیر!
میرا، آپ کا ملیر!
ملیر! ہمیں معاف کرنا اب ہمارا تم سے وہ رشتہ رہا ہی نہیں، جس رشتے کے لیے روس کے انقلابی دانشور ایلیا اھرمن نے کہا تھا کہ
"بیگم، شوہر کا ناطہ ٹوٹ سکتا ہے، محبتیں ختم ہو سکتی ہیں، عاشق اور محبوب جدا ہو سکتے ہیں، پر ایک رشتہ جو کبھی بھی ٹوٹ نہیں سکتا، وہ ہے ماں اور بیٹے کا… اور ہمارا وطن ہماری ماں ہے!،،

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close